وارننگ: یہ کمزور دل افراد کے لئے نہیں ہے۔
کہتے ہیں کہ حادثہ ایک دم نہیں ہوتا اور بڑے حادثات تو پکنے میں صدیاں لے جاتے ہیں۔ ان صدیوں کی کہانیوں کو سمجھنے کا کس کے پاس وقت ہے۔ شام میں ہونے والا حادثہ بھی ویسا ہی تھا۔ ان صدیوں کو چھوڑ کر ہم اس کو 6 مارچ 2011 کی ایک صبح سے شروع کرتے ہیں۔
عرب بہار کا وقت تھا۔ تیونس اور مصر میں حکومتوں کے تختے الٹائے جا چکے تھے۔ پڑوسی ممالک میں حکمران خوفزدہ تھے اور ان سے شاکی عوام پرامید۔ اس پس منظر میں ایک روز دیوار پر ایک نعرہ لکھا ملا۔ “الشعب يريد إسقاط النظام” (لوگ حکومت ہٹانا چاہتے ہیں)۔ یہ نعرہ قاہرہ اور تیونس میں بھی لگایا جا چکا تھا۔ یہ جرم نظرانداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس جرم کے الزام میں پندرہ لڑکوں کو پکڑا گیا۔ ان کی عمریں دس سے پندرہ سال کے درمیان کی تھیں۔ ان کو سیکورٹی برانچ کے مرکز لے جایا گیا، جہاں پر ان کا مار مار کر بھرکس نکال دیا گیا۔ انگلیوں سے ناخن کھینچ دئے گئے۔ ہاتھوں کو جلایا گیا۔ شام میں یہ ہونا معمول کی بات تھی، لیکن یہ بچے دیرہ کے ہر بڑے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ جب کئی روز تک یہ نہیں ملے، تو متفکر والدین، ان کے خاندانوں نے مقامی مذہبی علماء سے رابطہ کیا۔ ایک جلوس بنا کر نمازِ جمعہ کے بعد دیرہ کے گورنر کے گھر کے آگے مظاہرہ کرنے چلے۔ گورنر کے گارڈ سے یہ مجمع قابو نہ آیا تو سیاسی سیکورٹی کی مسلح گارڈ منگوا لی گئی۔ آنسو گیس اور پانی کے ساتھ اب اس مجمع پر فائر کھول دیا گیا۔
لیکن اس کا اثر الٹا ہوا۔ خون بہتا دیکھ کر لوگوں کا جوش اور غصہ دوچند ہو گیا۔ یہ اہم قبائل اور خاندانوں سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے۔ خبر پھیل گئی۔ دو سو کے تعداد میں جانے والا مجمع بچوں کا پتا کرنے گیا تھا، اب بات بڑھ گئی تھی۔ قبائلی غیرت کی وجہ سے ان میں مزید لوگ شامل ہو گئے۔
سینکڑوں لوگوں نے 18 مارچ کو بچوں کی رہائی کے لئے پھر مظاہرہ کیا۔ اس بار گولیوں سے تین لوگ ہلاک ہوئے۔ دو روز بعد مظاہرین نے بعث پارٹی کے دفتر کو آگ لگا دی۔ پہلی بار شام میں آزادی کا اور ملک سے ایمرجنسی قوانین ہٹانے کا مطالبہ کھل کر کیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حکومت نے ایسا ہوتے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ملٹری انٹیلیجنس سے تعلق رکھنے والے جنرل رستم غزالی کی قیادت میں وفد مذاکرات کرنے بھیجا گیا۔ (وہی جنرل، جن پر لبنان کے وزیرِ اعظم رفیق الحریری کو قتل کرنے کا الزام تھا)۔ انہوں نے خیرسگالی کے طور پر بچوں کو رہا کر دیا۔
