(Last Updated On: )
تقریباً سونے کا وقت ہو چلا تھا اور جب وہ لوگ جاگتے توزمین نظروں کے سامنے ہوتی۔ ڈاکٹر میکفیل نے اپنا پائپ سلگایا اور جنگلے سے ٹیک لگا کر آسمان مِیں سدرن کراس [1] تلاش کرنے لگا۔ محاذ پردو سال گزار کر اور ایسا زخم سہنے بعد، جس نے مندمل ہونے میں ضرورت سےزیادہ وقت لیا تھا، اب وہ آپیا [2]میں کم از کم بارہ ماہ کے لیے سکون سے آباد ہونے پرمسرور تھااور سفر کے لیے خود کو توانا محسوس کررہا تھا ۔ چونکہ کچھ مسافروں کو اگلی بندرگاہ پاگو -پاگو [3] پراتر نا تھا اس لیے شام میں ان سب نے رقص کیا تھا اور میکنیکل پیانو کے کرخت سُر اب تک اس کے کانوں میں ہتھوڑے کی طرح برس رہے تھے۔ بالاخرعر شے پرخاموشی ہوگئی ۔ اس نے دیکھا کہ کچھ فاصلے پراس کی بیوی ایک لاونج کرسی پر براجمان، مسٹر اور مسز ڈیوڈسن سے گفتگو کررہی تھیں ، سووہ بھی آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ہوئے ان کے پاس پہنچ گیا۔ جب وہ روشنی میں بیٹھا اوراپنا ہیٹ اتارا تواس کے سرکے سرخ بال نظر آنے لگے ، چندیا تھوڑی سی گنجی تھی اورسرخ جھائیوں زدہ جلد پرسرخی مائل رُواں تھا۔ چالیس سالہ ڈاکٹر اصول پسند اور باریک بین انسان تھا ۔ وہ اسکاٹش لہجے اور دھیمی آواز میں بات کرتا تھا۔
مسٹر اور مسز ڈیوڈسن ، جو کہ دونوں مشنری تھے، اور مسٹراورمسز میکفیل کے مابین دوستی جہاز پر ہی پروان چڑھی تھی ۔ اس دوستی کی بنیاد کوئی مشترکہ ذوق نہیں صرف نزدیکی تھی ۔ دونوں جوڑے تمباکو نوشی کے کمرے میں پوکر یا برج کھیلتے اور شراب نو شی کرتے ہوئےمسافروں کو سخت ناپسند کرتے تھے اور یہی واحد قدر دونوں میں مشترک تھی ۔ مسزمیکفیل اس بات پرخوشی سے پھولے نہیں سماتی تھیں کہ جہاز کے تمام مسافروں میں سے صرف وہ دونوں میاں بیوی ایسے مسافرتھے، جن سے مسٹراورمسز ڈیوڈ سن دوستی کرنے کے خواہاں تھے۔ ڈاکٹر کچھ کم آمیزضرور تھا لیکن اس کی عقل پوری طرح کام کرتی تھی ، لہذا اس نے بھی نیم دلی سے اہلیہ کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے، مشنری میاں بیوی کی دوستی کی خواہش کو اپنی عزت افزائی تسلیم کر لیا ۔ دراصل ، وہ منطقی ذہن کا مالک انسان تھا لیکن رات کے وقت اس نے کسی بحث سے بچنے کے لیے بیوی کی فضول بات خاموشی سے سن لی تھی۔
“مسز ڈیوڈسن کہے رہی تھیں کہ معلوم نہیں ان کا سفر کیسے کٹتا اگر ہم جہاز پر ان کے ساتھ نہ ہوتے ۔” مسز میکفیل نے نفاست سے اپنی وگ اتارتے ہوئے کہا۔” انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ جہاز پر صرف ہم لوگوں سے ہی واقفیت رکھنا پسند کرتے ہیں۔”
” مجھے نہیں معلوم تھا کہ ایک مشنری اتنا اہم آدمی ہو سکتا ہے کہ یوں اتراتا پھرے۔”
” یہ اترانا نہیں ہے ۔ میں اچھی طرح سمجھتی ہوں کہ ان کی بات کا کیا مطلب ہے۔ مسٹر اور مسز ڈیوڈسن کے لیے تمباکو نوشی کے کمرے میں موجود بیہودہ لوگوں کے ساتھ میل جول بالکل مناسب نہیں ہے ۔”
” ان کے مذہب کے بانی تو کسی خاص طبقے کے لیے مخصوص نہیں تھے ۔” ڈاکٹر میکفیل نے زیر لب ہنستے ہوئے کہا۔
” میں نے کئی بار تم سے کہا ہے کہ مذہب کا مذاق نہ اڑایا کرو۔” بیوی نے جواب دیا۔” میں تمہاری جیسی فطرت کی نہیں ہونا چاہتی، الیک۔ تمہیں کبھی انسانوں میں خوبیاں نظر نہیں آتیں ۔”
اسں نےاپنی پیلاہٹ مائل نیلی آنکھوں سے بیوی پرترچھی نظرڈالی ، لیکن جواب دینے سے گریز کیا۔ شادی کے کئی سال بعد اسے سمجھ آگیا تھا کہ امن وامان قائم رکھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ بیوی کی بات مان لی جائے ۔ وہ بیوی سے پہلے لباس اتار چکا تھااور اوپر والے بنک بیڈ پرچڑھنے کے بعد مطالعہ کرنے بیٹھ گیا تاکہ نیند آجائے۔
