انیسویں صدی کے آخر میں لوگوں کوتجرباتی طور پر اس بات کا پتا چل چکا تھا کہ روشنی کی موجودگی میں کچھ میٹلز اپنی سطح سے الیکٹرونز خارج کرتی ہیں۔ اس عمل کو فوٹو الیکٹرک ایفیکٹ کہا جاتا ہے۔ فزکس کی کامیاب ترین تھیوریز میں سے ایک تھیوری، کوانٹم مکینکس، کی بنیادرکھنےمیں فوٹو الیکٹرک ایفیکٹ کا بہت اہم کردار ہے۔ اور تو اور آئن سٹائن کو نوبل پرائز بھی فوٹوالیکٹرک ایفیکٹ کی کوانٹم مکینیکل وضاحت کے لیے دیاگیا تھا۔ فوٹوالیکٹرک ایفیکٹ کو سامنے رکھتے ہوئے اگرروشنی کی وجہ سے حاصل ہونے والے فری الیکٹرونز کو مٹیریل کی سطح سے باہر نکالنے کی بجائے اندر ہی اندر ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت کروائی جائے تو الیکٹرونز کے بہاؤ کی وجہ سے کرنٹ پیدا ہوگا۔ یعنی بجلی پیدا ہو گی۔ اس عمل کوفوٹووولٹک ایفیکٹ کہا جاتا ہے۔
فوٹووولٹک ایفیکٹ ہی وہ عمل جس سےسورج کی اینرجی کو سولر سیل/فوٹووولٹک سیل کے ذریعےالیکٹریکل اینرجی/بجلی میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ سولر سیلز کو آپسمیں جوڑ کر ایک پینل کی شکل میں استعمال کیا جاتا ہے، کیونکہ ایک سولر سیل بہت کم الیکٹریسٹی پیدا کرتا ہے۔ سیٹیلائٹس اور سپیس کرافٹس میں تویہ ٹیکنولوجی کافی دیر سے استعمال ہو رہی ہے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ روزمرہ زندگی میں بھی اس کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے۔ ہمیں مختلف طرح کی بلڈنگز کی چھتوں پر سولر پینل بجلی کی ضروریات کو پورا کرتے نظر آتے ہیں۔ آپ نے سولر اینرجی پر چلنے والی گھڑیاں، کیلکولیٹر، چارجر اور کھلونے وغیرہ بھی دیکھیں ہونگے۔ اب تو سولراینرجی پر چلنے والی گاڑیاں، بسیں، کشتیاں اور ہوائی جہاز بھی تیار ہو چکے ہیں، اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کی ایفیشینسی میں بہتری آرہی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں چند مقامات پرعمارت کی چھت، چھت اور سولر پینل دونوں کا کام کرتی ہے۔ نیچے تصویر میں آپ کو جرمنی میں موجود سولر سیٹلمینٹ(Solar Settlement) نام کی ہاوسنگ کمیونیٹی کے گھر اور ان کی سولرپینل چھتیں نظر آ رہی ہیں۔ اس کے علاوہ ملکی سطح پر دنیا کے کئی ممالک فوٹو وولٹک پاور سٹیشنز/سولر پارک بنا کر اپنی اینرجی کی ضروریات کو پورا کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر اس وقت دنیا کا سب سے بڑا سولر پارک، Tengger Desert Solar Park، چائنہ میں ہے جو 1547 میگا واٹ بجلی پیدا کرتا ہے۔ انڈیا کےپاس Bhadla Solar Park بھی 1515 میگاواٹ بجلی پیدا کر رہا ہے۔ پاکستان میں بھی قائداعظم سولر پارک کے نام کا ایک “بڑا” پاور سٹیشن موجود ہے۔ اور اس بات کو سمجھنے کےلیے کسی آئن سٹائن کی ضرورت نہیں کے کرپشن نے اس کا بھی ستیاناس کر دیا ہے۔
روشنی اور الیکٹرونز کے ملاپ سے پیدا ہونے والی اس ٹیکنولوجی کی ترقی کا تو آئن سٹائن نے اپنے خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا۔
فوٹو وولٹک سیل سورج سے بجلی پیدا کرنے کا واحد طریقہ نہیں ہے۔ دوسرے طریقے کا نام ہےکنسنٹریٹڈ سولر پاور۔ اس طریقے میں بڑے بڑے شیشے لگا کرسورج کی روشنی کی روشنی کو فوکس کر کے پانی سے بھاپ حاصل کی جاتی ہے۔ اور پھر اس بھاپ سے ہیٹ اینجن چلتے ہیں جو پاور جینریٹر سےبجلی پیداکرواتےہیں۔
کوئلے اور تیل وغیرہکو جلا کر حاصل ہونے والی پاور کے لحاظ سے سولر پاور بہت بہتر ہے۔ کوئی ماحول دشمن گیسیں خارج نہیں ہوتیں۔
سورج اینرجی کا ایک بہت بڑا سورس ہے اور سولر اینرجی انسان کا مستقبل ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...