لیکن جب بچے گھر لوٹے تو وہ پہلے جیسے نہیں تھے۔ ان کے جسم چغلی کھا رہے تھے کہ ان کے ساتھ ہوا کیا ہے۔ معاملہ مزید بگڑ گیا۔ 24 مارچ کو گورنر اور جنرل نجیب کو اپنے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ لیکن یہ اس علاقے کے لوگوں کے غصے کو ٹھنڈا نہیں کر سکا۔ مظاہرے جاری رہے۔ ہر مرنے والا کا جنازہ اس آگ کو ہوا دے رہا تھا۔
حکومت کی طرف سے 24 مارچ کو ٹیکس کم کرنے اور تنخواہوں میں 1500 پاوٗنڈ کے اضافے کا اعلان کیا گیا۔ اس سے اگلے روز لوگ سڑکوں پر اس نعرے کے ساتھ تھے، “روٹی نہیں، عزت چاہیے”۔ مطالبہ حکومت سے معافی مانگنے کا تھا، ایمرجنسی کا قانون ختم کرنے کا تھا۔ اس روز مرنے والے مظاہرین کی تعداد پندرہ تھی۔
اور پھر مظاہرین نے وہ کر دیا، جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ سابق صدر حافظ الاسد، جن کا نام بھی اونچی آواز میں نہیں لیا جا سکتا تھا، ان کا مجسمہ گرا دیا گیا۔ ان کے بیٹے، صدر بشر الاسد کی تصاویر پھاڑ کر جلا دی گئیں۔ ایک ہفتے میں 55 ہلاکتیں ہو چکی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صدر نے ٹی وی پر خطاب کیا۔ “یہ گڑبڑ بیرونی طاقتوں کی سازش ہے، اس سے ہم نمٹ لیں گے”۔ بشرالاسد نے اپنا وعدہ نبھایا۔ اپریل کے آخر تک دیرہ کے مسئلے سے نمٹا جا چکا تھا۔ لیکن 29 اپریل کو پکڑا جانے والا ایک سولہواں لڑکا حکومت کے لئے دردِ سر بن گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیرہ سالہ حمزہ الخطیب کو بارش میں کھیلنا پسند تھا۔ لیکن پچھلے کچھ برسوں کی خشک سالی کی وجہ سے ان کو پانی میں چھنٹے اڑانے کا موقع زیادہ نہیں ملتا تھا۔ اس کے بجائے انہوں نے کبوتر پالنے شروع کر دئے تھے۔ حمزہ کسی امیر فیملی سے نہیں تھے لیکن ان کو اس کا احساس نہیں تھا۔ ان کے کزن کے مطابق، “وہ اپنے والدین سے لوگوں کی مدد کیلئے پیسے لینے کی فرمائش کرتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار وہ سو شامی پاوٗنڈ (تین سو روپے) کسی کو دینا چاہتا تھا۔ اس کے والد نے کہا کہ یہ بڑی رقم ہے لیکن حمزہ نے اصرار کیا کہ میرے پاس تو کھانا بھی ہے اور بستر بھی، اس کے پاس تو کچھ نہیں ہے۔ اس نے یہ پیسے دینے کے لئے والد کو منوا لیا”۔
اس طرح کی ہمدردی خود حمزہ کے حصے میں نہیں آئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حمزہ کو 29 اپریل میں صیدا سے گرفتار کیا گیا۔ حمزہ کو سیاست کا زیادہ پتا ہی نہیں تھا۔ وہ تو سب کے ساتھ نکلے تھے۔ جب 24 مئی کو ان کی لاش ان کے ورثاء کے سپرد کی گئی تو وہ بس ایک گوشت کا ٹکڑا تھا۔ جلا ہوا، تشدد زدہ اور ہر طرح سے مسخ کیا گیا ۔۔۔ ان کے ساتھ یہ سب کچھ شاید اس وقت تک کیا جاتا رہا ہو گا جب تک چیخیں خاموش نہ پڑ گئی ہوں۔