جب اگلی صبح وہ عرشے پر پہنچا تو جہاز ساحل کے نزدیک تھا ۔ اس نے بےقرار نگاہوں سے کنارے کو دیکھا ۔ ساحلی پتلی سے نقرئی پٹی برگ پوش پہاڑیوں تک پھیلی نظر آتی تھی ۔ گھنے سر سبزناریل کے درخت کنارے کے قریب تھے، اوران کے درمیان سموانز [4]کے سبز گھراور کہیں کہیں سے چمکتا ہوا چھوٹا سا سفید گرجا بھی دکھائی دیتا تھا ۔مسز ڈیوڈسن اس کے پاس آ کرکھڑی ہوگئیں ۔ وہ سیاہ پوشاک میں ملبوس تھیں، ان کی گردن کے گرد حمائل سونے کی زنجیر میں ایک چھوٹی سی صلیب آویزاں تھی۔ وہ منحنی سی خاتون تھیں ۔ان کے ہلکے بھورے، بے رونق بال بہت اہتمام سے آراستہ تھے اوربڑی بڑی نیلی آنکھیں بغیرکمانیوں والی عینک کے پیچھے پنہاں رہتی تھیں ، چہرہ بھیڑکی طرح لمبوترا تھا لیکن وہ احمق نہیں ، بلکہ انتہائی ہوشیار تھیں اور حرکات میں پرندے سی پھرتی تھی ۔ ان کی شخصیت میں سب سےخاص چیز ان کی اونچی ، سمع خراش اور زیرو بم کے بغیرآواز تھی ، جو برما مشین کے تکلیف دہ شور کی مانند ، اعصاب کو اذیت دیتی ہوئی شدید یک سُری سے کانوں میں پڑتی تھی ۔
” آپ کو تو یہ گھرجیسا معلوم ہوتا ہوگا۔” میکفائل نے اپنی مہین اور مشکل مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
“ہمارے جزائر نشیبی ہیں ، ان جیسے نہیں ۔ یہ مونگے کے آتش فشانی جزائرہیں ۔ ہمیں وہاں تک پہنچنے کے لیے ابھی مزید دس کا سفر کرنا ہے ۔ “
” ان مقامات پرتقریباً ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے آپ اپنے پڑوسی محلے میں ہیں ۔” میکفیل نے ازراہِ تفنن کہا۔
” جناب آپ نے تو مبالغے سے کام لیا ہے ، لیکن یہ بھی درست ہے کہ جنوبی سمندروں کے لوگ فاصلوں کو ذرا مختلف نظر سے دیکھتے ہیں ۔ اس لحاظ سے آپ ٹھیک کہتے ہیں ۔”
ڈاکٹر میکفیل نے دھیمے سے گہری سانس لی ۔
” میں خوش ہوں کہ ہم یہاں تعینات نہیں ہیں ۔ ” مسز ڈیوڈ سن نے بات جاری رکھی ۔ ” کہتے ہیں کہ مشنریوں کے لیے یہ انتہائی دشوار مقام ہے ۔ دخانی جہازوں کی آمد ورفت لوگوں کو پریشان کرتی ہے اور پھر یہاں نیوی کا اسٹیشن بھی ہے یہ مقامی لوگوں کے لیے مشکلات کا باعث ہے۔ ہمیں اپنے ڈسٹرکٹ میں ان مسائل سے نہیں نبٹنا پڑتا ۔ ظاہر ہے، وہاں بھی چند تاجر ہیں لیکن ہم انہیں تمیز سے رہنا سکھا دیتے ہیں اور اگر وہ من مانی سے باز نہیں آتے ، تو ہم ان کے لیے وہ جگہ اتنی خطرناک بنا دیتے ہیں کہ وہ لوگ وہاں سے خوشی خوشی چلے جانے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں۔
عینک ناک پر جماتے ہوئے مسز ڈیوڈسن نے سبز جزیرے پر سفاک نگاہوں سے نظر ڈالی ۔
کہا جاتا ہے کہ یہاں مشنریوں کے لیے کام کرنا ناممکن ہے ۔میں کبھی خدا کا شکر ادا کر ہی نہیں سکتی کہ کم از کم اُس نے ہمیں اِس جگہ سے بچا لیا۔
ڈیوڈسن کی ڈسٹرکٹ سامووا [5] کے شمال میں متعدد جزائر پر مشتمل تھی اور مسٹر ڈیوڈسن کو اکثر ڈونگی [6] پر سوار ہوکر لمبے سفر کرنے پڑتے تھے ۔ایسے وقتوں میں اس کی بیوی ہیڈکوارٹر میں ہی ٹھہر کرمشن کا کام سنبھالتی تھیں ۔ڈاکٹر کو اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوا جب اسں نے مسز ڈیوڈسن کی اس لیاقت پرغورکیا جس سے وہ یہ کام سنبھالتی ہوں گی ۔ مسز ڈیوڈسن نے مقامی افراد کی گمراہی کا ذکر انتہائی مرچ مسالہ لگا کر ایسے دہشتناک لہجے میں کیا ،جسے خاموش کرانا مشکل تھا۔ مسز ڈیوڈسن میں کما ل کی نفاست تھی ۔شروع کی ملاقاتوں میں انہوں نے ڈاکٹر کو بتایاتھا۔
“جب ہم وہاں پہلی بار پہنچے ، مجھے ان لوگوں کی شادی کی رسومات اتنی خوفناک لگیں کہ میں آپ کو بیان نہیں کر سکتی لیکن میں مسزمیکفیل کو تفصیل بتاوں گی اور وہ آپ کے گوش گزار کر دیں گی ۔”
پھر ڈاکٹر نے اپنی بیوی اور مسز ڈیوڈسن کو عرشے کی کرسیاں نزدیک کیے، تقریبا دو گھنٹے تک سنجیدگی سے گفتگو کرتے ہوئے دیکھا۔ جب وہ ورزش کی خاطران دونوں خواتین کے پاس سے آگے پیچھے ٹہلتے ہوئے گزرا تو اسے مسز ڈیوڈسن کی جھنجھلاہٹ بھری سرگوشی سنائی دی ، جیسے دور کسی پہاڑی سے پانی ریلا گرنے کی آواز،اور مسز میکفیل کے چہرے پر ایسے تاثرات تھے جیسے وہ کسی خطرناک تجربے سے لطف اندوز ہو رہی ہوں۔ رات اپنے کیبن میں اس کی بیوی نے سراسیمگی وہ تمام تفصیلات شوہر کو سنائیں جوانہیں مسز ڈیودسن نے بتائیں تھیں۔
