سونا
سونا ہماری زندگی میں بہت اہمیت کا حامل ہے ۔ عام لوگوں کے نزدیک یہ صرف زیورات میں استعمال ہوتا ہے ۔ مگر حقیقت میں یہ اس کا مختصر حصہ ہوتا ہے ۔ جب کہ اس کا بیشتر حصہ سرد و تاریک تہہ خانوں میں لوگوں کی نظروں سے اوجھل دنیا کی کرنسیوں کو استحکام بخش رہا ہے ۔ دنیا کی تمام بڑی کرنسیوں کے استحکام یا قوت کے پیچھے اس کا ہاتھ ہوتا ہے ۔ اس لئے بڑے بڑے بروکر اور بینکر اس کا ذخیرہ شرکھتے ہیں ۔ اس سے ان کی بین الاقوامی مارکیٹ میں ان کی ساکھ بنی رہتی ہے ۔ اگرچہ سونے سے بھی زیادہ قیمتی دھاتیں موجود ہیں ، لیکن اس کے باوجود سونے کی اہمیت کم نہیں ہوئی ہے اور اپنی جگہ مستحکم اور مسلم ہے ۔ انیسویں صدی سے پہلے بشتر سونا گھرمیں محفوظ رکھا جاتا تھا جہاں وہ معاشی سرگرمیوں میں اپنی خدمات انجام نہیں دیتا تھا اور اس سے کاغذی زر کو فائدہ نہیں پہنچتا تھا ۔
قدیم زمانے میں سونے کے سکے استعمال ہوتے تھے ۔ لیکن گزشتہ انیسویں صدی کی ابتدا میں مختلف ملکوں نے سونے کے بدلے کاغذی نوٹ جاری کئے ۔ لیکن اس کے باوجود سونے کی زر کی حیثیت سے مقبولیت بدستور رہی ۔ اس وقت کوئی مضبوط کرنسی نہ ہونے کی وجہ سے اس کو بدستور استعمال کیا جاتا رہا ۔ یہ حقیقت ہے یہ اب بھی دو مختلف ملکوں کی کرنسی کے درمیان توازن قائم کرتا ہے اور سونے کو اب بھی زر کی حیثیت حاصل ہے ۔
پہلے پہل کاغذی نوٹ سونے کے بدلے میں جاری ہوئے تھے ۔ مگر سونے کی قلیل مقدار زر کی بڑھتی ہوئی مانگ پوری نہیں کررہی تھی ۔ اس لئے گزشتہ صدی کی ساتویں دھائی تک سونے کا کرنسی سے مکمل تعلق ختم کردیاگیا ۔ یہی وجہ ہے بیسویں صدی کی ابتد امیں سونے کی قیمتوں میں معمولی اضافہ ہوا اور نصف دہائی کے بعد اس میں تیزی آتی گئی اور ستر کی دہائی کے بعد اس کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ۔ اگر چہ یہ اضافہ صرف سونے کی قیمتوں میں ہی نہیں ہوا بلکہ چاندی اور دوسری دھاتوں اور تمام اشیاء اور خدمات کی قیمتوں میں بھی ہوا ( ۸ ء ۱ فیصد سالانہ ) ۔ اب اگرچہ کسی ملک کی کرنسی کے استحکام اور مضبوطی کاتعین سونے کی مقدارسے نہیں کیا جاتا ہے ۔ بلکہ کسی کرنسی میں استحکام اور مضبوطی اس کی معاشی منصوبہ بندی کی بدولت حاصل ہوتا ہے ۔ تاہم اب بھی سونے کو ایک بین الاقوامی کرنسی کے طور پر استعمال کیاجاتا ہے ۔
سونے کی کہانی صدیوں تک پھیلی ہوئی ہے ، انگلینڈ میں گزشتہ چار صدیوں (جب کہ امریکہ کی کہانی صرف دوسو سال پرانی ہے) سے بظاہر سونے کی قیمتں ٹہریں ہوئی تھیں ۔ لیکن جب ہم اس کا دوسری اشیاء کی قیمتوں کا سے موازنہ کریں تو بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اس دوران سونے کی قیمتوں میں کمی و بیشی ہوتی رہی ہے ۔
۱۸۱۵ء سے ۱۹۱۴ء کے درمیان جب کہ بین الااقوامی سونے کا معیار لندن سے نکل کر ساری دنیا میں پھیل گیا تھا ۔ نیپولین کے عروج ۱۸۱۹ء اور جنگ سے پہلے جب برطانیہ نے سونے کے بدلے پونڈ اسٹرلنگ جاری کئے تھے ۔ ۱۸۷۳ء کے درمیان یعنی نصف صدی کے بعد عام طور پریہ سمجھا جانے لگا کہ سونا ہی ایک ایسا معیار ہے جو کہ مختلف ملکوں کے درمیان درآمد و برآمد کے درمیان قیمتوں کو مستحکم و برابر رکھ سکتا ہے ۔ پھر آنے والی چوتھائی صدی ۱۸۷۳ء تا ۱۸۹۶ء کے دوران سونے کی قیمتیں ایک تہائی تک گرگئیں ، تاہم ۱۹۱۳ء میں ہی واپس اپنے پرانی قیمت پر آگئیں ۔
