سونی ماہیوال
ایک سچی لوک کہانی
پنجاب میں بہنے والے پانچ دریائوں میں سے صرف دریائے چناب کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ اس کے ساتھ کئی ایک عوام میں مقبول عشقیہ داستانوں کا تعلق رہا ہے اور آج بھی بعض کہانیاں اسی کے حوالے سے سنی سنائی جاتی ہیں۔ ان رومانی داستانوں کی وجہ سے دریائے چناب پنجاب کے لوک گیتوں کا حصہ بن گیا ہے اور ان لوک گیتوں میں اس کا ذکر جگہ جگہ ملتا ہے۔ سوہنی مہینوال کی المیہ انجام والی عشقیہ کہانی کا تعلق بھی اسی رومان پرور دریا سے ہے۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اس داستان کا جو گہرا تعلق اس دریا سے ہے وہ کسی اور رومانی داستان کا نہیں ہے۔ یہ کہانی پنجاب کے شہر گجرات سے تعلق رکھتی ہے جس کے قریب سے چناب گزرتا ہے اور پنجابی زبان میں اس دریا کا نام جھناں ہے۔ سوہنی اور مہینوال کی ساری کہانی اسی شہر اور اسی دریا کے اردگرد گھومتی ہے۔ اس کاآغاز شہر گجرات میں ہوا اور انجام دریائے چناب کی تندوتیز لہروں میں ہوا۔ یہ شہر آج بھی آباد و شاد ہے‘یہ دریا آج بھی رواں دواں ہے اور یہ کہانی آج بھی زندہ و پائندہ ہے۔
یہ صدیوں پہلے مغل بادشاہ شاہجہاں کے دور کی بات ہے۔ اس دور میں آج کے ازبکستان کے تاریخی شہر بخارا کے مقام بلخ میں ایک بہت بڑا سوداگر رہتا تھا جس کا نام مرزا عالی تھا۔ اس کا صرف نام ہی عالی نہیں تھا‘ وہ خود بھی عالی نسب تھا اور انتہائی نیک دل اور سخی تھا۔ اس کی سوداگری کا دائرہ بہت وسیع تھا اور تجارت کا کاروبار دور دور تک پھیلا ہواتھا۔ یہ طرح طرح کے سامان تجارت کی خرید و فروخت کرتا تھا جس میں کشمیری پشمینہ‘ ایرانی قالین‘ کاشانی‘ مخمل‘ کمخواب‘ سنجاب‘ سمور‘ حریر اور دیبا کے علاوہ لونگ‘ الائچی‘ پستہ‘ کشمش‘ کھجور‘ سیب وغیرہ شامل تھے۔ ان کے ساتھ ساتھ وہ بلور کے ظروف‘ جڑائو زیور‘ زمرد‘ ہیرے اور جواہر اور دیگر اشیا کی تجارت کرتا تھا۔ اس کے کارندے ملکوں ملکوں پھیلے ہوئے تھے جو ادھر کا مال ادھر لے جاتے تھے اور ادھر کا ادھر لاکر فروخت کرتے تھے۔ اس طرح مرزا عالی کا کاروبار‘ ہندوستان‘ افغانستان‘ ایران اور بعض دوسرے ملکوں تک پھیلا ہوا تھا۔ جس طرح اس کا کاروبار وسیع تھا ویسے ہی اس کی دولت کا کوئی شمار نہ تھا۔ اللہ نے اسے عزت شہرت کے ساتھ ساتھ دولت بھی خوب عطا کی تھی جس میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہاتھا لیکن اس قدر دولت اور خوشحالی کے باوجود وہ ایک چیز سے ابھی تک محروم تھا۔ اور وہ تھی اولاد کی نعمت۔ وہ اولاد کی نعمت سے محروم تھا اور اسی غم میں دن رات گھل رہاتھا۔ ہر وقت سوچتا۔
وہ ہر وقت اللہ کے حضور گڑگڑاکر دعائیں مانگتا۔