میں نےآپ سے کیا کہا تھا؟ مسز ڈیوڈسن اگلی صبح فاتحانہ انداز میں چیخیں ۔ کیا آپ نے کبھی اس سے زیادہ خوفناک کچھ سناہے؟ آپ کو تعجب نہیں ہوتا کہ یہ باتیں میں خود آپ کو کیوں نہیں بتا پائی ؟حالانکہ آپ ایک ڈاکٹر ہیں ۔
مسز ڈیوڈسن نے غور سے ڈاکٹر کے چہرے کا جائزہ لیا۔ غیر متوقع طور پر وہ یہ دیکھنے کی مشتاق تھیں کہ وہ ڈاکٹر میں جس قسم کے تاثرات پیدا کرنا چاہتیں تھیں ، اس میں کامیاب ہوئیں یا نہیں ۔
“کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ جب ہم پہلی بار وہاں پہنچے تھے ، ہمارے دل بیٹھ گئے تھے ؟۔ آپ کو میری بات پر بمشکل یقین آئے گا جب میں آپ کو یہ بتاؤں گی کہ ان دیہاتوں میں سے کسی ایک میں بھی ،کوئی ایک بھی اچھی لڑکی تلاش کرنا، ناممکن ہے۔
انہوں نے لفظ ‘اچھی’ انتہائی تکنیکی انداز میں استعمال کیا تھا۔
“میں نے اور مسٹر ڈیوڈسن نے ان معاملات پر بات چیت کرنے کے بعد فیصلہ کیا کہ سب سے پہلے رقص پر پابندی عائد کرنی چاہیے ۔ مقامی لوگ رقص کے دیوانے تھے ۔
جوانی میں مجھے بھی رقص بُرا نہیں لگتا تھا۔ ڈاکٹر میکفیل نے کہا ۔
“اتنا اندازہ مجھے اس وقت ہو گیا تھا جب میں نےکل رات سنا کہ آپ نے مسز میکفیل کو اپنے ہمراہ رقص کرنے کے لیے بلایا تھا۔ میرے خیال میں اپنی بیوی کے ساتھ رقص کرنے میں کوئی قباحت نہیں، لیکن مجھے اس وقت اطمینان ہوا جب مسز میکفیل نے رقص کرنے سے انکار کر دیا ۔ میں سمجھتی ہوں کہ موجودہ حالات میں ہمیں بس اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے ۔ “
“کیسے حالات؟”
مسز ڈیوڈسن نے اپنی عینک کے پیچھے سے ڈاکٹر پر اچٹتی نگاہ ڈالی لیکن سوال کا جواب نہیں دیا۔
لیکن سفید فام لوگوں میں ایسا رقص نہیں ہوتا۔” مسز ڈیوڈسن نے بات جاری رکھی ۔ ” مسٹر ڈیوڈسن کہتے ہیں کہ ‘انہیں سمجھ نہیں آتا کہ کیسے ایک خاوند اپنی بیوی کو کسی دوسرے آدمی کی بانہوں میں دیکھ سکتا ہے’ اور میں تو کہوں گی کہ مجھے ان کی اس بات سے مکمل اتفاق ہے ۔ جہاں تک میرا تعلق ہے ، جب سے میری شادی ہوئی ہے میں نے کبھی رقص نہیں کیا۔ لیکن مقامی رقص ایک بالکل ہی مختلف معاملہ ہے ۔ یہ نہ صرف خودغیر اخلاقی ہے ، بلکہ واضح طور پر بد کاری پر اکساتا ہے۔ بہر حال میں خدا کی شکر گزار ہوں کہ ہم نے اسے بالکل ختم کر دیا اور شاید میرا یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ ہمارے ڈسٹرکٹ میں کسی شخص نے پچھلے آٹھ سال سے رقص نہیں کیا ہے ۔”
اب وہ بندرگاہ کے دہانے پر پہنچ گئے تھے اور مسز میکفیل بھی ان دونوں کے پاس آ گئیں تھیں ۔ جہاز تیزی سے اندر مڑا اور آہستہ آہستہ گھاٹ کے اندر داخل ہوگیا۔ یہ زمین کے درمیان گھری اتنی بڑی بندرگاہ تھی کہ جس میں جنگی جہازوں کا پورا ایک بیڑہ سما سکتا تھا، اس کے اطراف اونچی اونچی اور ڈھلوان، سبز پہاڑیاں ایستادہ تھیں ۔داخلی راستے کے قریب باغ میں، سمندری ہواوں کے سامنے ، گورنر ہاؤس سر اٹھائے کھڑاتھا ، اور اس کی پیشانی میں پیوست ایک بانس سے امریکی جھنڈا لٹک رہا تھا ۔