ہم اگرسونے کے ذخائرمیں ا ضافے اور دنیا بھر کی اشیاء صرف کی پیداوار کے درمیان محتاط موازنہ کریں تو کماحقہ اندازہ ہوگا کہ سونے کی پیداوار میں اضافہ کرنسی کی ضرورتوں کے مطابق نہیں رہا ہے اور یہ اضافہ ضرورت سے بہت کم رہا ہے ۔
تخمینہ سے پتہ چلتا ہے کہ سونے کے ذخیرہ زر کے اضافہ میں مسلسل اتار اور چڑھاؤ جاری رہاہے اور دنیا میں تفریق زر کے دو ادوار ۱۸۰۰ تا ۱۸۲۰ اور ۱۸۷۳ تا ۱۸۹۶ کے عرصے میں سونے کے اضافہ شرح نہایت کم رہی ہے ۔ شاید اس لئے اس عرصے کے دوران دنیا بھرکی اشیاء صرف کی قیمتوں میں کمی آئی تھی ۔ جب کہ ۱۹۵۰ء تا ۱۹۸۰ء کے درمیان دنیا کی معیشت میں نہایت تیزی (۱ ء ۵ فیصد سالانہ) آئی اور ذخیرہ زر میں اس کی پیداوار میں (۸ ء ۱ فیصد سالانہ) کمی آئی ۔ سونا جو ابتدا ہی سے کرنسی کی مانگ کو پورا نہیں کر پا رہا تھا اس دور میں سونے کے معیار کو ترک کرناپڑا ۔ البتہ اس کی خدمات دنیا میں بطور عام کرنسی کے بدستور استعمال ہورہی ہیں ۔
انیسویں صدی میں سونا بین الاقوامی ادا ئیگیوں میں استعمال ہونے لگا ۔ دنیا کے ممالک اپنی کرنسی کے اس حقیقی مطالبات زر کو اس سونے سے پورا کررہے تھے جو ان کے پاس محفوظ تھا ۔ اس کے لئے اِن کی کوشش ہوتی تھی کہ زیادہ سے زیادہ اپنے سونے کے ذخیرے میں اضافہ کریں ۔ سونے کی قیمتوں میں اضافہ کے لئے انہوں نے اپنی حقیقی ضرورت سے زیادہ سونا جمع کرنے کے لیے سونے کی پیداوار بڑھانے کی کوشش کی کہ سونا زیادہ سے زیادہ کانوں سے نکالا جائے ۔
آ ج کل دنیا کا بیشتر سونا جنوبی افریقہ سے نکالا جا رہا ہے ۔ وہاں دنیا کی پیدا وار کا نصف سونا نکل رہا ہے ۔ جب کہ سابقہ روس کے علاقوں میں ۳۰ فیصد ، کنیڈامیں ۸ ء ۳ فیصد ، امریکہ میں ۳ ء ۲ فیصد اور دوسرے ملکوں میں ۹ ء ۳ فیصد سونا نکل رہا ہے ۔ سونے کی قیمت مقرر نہ ہونے کی وجہ سے اس سے غیر متوقع فائدہ دو ملکوں یعنی جنوبی افریقہ اور سابقہ روس نے اٹھایا ۔
سونے کے معیار کا دفاع کرنے والوں کا کہنا ہے کہ سونے کو کم مقدار میں خریدیں اس طرح سونے کی قیمتوں میں کمی آجائے گی ۔ جیسا کے ۱۹۲۹ء میں ہوا تھا ۔ اس میں حقیقت ہے کہ سونے کے معیار کو قائم رکھنے کیلئے شروع ہی سے سونے کی کمی رہی ہے ۔ ایسی ہی کمی سونے کی کانوں کی دریافت (امریکی سونا کی دریافت سولویں صدی اور سترویں صدی کی ابتدا میں ، کیلیفورنیا و آسٹریلیا کے سونا کی آمد، انیسوں صدی کے درمیان میں ، کلونڈک ، ٹنسوال کے سونا کی آمد اسی صدی میں) کے وقت بدستور تھی ۔ اس لئے دنیا بھر میں سونے کی معاشی عدم استحکام ہورہا تھا ۔ اس لئے ضروری تھا کہ سونے کے معیار سے علیحدگی اختیار کی جائے ۔ دوسرے لفظوں میں سونے کے معیار سے دست برداری اعلان تھا کہ حقیقی زر کی ضرورت بڑھ رہی ہے اور مطالبات زر بھی اسی تیزی سے بڑھ تھے اور یہ سبب سونے کی قیمتوں میں استحکام کا باعث بنا ۔ جب کہ آزادانہ روپیہ کی طلب سونے کے معیار سے کم ہوچکی تھی ۔ یہ تجزیہ بتاتا ہے کہ سونے کی قیمتوں میں استحکام یا قیمتوں میں اضافے کی حقیقی مزاحمت کو جوکہ سونے کے معیار کے زیر اثر مستحکم قیمتوں کے طریقہ کار سے عدم استحکام کی جانب گامزن ہوتی ہیں ۔