’’اے دنیا اور آخرت کے مالک! تم نے مجھے ہر نعمت سے نوازا ہے اور دوسروں سے بڑھ چڑھ کے نوازا ہے مگر اب تک اولاد سے محروم ہوں۔ مجھ پر کرم کر اور مجھے میرا وارث عطاکر جو میرے بعد میرا نام زندہ رکھ سکے!‘‘
وہ غریبوں اور حاجت مندوں میں دل کھول کر خیرات کرتا تھا اور پیروں فقیروں کی خدمت میں نذر نیاز بھی پیش کرتا رہتا تھا تاکہ کسی کی دعا سے اس کی امید برآئے۔ ایک بار قریبی پہاڑوں میں کوئی بزرگ آکر ٹھہرا تو اس کے دوستوں نے مشورہ دیا۔
’’اس کے پاس جائو… سناہے بہت پہنچا ہوا بزرگ ہے۔ ہوسکتا ہے اس کی دعا ہی سے تمہاری مراد پوری ہوجائے۔‘‘
مرزا عالی کو اس میں کیا عذر ہوسکتا تھا؟ وہ تو اپنی تمنا کی تکمیل کی خاطر ہر جگہ جانے کیلئے تیار تھا۔ جیسے ہی دوستوں نے مشورہ دیا وہ بغیر کسی تاخیر کے اس خدا رسیدہ بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔ اس نے جاکر اسے بڑی عاجزی سے سلام کیا‘ نذر و نیاز پیش کی اور پھر عرض کی۔
’’حضور میرے حق میں دعا کیجیے۔ میرے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے مگر ابھی تک اولاد کی نعمت سے محروم ہوں!‘‘
بزرگ نے ایک نظر اس کے سراپا پر ڈالی اور پھر آنکھیں بند کیے کوئی دعا پڑھتا رہا۔ اس کے بعد اس نے آنکھیں کھولیں اور مرزا عالی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
’’اللہ تمہاری مراد ضرور پوری کرے گا اور تمہیں ایک بیٹا عطا ہوگا…مگر…!‘‘
وہ بات کرتے کرتے لمحہ بھر کے لیے رک گیا۔
’’مگر کیا…؟ حضور مجھے بتائیے؟ پھر کیا ہوگا…؟‘‘
مرزا عالی نے بے صبری سے سوال کیا جس پر بزرگ اپنی بات پوری کرتے ہوئے بولا۔ ’’وہ جوان ہو کر عشق میں مبتلا ہوگا اور مصائب کا سامنا کرے گا۔‘‘
مرزا عالی بزرگ کی دعا سے خوش خوش واپس آیا اور اپنے روزمرہ کے کاموں میں مصروف ہوگیا۔ پہلے تو وہ صرف امید ہی پر زندہ تھا لیکن اب اسے یقین ہوگیا تھا کہ اللہ اسے ضرور اولاد سے نوازے گا۔ اور پھر ہوا بھی یہی۔ ٹھیک نو ماہ بعد اس کے گھر ایک بیٹا پیدا ہوا جس نے امیدوں کا چاند بن کر اس کے دل کے اندھیروں میں روشنی پھیلا دی۔ ایک تو اللہ نے اسے ادھیڑ عمرمیں اولاد دی تھی اور دوسرا یہ کہ بیٹا انتہائی خوبصورت تھا جسے دیکھ کر گھر بھر میں خوشیاں منائی جانے لگیں۔ مرزا عالی کی مراد ڈھلتی عمر میں طویل انتظار کے بعد پوری ہوئی تھی اس لیے دن رات خوشیوں کا سماں بندھ گیا اور اس نے فقیروں اور محتاجوں میں جی کھول کر خیرات تقسیم کی۔ پھر اس نے بڑے چائو سے بچے کا نام عزت بیگ رکھا جو جوان ہوکر بزرگ کے کہنے کے مطابق عشق میں مبتلا ہوا اور مہینوال کے نام سے مشہور ہوا۔
نوٹ یہ پوسٹ اس لیے لکھنی پڑھی تاکہ جو لوگ اولیاء اللہ والے عقیدے سمجھتے ہیں تاکہ ان کی اصلاح ہوجائے کہ حقیقی بات کونسی ہے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