وہ لوگ دو چھوٹے بنگلوں ، ایک ٹینس کورٹ سے گزر کر گھاٹ کے گوداموں تک آگئے ۔ مسزڈیوڈسن نے دو یا تین سو گز کے فاصلے پر لنگر انداز ایک چھوٹے بادبانی جہاز کی طرف اشارہ کیا جو انہیں آپیا لے جانے والا تھا ۔ جزیرے کے تمام حصوں سے شوقین ، شور مچاتے ، خوش مزاج مقامی لوگوں کا ہجوم موجود تھا ۔ کچھ تجسس کے مارے، کچھ سڈنی جانے والے مسافروں سے اشیاء کا تبادلہ کرنے والے لوگ تھے۔ یہ لوگ اپنے ساتھ انناس ، کیلوں کے بڑے بڑے گچھے، تاپا کپڑے ، شارک مچھلیوں کے دانتوں اور سیپیوں سے بنے ہار، کاوا پیالے [7] اور جنگی کشتیوں کے ماڈل لائے تھے ۔ان کے درمیان صاف ستھرے ، کلین شیو ، بے تکلف امریکی ملاح گھوم ہو رہے تھے اور ان میں چند سرکاری افسران بھی شامل تھے ۔ جس دوران ان لوگوں کا سامان جہاز سے اتاراجا رہا تھا مسٹر اور مسز میکفیل اور مسز ڈیوڈسن ہجوم کو دیکھ رہے تھے ۔ ڈاکٹر میکفیل نے بہت سے بچے اور نوعمر لڑکے دیکھے جو یاز(Yaws) [8] کی بیماری میں مبتلا نظر آتے تھے ۔ ان کے جسموں پر مسخ کر دینے والے ٹارپڈ السر جیسے زخم تھے ۔ جب ڈاکٹر نے اپنی زندگی میں پہلی بار فیل پا کے مر یض دیکھے ،جن کے بازو بہت بڑے اور بھاری تھے یا انتہائی مسخ شدہ ٹانگ گھسیٹ رہے تھے، تو اس کی پیشہ ورانہ نگاہیں چمک اٹھیں ۔مرد اور عورتیں لاوا لاوا [9] میں ملبو س تھے ۔
“یہ بہت ہی نا شائستہ لباس ہے۔” مسزڈیوڈسن نے کہا۔ ” مسٹر ڈیوڈسن کا خیال ہے کہ اس پر قانوناً پابند ی عائدہونی چاہیے ۔ جو لوگ اپنے کولھوں کے گرد ایک سرخ کترن لپیٹنے کے علاوہ کچھ نہیں پہنتے ، آپ ان سے کیسے نیک چلنی کی امید کر سکتے ہیں ؟”
” لیکن یہ موسم کے لحاظ سے کافی موزوں ہے ۔” ڈاکٹر نے پیشانی سے پسینہ پونچھتے ہوئے کہا۔
حالانکہ ابھی کافی صبح تھی ، لیکن زمین پر قدم رکھتے ہی گرمی سفاک ہو چکی تھی ۔ پہاڑوں میں گھرے پاگو -پاگو میں ہوا کا کوئی گزر نہیں تھا ۔
” ہمارے جزائر پر ۔” مسز ڈیوڈسن اپنی تیز آواز میں بو لتی رہیں ۔” عملی طور پر ہم نے لاوا لاوا کا وجود تقر یباً مٹا دیا ہے ۔بس چند بوڑھے مرد اب بھی اسے پہنتے ہیں۔ تمام خواتین مدر ہبرڈ [10] جبکہ مرد پتلون اور سنگلیٹس [11] پہنتے ہیں ۔ ہمارے قیام کے ابتدائی ایام میں ہی ، مسٹر ڈیوڈسن نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھ دیا تھا کہ : ان جزائر کے باشندوں کو اس وقت تک مکمل عیسائی نہیں بنایا جا سکتا جب تک دس برس سے زیادہ عمر کے ہر لڑکے کو پتلون پہننے پر مجبور نہ کردیا جائے ۔”
مسز ڈیوڈسن نے گہرے سرمئی بادلوں پر دو تین بار طائرانہ نظر ڈالی جو بند ر گاہ کے دہانے پر منڈلا رہے تھے ۔ بوندا باندی شروع ہو گئی تھی ۔
“ہمیں کوئی سائیبان تلاش کر لینا چاہیے ۔” انہوں نے کہا۔
وہ لوگ بھیڑ میں سے گزرتے ہوئے لوہے کے ایک بڑے سے چھپرکے نیچے کھڑے ہوگئے اور موسلا دھار بارش شروع ہوگئی ۔ ان لوگوں کو وہاں کھڑے کچھ وقت ہی گزرا تھا کہ مسٹر ڈیوڈسن بھی ان سے آن ملے ۔
مشنری ڈیوڈسن ، سفر کے دوران ڈاکٹر میکفیل اور ان کی بیگم کے ساتھ کافی شائستہ رہا تھا لیکن وہ اپنی بیوی کی طرح ملنسار نہیں تھا اورزیادہ تر وقت مطالعے میں مصروف رہتا تھا ۔ وہ خاموش بلکہ یو ں کہیں کہ کچھ روکھے مزاج کا آدمی تھا اور لگتا تھا کہ اسں نے خوش اخلاقی، صرف عیسائیت کا ایک فرض سمجھ کر خود پر مسلط کی ہوئی تھی ۔ فطرتاً وہ الگ تھلگ رہنے والا اکل کھرا انسان تھا ۔ اس کی جسامت کچھ انوکھی سی تھی ۔ لمبا اور دبلا پتلا ، ڈھیلی ڈھالی لمبی لمبی ٹانگیں اور ہاتھ ، پچکے ہوئے گال اور غیر معمولی ابھری گالوں کی ہڈیاں کے ساتھ وہ اتنا سوکھا تھا کہ پورے جسم کے مقابلے میں اس کے ہونٹ بھربھرے اور شہوانی محسوس ہوتے تھے۔زلفیں دراز رکھی ہوئی تھیں ۔ خانہ ِ چشم میں دھنسی ہوئی دقیق آنکھیں کشادہ اور پر سوز تھیں ۔ لمبی اور بڑی انگلیوں کے ساتھ اس کے ہاتھ بڑے خوش وضع تھے اور ان کی وجہ سے وہ کافی طاقت ور دیکھائی دیتاتھا ۔ لیکن اس کی سب سے نمایاں خاصیت یہ تھی کہ وہ دبی ہوئی ایک چنگاری محسوس ہوتا تھا اور یہ کافی اثر انگیز اور تھوڑا پریشان کن احساس تھا۔ وہ ایک ایسا آدمی تھا جس کے ساتھ کوئی قربت ممکن نہیں تھی ۔