گزشتہ سوسال کے جائزے سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ سونا کافی کامیاب معیار ہے یا دوسرے سامان کا عمدہ معیار ہے ۔ شاید اس لئے سونا فرضی طورپرایک معیاری کرنسی کو وہ اعتماد دیتا ہے جیسا کہ سونا خود کرنسی ہو جو کہ رکھنے والے کو اعتماد دیتا ہے ۔ اس وجہ سے یہ سوال ابھرتے ہیں کہ سونے رکھنے میں کیا پریشانی ہے ؟ مستحکم کرنسیوں میں سودی آمدنی کیوں نہیں حاصل کی جاتی ہے ؟ خیال رہے سونا رکھنا ایک پانی کا جہاز رکھنے سے بھی زیادہ مہنگا ہے ۔ کیوں کہ سونا دنیا کی کسی بھی کرنسی سے زیادہ سیال ہے ۔
سونے اور کرنسی کا تعلق ۱۹۶۸ سے ختم ہونا شروع ہوگیا ، خاص کر ۱۹۷۱ سے یہ تعلق بالکل ختم ہوگیا تھا ۔ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ سونے کے معیار کو کس طرح زوال آیا اور اب حکومتیں سونے کے بجائے مستحکم کرنسیوں کو حاصل کرنے کو ترجیع دیتی ہیں ۔ جب کہ لوگ اور نجی ادارے رومانوی طور پر اس پر توجہ دیتے ہیں (امریکہ نے ۱۹۷۵ میں عام لوگوں کو سونا رکھنے کی اجازت دی تھی) ۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ سونے کی قیمتیں تیزی سے بدلتی رہتی ہیں ، اس لئے کوئی حکومت سونے کو یکساں قیمت پر خرید و فروخت نہیں کرسکتی ہے ۔ یہ صرف ایسی صورت میں ممکن ہے کہ حکومت کی کرنسی کی قیمت سونے کی تیزی سے بدلتی ہوئی قیمت کا ساتھ دے ، لیکن یہ ناممکن ہے ۔ اس لیے کہ کوئی بھی حکومت اس بات کی ہمت نہیں کرسکتی ہے کہ وہ سونے کے بدلے کرنسی حاصل کرے ۔ اس لئے سونے کا کاروبار کرنے والا کوئی بھی شخص سونے کی قیمت کو سرکاری مقابلے میں بلند کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا ہے ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے سونے کی قیمتوں میں پچھلے برسوں اتنی تیزی کیوں آئی ہے ؟ اس کا بہترین اور مختصر جواب یہ ہے کہ سونے کی مارکیٹ میں مقابلہ کرنے والے آگئے ہیں ۔ یہ حیرت کی بات دکھائی دیتی ہے کہ یہ مقابلہ کرنے والے لوگ آج کل کے وقت میں اپنے مال کی قیمتوں کو اس حد تک زندہ رکھتے ہیں جو کہ آج کل کے وقت میں ایک خطرناک بات ہے ۔
ایک آدمی سونا حاصل کرنا کیوں پسند کرتا ہے ؟ اس کو سمجھنے کے لئے آپ فرض کریں آپ ایک دولت مند شخص ہیں اور آپ دنیا کے کسی غیر مستحکم علاقے میں رہتے ہیں ، تو آپ اپنے سرمائے کو محفوظ کس طرح کریں ؟آپ اگر چاہیں تو یقینأ ذاتی طور پر ایسی چیزیں رکھ سکتے ہیں جو کہ پیداوار دیتی ہیں مثلأ زمین فیکٹری یا بانڈ اگرچہ ان چیزوں پر آپ حکومت کو ٹیکس دیتے ہیں ، لیکن عدم تحفظ کی وجہ سے یہ سیاسی جوا ہے اور کسی انقلاب یا سیاسی بحران کی وجہ سے ان کے ضبط یا مجمند ہونے کا خطرہ بھی ہے ۔ مثلََا امریکہ نے ۷۹۔۱۹۸۱ ء کے دوران اچانک جب کہ ایران میں امریکی یرغمالیوں کے بحران کے دوران آئرن کی مصنوعات کو منجمد کردیا تھا ۔ یاد رہے سونا کوئی پیداواری چیز نہیں ہے اور سونا رکھنا بہ نسبت ایک جہاز کے زیادہ مہنگا ہے ۔ لیکن اس صورت میں آپ یقیناًسونے کوترجیح دیں گے ۔ کیوں کہ سونے کو بہ نسبت دوسری چیزوں کے بغیر کسی ٹیکس کے با آسانی چھپایا اور اس کی نقل و حرکت کی جاسکتی ہے ۔
کسی چیز پر پیسہ لگانے کے لئے ایک پیشگی اطلاع کی ضرورت ہوتی ہے ۔ لیکن ہم سونے کے بارے میں ایسی کوئی پیشن گوئی نہیں کرسکتے ہیں ۔ مثلاََ ۱۹۸۰ ء میں سونے کی قیمت اچانک پچاس فیصد گر گئی تھی ۔ لیکن ۱۹۸۰ ء میں ہی اس کی قیمت میں نمایاں تیزی امریکی آئرن اور یرغمالیوں کے بحران دوران آئی ۔ اس لئے سونے کا ایسا رویہ جبلی طور پر پیشن گوئی کرنے والا نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی ہم اس کو دور اندیشی سے درست کرسکتے ہیں ۔ کسی قیمت کے استحکام سے دوسرے تعلقات میں جو خرابیا ں جنم لیتی ہیں وہ اس میں موجود ہیں ۔
گزشتہ برسوں میں سونے کی قیمتوں میں تیزی سے بڑھنے کا سبب یہ ہے کہ اس کی پیداوار مانگ کے مقابلے میں تیس فیصد کم ہے ۔ اس لئے سونے کی قیمت ایک مختصر وقت کے لئے گرتی ہے اور قیمت کے گرتے ہی لوگ اس کی خریداری شروع کرتے ہیں ۔ اس طرح پھر سے اس کی قیمت میں تیزی آجاتی ہے اور اس طرح یہ کمی صرف ایک مختصر عرصے کے لئے ہوتی ہے ۔ جیساکہ ۱۹۸۰ ء میں ہوا تھا ، جب کہ اس کی قیمتیں پچاس فیصد تک گر گئیں تھیں ۔ لیکن ۱۹۸۰ء میں اس کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہوا ۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ سونے کی خریداری کم کریں ۔ اس طرح اس کی قیمت گر جائے گی جیسے کہ ۱۹۲۹ء میں ہوا تھا ، جب اس کی قیمت دو تہائی تک گر گئی تھی ۔ لیکن ہم اس کا غیر جانب داری سے جائزہ لیں اور معاشی تجزیہ کریں کہ جنگ عظیم اول کے بعد دنیا کی معیشت ابتری کا شکار ہوگئی تھی اور دنیا کی معیشت کو کساد بازاری اس طرح کھاگئی تھی جس طرح دیمک لکڑی کو کھا جاتی ہے ۔ لیکن دنیا جیسے ہی اس کسادبازای سے نکلی اور جہاں دنیا کی معیشت کو استحکام حاصل ہوا وہاں سونے کی قیمت کو بھی استحکام ملا ۔ ۱۹۵۰ء تا ۱۹۸۰ء کے درمیان دنیا کی معیشت میں انتہائی تیزی (۰۱ ء ۵ فیصد سالانہ) آئی اور اس کی قیمتوں میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ۔
سونے کی تیزی سے بڑھتی ہوئی قیمت کا سبب یہ بھی ہے کہ دنیاکے مختلف علاقوں میں سیاسی استحکام نہ ہونے کی وجہ سے اور افراط زر کی وجہ سے خاص کر درمیانہ طبقے کے لوگ کاروبار ، تجارت اور صنعت کی ناتجربہ کاری کی وجہ سے اور سیاسی وجوہات کی بناء پر سونا خریدنا پسند کرتے ہیں چاہے وہ زیور کی شکل میں کیوں نہ ہو حقیقت میں دنیا میں بحران یا سیاسی عدم استحکام بھی اس کی قیمت میں اضافہ کاموجب رہے ہیں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