زخم، خراشیں، جلے ہوئے پیر، کہنی، چہرہ اور گھٹنے۔ بجلی کے جھٹکے دئے جانے کے نشان، جسم پر کوڑے برسائے جانے کے نشان۔ تشدد کی یہ تکنیک مہینوں تک احتجاج کے جرم میں حصہ لینے والوں پر استعمال کی جاتی رہی تھی۔ آنکھیں باہر نکلی ہوئی اور سیاہ۔ دونوں بازووٗں میں گولیاں ماری گئی تھیں۔ جس کے سوراخ بازو میں بھی تھے اور پیٹ میں بھی۔ سینے پر ایک گہرا نشان جہاں جلایا گیا تھا۔ گردن ٹوٹی ہوئی، عضوِ مخصوصہ کاٹ دیا گیا تھا۔
حمزہ کی والدہ نے اپنے بیٹے کا صرف چہرہ ہی دیکھا، ان کو کچھ اور دیکھنے نہیں دیا گیا۔ لیکن منع کرنے کے باجود حمزہ کے والد نے اپنے بیٹے پر سے کمبل ہٹا دیا۔ وہ بے ہوش ہو کر گر پڑے۔ ان کے والد سخت گیر مشہور تھے۔ حمزہ کے کزن کہتے ہیں کہ وہ پہلا دن تھا جب کسی نے ان کو روتے دیکھا گیا۔ حمزہ کی ویڈیو بنا کر یوٹیوب پر ڈالی لیکن اس قدر دلخراش منظر کو یوٹیوب نے مسترد کر دیا۔ (اس کے بعض حصوں کو سنسر کر کے ویڈیو اس وقت یوٹیوب پر ہے۔ بالکل مت دیکھیئے گا)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس روز کے اس مظاہرے میں 51 لوگ پکڑے گئے تھے جن میں سے کئی کی لاشیں واپس آئی تھیں۔ لیکن حمزہ کی تصاویر انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا بھر نے دیکھ لیں۔
شام کے ٹی وی سٹیشن الدنیا میں اس روز خبر نشر ہوئی جس میں تشرین ملٹری ہسپتال کے ڈاکٹر اکرم الشار نے سب کو بتایا کہ انہوں نے لاش کا اچھی طرح معائنہ کیا ہے۔ اس پر تشدد کے کوئی نشان نہیں۔ کچھ پرانا ہو جانے کی وجہ سے ڈی کمپوزیشن نظر آ رہی ہے۔ ڈاکٹر شار کی یہ ویڈیو ایک طرح سے شامی حکومت کی طرف سے کسی کے بھی زیرِ حراست مار دئے جانے کا پہلا اعتراف تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ غصہ اب ایک شہر تک محدود نہیں رہا تھا۔ پورے ملک میں پھیل چکا تھا۔ جگہ جگہ مظاہرے شروع ہو گئے۔ شام دنیا کی نظروں میں آ گیا تھا۔ اگلے آٹھ سالوں میں یہاں پر ناقابلِ بیان مناظر دیکھے جانے تھے۔ پانچ لاکھ لوگوں کو لقمہ اجل بننا تھا۔ دس لاکھ سے زیادہ زخمی اور اس سے کہیں زیادہ نے بے گھر ہونا تھا۔ یہاں غلاموں اور لونڈیوں کی منڈیاں بھی لگنی تھیں۔
ستم بالائے ستم یہ کہ اس ڈرامے کے نئے کرداروں نے یہاں پر جو کرنا تھا، اس کے آگے یہ سب کچھ ماند پڑ جانا تھا۔ یہ کھیل ابھی جاری ہے۔ بشرالاسد کی حکومت اب مضبوط ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہتے ہیں کہ حادثہ ایک دم نہیں ہوتا۔ اس سب کو سمجھنے کا کس کے پاس وقت ہے۔
شام کی یہ خانہ جنگی ان بچوں کی شرارت تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساتھ لگی تصویر حمزہ الخطیب کی فیس بُک کی ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...