اور اب وہ ایک ناخوشگوار خبر ساتھ لایا تھا ۔ جزیرے پر خسرہ کی وبا پھیل گئی تھی جو کہ کناکا [12] آبادی میں خطرناک اور اکثر مہلک ثابت ہوتی تھی ، اور وہ بادبانی جہاز جو انہیں آگے سفر پر لے جانے والا تھا اس کے عملے کا ایک آدمی خسرہ میں مبتلا پایا گیا تھا۔ متاثرہ آدمی کو جہاز سے اتار کر قرنطینہ اسٹیشن میں داخل کر دیا گیا تھا ۔ لیکن آپیا سے ٹیلی گرافک ہدایات بھیج دی گئیں تھیں ، جن کے مطابق جہاز کو بندرگاہ میں اس وقت تک داخلے کی اجازت نہیں ہوگی جب تک اس بات کا یقین نہ کر لیا جائے کہ عملے کا کوئی دوسرا فرد تو خسرہ سے متاثر ہ نہیں ہے ۔
” اس کا مطلب ہے کہ ہمیں یہاں کم از کم دس دن رُکنا پڑے گا۔”
“لیکن آپیا میں ، میری فوری اور اشد ضرورت ہے ۔” ڈاکٹر میکفیل نے کہا ۔
” اب آپ نہیں جاسکتے ۔ اگر جہاز پر خسرہ کے مزید کیسز سامنے نہیں آتے ،تب جہاز کو صرف گورے مسافروں کو لے جانے کی اجازت ہوگی، لیکن مقامی آبادی پر تین ماہ کیلئے سفری پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ “
” کیا یہاں کوئی ہوٹل موجود ہے ؟” مسز میکفیل نے پوچھا۔
“ڈیوڈسن زیر لب مسکرانے لگا۔”
“یہاں ہوٹل نہیں ہے ۔”
” پھر ہم کیا کریں گے ؟”
میری گورنر سے بات ہوئی ہے ۔ یہاں قریب ہی ایک تاجر ہے جو کمرے کرایے پر دیتا ہے اور میری تجویز یہ ہے کہ جیسے ہی بارش رُکتی ہے ہمیں وہاں جا کر دیکھنا چاہیے کہ کیا انتظام ہو سکتا ہے ۔ آرام دہ ہونے کی توقع نہ کیجیے گا۔ اگر ہمیں سونے کے لئے بستر اور سر چھپانے کے لیے چھت مل جائے تو اس کا ہی بہت شکر منائیے گا ۔
لیکن بارش رکنے کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے تھے ، آخر کار وہ چھتریوں اور برساتیوں کے ساتھ ہی چل پڑے۔ وہاں کوئی قصبہ نہیں تھا صرف چند سرکاری عمارتیں تھیں ، ایک یا دو دکانیں اور عقب میں، ناریل کے درختوں اور کھیتوں کے درمیان چند مقامی لوگوں کے گھر تھے ۔ انہیں جس گھر کی تلاش تھی وہ گھاٹ سے پانچ منٹ کی دور ی پر واقع تھا ۔ یہ دو منزلوں کا فریم ہاؤس تھا، جس کی دونوں منزلوں پر کشادہ برآمدے اور ٹین کی چادروں والی چھت تھی ۔ اس کا مالک ،ہورن ، دو نسلا تھا۔ اس کی مقامی بیوی سانولے بچوں کے درمیان گھری ہوئی تھی۔ گراؤنڈ فلور پر ایک اسٹور تھا تھا جہاں وہ ڈبہ بند اشیاء اور کپاس فروخت کرتا تھا ۔ تاجر نے ان لوگوں کو جو کمرے دکھائے ان میں برائے نام فرنیچر تھا ۔ مسٹر اورمسز میکفیل کے کمرے میں ایک خستہ سا تنگ بیڈ جس کے اوپر پھٹی ہوئی پرانی مچھردانی تنی ہوئی تھی ، ایک کمزور سی کرسی اور واش بیسن کے سوا کچھ نہیں تھا۔ دونوں نے مایوسی سے ارد گرد نظر دوڑائی ۔ بارش بلا توقف برس رہی تھی۔
“میں ضرورت سے زیادہ سامان نہیں کھولوں گی ۔ ” مسز میکفیل نے کہا۔
وہ چمڑے کا سوٹ کیس کھول ہی رہی تھیں کہ مسز ڈیوڈسن کمرے میں داخل ہوئیں ۔ وہ بہت مستعد اور ہوشیار نظر آتی تھیں ۔ ناشاد ماحول ان پر قطعاً اثر انداز نہیں ہوا تھا ۔
“اگر آپ میرا مشورہ مانیں تو سوئی دھاگہ نکالیں اور فورا مچھردانی کی مرمت شروع کر دیں ورنہ آپ رات میں پلک بھی نہیں جھپکا سکیں گے ۔” انہوں نے کہا۔
” کیا اتنے زیادہ مچھر ہوتے ہیں؟ ” ڈاکٹر میکفیل نے کہا۔
” یہ مچھروں کا ہی موسم ہے ۔جب کبھی آپ، آپیا کے گورنمنٹ ہاؤس میں کسی دعوت میں شریک ہوں تو دیکھیں گے کہ تمام خواتین کو ایک غلاف اپنے پیر ڈھانپنے کے لیے دیا جاتا ہے ۔ “
” کاش! بارش ایک لمحے کیلئے رک جائے ۔ ” مسز میکفیل نے کہا ۔ اگر سورج نکل آتا تو میں زیادہ دل لگا کر یہ جگہ آرام دہ بنانے کی کوشش کر سکتی تھی ۔”
“اگر آپ اس کا انتظار کریں گی تو آپ کوکافی طویل انتظار کرنا پڑے گا۔ پاگو- پاگو ، بحرالکاہل کا سب سے زیادہ بارش والا علاقہ ہے۔ آپ دیکھیں ، یہ پہاڑیاں اور خلیج پانی کشش کرتے ہیں اور سال کے اس وقت تو ہر شخص کو بارش کی توقع ہوتی ہے ۔”
مسز ڈیوڈسن نے ، کمرے کے مختلف کونوں میں بے بسی سے کھڑے نا خو ش مسٹر میکفیل پھر ان کی بیوی کو دیکھا اور اپنے ہونٹ بھینچ لیے۔ انہیں احساس ہوا کہ ان دونوں میاں بیوی کا انہیں ہی خیال رکھنا چاہیے ۔ اس طرح کے کمزور لوگ انہیں بے چین کر دیتے تھے ، اور ان کے ہاتھوں میں ہر چیز ترتیب سے رکھنے کے لئے خارش شروع ہو جاتی تھی، جو ان کی فطرت کا خاصہ تھی۔
” ایسا کریں مجھے سوئی دھاگا دیجیے،میں جالی کی مرمت کر تی ہوں ، آپ اپنا سامان کھولیے۔ دوپہر کا کھانا ایک بجے چن دیا جائے گا۔ ڈاکٹر میکفیل بہتر ہو گا کہ آپ گھاٹ جا کر دیکھ آئیں کہ آپ کا بھاری سامان خشک جگہ پر رکھ دیا گیا ہے یا نہیں ۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ یہ مقامی لوگ کیسے ہیں ، ان سے کوئی بعید نہیں ، یہ آپ کا سامان ایسی جگہ رکھ دیں گے جہاں ان پر پورے وقت بارش برستی رہے گی ۔ “
ڈاکٹر میکفیل نے دوبارہ اپنی برساتی پہنی اور نیچے چلے گئے ، جہاں مسٹر ہورن اور جہاز کا کوارٹر ماسٹر گفتگو میں مصروف تھے۔ کوارٹر ماسٹر اسی وقت ایک سیکنڈ کلاس کی مسافر کے ساتھ وہاں پہنچا تھا۔ ڈاکٹرمیکفیل نے اسے جہاز پر کئی بار دیکھا تھا ، چھوٹے سے اور انتہائی گندے کوارٹر ماسٹر نے ڈاکٹر کو دیکھ کر سر ہلایا ۔
” خسرہ نے حالات خراب کر دیئے ، ڈاکٹر۔” اس نے کہا ۔”مجھے پتا چلا ، آپ نے اپنا بندوبست کر لیا ہے ۔”
ڈاکٹر نے سوچا کہ یہ آدمی کچھ زیادہ ہی بے تکلف ہو رہا ہے ، لیکن چونکہ وہ خود شائستہ آدمی تھا اس لیے اس کی بات کا بُرا نہیں منایا۔
“ہاں ، ہمیں اوپر کی منزل پر ایک کمرہ مل گیا ہے ۔”ڈاکٹر میکفیل نے کہا۔
” مس تھامپسن آپ لوگوں کے ہمراہ آپیا کے لیے روانہ ہوں گی اس لئے میں انہیں اپنے ساتھ لے آیا ہوں۔”
کوارٹرماسٹر نے انگوٹھے سے اپنے ساتھ کھڑی عورت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
وہ لگ بھگ 27 برس کی، فربہ بدن خاتون تھی جس کی خوبصورتی نزاکت سے محروم تھی ۔ اس نے سفید لباس اور بڑا سا سفید ہیٹ پہنا ہوا تھا ۔ سفید جرابوں میں سے اس کی موٹی موٹی پنڈلیاں چمکدار چمڑے کے سفید لمبے بوٹوں کے اوپر ابھری ہوئی نظر آ رہی تھیں ۔ عورت نے میکفیل کو دل لبھانے والی مسکراہٹ سے دیکھا ۔
“یہ بندہ ایک چھوٹے سے کمرے کے لئے بھی مجھ سے ڈیڑھ ڈالر ٹھگنے کی کوشش کر رہا ہے۔” تھامپسن نے کج خلقی سے کہا ۔
“جُو، میں تمہیں بتا چکا ہوں کہ یہ میری دوست ہے۔” کوارٹر ماسٹر نے کہا۔” یہ ایک ڈالر سے زیادہ ادا نہیں کر سکتی ۔تمہیں اس کرائے پر ہی اسے کمرہ دینا پڑے گا ۔”
موٹا اور نرم خُو تاجر خاموشی سے کھڑا مسکرا رہا تھا ۔
“اچھا ، اگر یہی بات ہے مسٹر سون تو میں دیکھتا ہوں کہ میں کیا گنجائش نکال سکتا ہوں ۔ میں اپنی بیوی سے بات کروں گا اور اگر ہمیں لگا کہ ہم کوئی رعایت دے سکتے ہیں تو ضرور دیں گے۔”
“میرے ساتھ زیادہ چالاکیاں کرنے کی کوشش نہ کرو۔” مس تھامپسن نے کہا ۔”ہم ابھی ، اسی وقت فیصلہ کریں گے ۔میں ایک ڈالر یومیہ سے ایک سینٹ زیادہ نہیں دوں گی ۔ “
ڈاکٹر میکفیل مسکرا نے لگے ۔ اسے وہ بے باکی اچھی لگی تھی ، جس سے تھامپسن سودے بازی کر رہی تھی ۔ وہ خود ایسا آدمی تھا جو ہمیشہ بھاو تاو کیے بغیر منہ مانگی قیمت ادا کردیتاتھا۔ وہ تکرار کے بجائے اضافی پیسے ادا کردینے کو ترجیح دیتا تھا ۔ تاجرنے ایک آہ بھری ۔
“ٹھیک ہے ۔ مسٹر سون کی خاطر ، مجھے ایک ڈالر منظور ہے ۔”
” بہت خوب ۔چلیں شراب پیتے ہیں۔ آپ میرا سوٹ کیس ساتھ لے آئیں مسٹر سون، اس میں بڑی اعلی وہسکی ہے۔ آپ بھی آئیں ، ڈاکٹر صاحب ۔”
” اوہ ، میرا نہیں خیال میں آ سکوں گا۔” ڈاکٹر نے جواب دیا۔ میں اپنا سامان دیکھنے جا رہا ہوں کہ وہ محفوظ ہے یا نہیں ۔”
وہ بارش میں نکل پڑا۔ بارش بندرگاہ کے دہانے سے اتنی شدت سے برس رہی تھی کہ اس کے پیچھے پورا ساحل دھندلا گیا تھا۔ وہ دو تین مقامی لوگوں کے پاس سے گزر جو لاوا -لاواکے سوا کچھ نہیں پہنے ہوئے تھے اور سروں پر بڑی بڑی چھتریاں تان رکھی تھیں ۔ وہ بالکل سیدھے، آرام سے ٹھیک ٹھاک چل رہے تھے ؛ انہوں نے ڈاکٹر کے پاس سے گزرتے ہوئے ا سے اجنبی زبان میں سلام کیا۔
جب ڈاکٹر میکفیل واپس آیا تو تقریبا کھانے کا وقت ہو چکا تھا اور ان کا کھانا تاجر کے ڈرائنگ روم میں چن دیا گیا تھا ۔ یہ کمرہ ایسا تھا جو رہنے کے لیے نہیں بلکہ صرف امارت کی نمودونمائش کے مقصد سے تیار کیا گیا تھا ۔ کمرے کی فضا میں بوسیدگی اور اور اداسی تھی۔دیواروں کے گرد ریشمی جھالریں نفاست سے لگی ہوئی تھیں اور چھت کے درمیان ایک سنہرا فانوس لٹک رہا تھا تھا اور اس پر مکھیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے زرد ٹیشو پیپر چسپاں تھے ۔ ڈیوڈسن کھانے کے لئے نہیں آیا تھا۔
“مجھے یہ تو معلوم ہے کہ وہ گورنر سے ملنے گئے تھے۔”مسزڈیوڈسن نے کہا۔ ” شاید گورنر نے انہیں کھانے پر روک لیا ہے۔”
ایک مقامی بچی ان کے لئے ایک ڈش ہیمبرگر اسٹیک لے آئی اور کچھ دیر میں تاجر بھی ان کے پاس یہ جاننے کے لیے آگیاکہ شایدان لوگوں کو کسی اور چیز کی ضرورت ہو۔
“میں نے دیکھا ، ایک اور مہمان آیا ہے، مسٹر ہورن۔” ڈاکٹرمیکفیل نے کہا۔
“جی ،اس نے بس ایک کمرہ کرائے پر لیا ہے ۔” تاجر نے جواب دیا ۔ ” کھانا وہ اپنے کمرے میں کھا رہی ہے ۔”
تاجر نے دونوں خواتین کو تابعداری سے دیکھا۔” میں نے اسے نچلی منزل پر رکھا ہے ہے تاکہ آپ لوگوں کا اس سے واسطہ نہ پڑے۔ اس کے باعث آپ کو کوئی زحمت نہیں ہوگی۔”
“کیا جہاز کے مسافروں میں سے کوئی ہے ؟” مسز میکفیل نے پوچھا۔
” جی ہاں ،میڈم۔ وہ دو نمبر کیبن کی مسافر تھی ۔ وہ آپیا جا رہی ہے۔ وہاں کیشئیر کی نوکری اس کی منتظر ہے ۔”
“اوہ!”
جب تاجر واپس چلا گیا تو میکفیل نے کہا۔” میرا خیال ہے ، اسے اپنے کمرے میں کھانا کھانا بالکل اچھا نہیں لگے گا۔”
” اگر وہ دو نمبر کیبن میں تھی تو میرے خیال میں وہ۔۔۔مسز ڈیوڈسن نے جواب دیا ۔”میں ٹھیک طرح نہیں جانتی وہ کون ہے۔”
” اتفاق سے میں وہاں موجود تھا جب کوارٹر ماسٹر اسے اپنے ہمراہ لایا تھا ۔ اس کا نام ہے تھامپسن ہے۔”
“یہ وہی عورت تو نہیں ہے جو کل رات کوارٹر ماسٹر کے ساتھ رقص کر رہی تھی۔” مسز ڈیوڈسن نے پوچھا۔
” وہی ہوگی ۔”مسز میکفیل نے جواب دیا ۔ ” میں بھی اس وقت حیران تھی کہ یہ کون ہے۔ مجھ کچھ آوارہ سی لگی تھی۔”
” اس کے لچھن بالکل ٹھیک نہیں ہیں ۔”مسز ڈیوڈسن نے کہا۔
پھر ان لوگوں نے دوسری باتیں شروع کر دیں ۔ کیونکہ چاروں صبح سویرے جاگنے کی وجہ سے کافی تھکے ہوئے تھے اس لیے کھانا کھانے کے بعد ، ان لوگوں نے اپنے اپنے کمروں کا رخ کیا اور سو گئے ۔ جب صبح وہ لوگ بیدار ہوئے تو آسمان سرمئی تھا اور بادل نیچے تیر رہے تھے، لیکن بارش نہیں ہو رہی تھی۔ وہ اونچی شاہراہ پر چہل قدمی کے لیے چلے گئے جو امریکیوں نے خلیج کے ساتھ ساتھ تعمیر کی تھی ۔
واپسی پر انہیں معلوم ہوا کہ ڈیوڈسن ابھی ابھی پہنچا ہے ۔”
” ہمیں یہاں پندرہ دن بھی لگ سکتے ہیں ۔” اس نے جھنجلاتے ہوئے کہا۔” میں نے گورنر سے بات کی ہے لیکن اس نے کہا کہ اس معاملے میں کچھ نہیں کیا جا سکتا۔”
“مسٹر ڈیوڈسن بس اپنے کام پر واپس جانا چاہتے ہیں ۔ ” ان کی بیگم نے اپنے شوہر کو مضطرب نظر وں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
” ہم ایک سال سے دور ہیں ۔” اسں نے برآمدے میں آگے پیچھے ٹہلتے ہوئے ہوئے کہا ۔ مشن کی ذمہ داری مقامی مشنریوں کے سپرد ہے اور میں انتہائی پریشان ہوں کہ انہوں نے ذمہ داریوں سے غفلت برتی ہے ۔وہ اچھے لوگ ہیں ، میں ان کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں کہہ رہا ہوں ، خوف خدا رکھنے والے ، معتقد اور سچے عیسائی لوگ – ایسے کہ ان کی مسیحیت نام نہاد عیسائیوں کو بھی شرمانے پر مجبور کر دے گی – بس ان میں ہمّت کی کمی ہے ۔ وہ ایک بار حوصلہ کر سکتے ہیں، دوسری بار کر سکتے ہیں لیکن وہ ہمیشہ استقامت نہیں دکھا سکتے ۔اگر آپ کسی مقامی مشنری کے حوالے مشن کی ذمہ داری لگا دیں ، بظاہر وہ کتنا ہی قابل اعتماد لگتا ہو، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ آپ کو معلوم ہو گا کہ اس نے معاملات میں کتنی بدعنوانیاں کی ہیں ۔ “
مشنری ڈیوڈسن ساکت کھڑاہو گیا۔ لمبے، دبلے پتلے جسم ، زرد چہرے پر چمکتی ہوئی بڑی بڑی آنکھوں کے ساتھ اس کی شخصیت متاثر کن تھی ۔ اس کی جذباتی حرکات و سکنات , گہری گونج دار آواز سے اس کا خلوص ظاہر ہوتا تھا ۔
“مجھے توقع ہے کہ یہاں میرا کام دشوار ثابت ہو گا۔ لیکن میں ضروری اقدام کروں گا اور فوری کروں گا۔ اگر کوئی درخت سٹر جاتا ہے تو اسے کاٹ کر نذر آتش کر دینا چاہیے ۔”
شام میں ہائی ٹی کے بعد ، جو دن میں ان کا آخری کھانا تھا ،سب پُر تکلف کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے ، خواتین اپنی سلائی کڑھائی کر رہی تھیں اور ڈاکٹر میکفیل پا ئپ پی رہے تھے ، مشنری نے انہیں جزائر پر اپنے کام کے بارے میں بتانا شروع کر دیا۔
“جب ہم وہاں پہنچے تو ان لوگوں میں گناہ کا قطعاً کوئی احساس نہیں تھا ۔” اس نے کہا ۔”وہ ایک کے بعد ایک احکام الہی توڑتے اور انہیں کبھی احساس نہیں ہوتا تھا کہ وہ غلط کام کر رہے ہیں ۔ میرے خیال میں میرے کام کا سب سے مشکل حصّہ یہی تھا کہ مقامی آبادی کے دلوں میں احساس ِگناہ پیدا کیا جائے ۔”
ڈاکٹر اور اس کی بیوی پہلے ہی جانتے تھے کہ ڈیوڈسن نے اپنی بیگم سے ملاقات سے پہلے سولومنز [13] میں پانچ سال کام کیا تھا ۔ مسز ڈیوڈسن شادی سے پہلے چین میں مشنری تھیں اور دونوں کی ملاقات بوسٹن میں ہوئی تھی جہاں دونوں اپنی چھٹیا ں کا حصہ، ایک مشنری کانگریس میں شرکت کرکے گزار رہے تھے ۔ ان کی شادی کے بعد دونوں کو ان جزائر پر تعینات کر دیا گیا تھا ، اور اس وقت سے وہ وہاں مشن کا کام کر رہے تھے ۔
مسٹر ڈیوڈسن کے ساتھ ہونے والی گفتگو کے دوران یہ بات اچھی طرح واضح ہوگئی تھی کہ وہ غیر متزلزل ہمت کا مالک انسان تھا۔میڈیکل مشنری ہونے کی وجہ سے وہ ان جزائر میں سے کسی پر بھی ، کسی وقت بھی ،ضرورت پڑنے پر جانے کا پابند تھا ۔ طوفانی بحراکاہل کے مون سون میں جب وہیل بوٹ بھی محفوظ نہیں ہوتی، اُسے اکثر ڈونگی میں سفر کرنا پڑتا تھا ، جو انتہائی خطرناک ہوتا ہے ۔ بیماری اور حادثے کے کیس میں تو وہ بالکل بھی نہیں ہچکچاتا تھا۔ در جنو ں موقعے ایسے بھی آ چکے تھے کہ اس نے پوری رات انتہائی خطرے میں گزاری اور کئی بار مسز ڈیوڈسن نے مایوس ہو کر شوہر پر صبر کر لیا ۔
(جاری ہے)
حوالہ جات (قسط اول) :
[1] سدرن کراس یا کروکس ، چار ستاروں کا ایسا اجتماع جو کہکشاں میں صلیب کی صورت نظر آتا ہے ۔جنوبی کرّے کے ممالک اور اقوام میں ا س اجتماع کی ثقافتی طور پر بہت اہمیت ہے ۔
[2] آپیا ، مغربی ساموا کا دارلحکومت ۔
[3] پاگو-پاگو، امریکن ساموا کا دارلحکومت ۔
[4] سموانز، پولی نیشیا نسل سے تعلق رکھنے والے سمون جزائر کے مقامی باشندے۔
[5] ویسٹرن ساموا ایک پولی نیشن ملک جو دو آباد اور دو غیرآباد جزائر پر مشتمل ہے ۔
[6] چھوٹی کشتی۔
[7] کاوا، ساموا میں کاوا پودے کی جڑوں سے سکون آور مشروب تیار کرنے کے روایتی پیالے جو تقریبات میں استعمال کیے جاتے ہیں ۔
[8] گرم ملکوں کی ایک متعدی جلدی بیماری
[9] لاوا لاوا،ایک چورس کپڑا ، پولینیشن اور اوشینک لوگوں کا روایتی لباس ہے ، جو وہ اسکرٹ کی طرح لپیٹ کر روزمرہ میں پہنتے ہیں ۔
[10] مدرہبرڈ، عورتوں کا میکسی نما ڈھیلا ڈھا لا لباس۔
[11] سنگلیٹس، آستینوں کے بغیر شرٹ یا بنیا ن۔
[12] کناکا، ہوائی اور ملینشیا کے کے مقامی باشندے۔
[13] سولومن، پاپوانیوگنی کے مشرق اور ونوآٹو کے شمال مغرب کا ایک ملک۔
Urdu Translation of W. Somerset Maugham’s short story “Rain” (originally published as “Miss Thompson” in the April 1921)