فیثا غورث کی باتیں سن کرسقراط کو یقین ہوگیا، کہ حقیقت تک پہنچنے کے لئے صرف حیرت کافی نہیں، بلکہ اس کے لئے مطالعہ و تحقیق کی بھی ضرورت ہے۔ اب اس نے علما کے اقوال کا مطالعہ شروع کردیا۔ جہاں کہیں بھی سقراط کو عالم و مفکرمل جاتے، وہ ان کی باتیں غورسے سنتا۔ جوں جوں اس کے علم میں اضافہ ہوتا گیا، اب اس کا شمار ایتھنز کے فلسفیوں میں ہونے لگا۔ روسا اورامرا اس کو اپنے گھر بلاتے، کوئی طالب علم شہر میں آتا، تو وہ سقراط سے ملنے کی خواہش ضرور رکھتا۔ لیکن سقراط فیثا غورٹ کا انجام دیکھنے کے بعد بات چیت میں محتاط ہوگیا تھا۔ ایک روز کسی رئیس کے گھرمیں ایسی ہی محفل میں اسے فیثا غورث کی نئی کتاب دیکھنے کا اتفاق ہوا، "ایتھنز والوں کی جہالت نے اس شخص کوشہربدر کردیا جب کہ وہ اب بھی فکروعمل میں مصروف ہے۔"۔ کوئی نئی بات اس کتاب میں بیان ہوئی ہو۔ سقراط نے دریافت کیا، فیثا غورث نے ایک نئی بات بیان کی ہے، " ہر چیز میں دوسری چیزوں کے اجزا شامل ہوتے ہیں۔ لیکن زہن کی طاقت غیرمحدود ہے۔ اس میں کوئی چیز شامل نہیں۔ اس کو کامل اختیار ہے اور ہر چیز پراس کی حکمرانی ہے"۔ اس کا مطلب ہے فیثا غورث نے ہرسوال کا جواب تلاش کرلیا ہے۔ میرا بھی یہی خیال ہے کہ زہانت مطلق ہی تو ہے، جو تمام عالم میں کارفرما ہے۔ سقراط کو وہ کتاب پڑھ کرکچھ مایوسی ہوئی۔ فیثا غورث نے بھی دوسروں کی طرح اس دنیا کی توجیہہ ہوا،پانی، مٹی، آگ کے نظریئے سے ہی کی تھی۔ اسے لگا، سائنس دان یہ تو جانتے ہیں کہ دنیا کیسے وجود میں آئی، یہ نہیں جانتے کہ ایسا کیوں ہوا، کیوں کا تعلق مادے سے نہیں زہن سے ہے۔ کیوں کا جواب لینے کے لئے مجھے سائنس نہیں، انسان کے سوچنے اور اس کی خواہشوں سے سروکار ہونا چاہئے۔ وہ چپ چاپ فلسفے کے راستے پرگامزن ہوگیا، اس دوران اس کے ماں باپ دونوں وفات پا گے۔
سقراط کو لگ رہا تھا کہ دیوتا اس سے کچھ کہلوانا چاہتے ہیں۔ "عقل مند دیوتاوں نے مجھے دانش کی جستجو کا حکم دیا ہے"۔ اب وہ جہاں جاتا، نوجوانوں کی بھیڑ اس کے اردگرد اکٹھے ہوجاتی۔ اس کے شاگردوں کو لگتا تھا، کہ سقراط تمام انسانوں سے زیادہ دانا ہے۔ سقراط کا ایک پرجوش عقیدت مند شاگرد کریفن تھا، ایک مرتبہ وہ ڈیلفی گیا، جہاں اپالوکا ٹیمپل تھا۔ وہاں ایک پجارن بیٹھتی تھی، جو سوالوں کا جواب دیتی تھی، لوگ سمجھتے تھے، کہ یہ جواب اس کو اپالو دیوتا دیتا ہے۔ گریفن نے اس سے ایک سوال پوچھا، کیا سقراط سے زیادہ ایتھنز میں کوئی اور عقل مند ہے؟ جواب ملا، "کوئی شخص اس سے زیادہ عقل مند نہیں"۔ کریفن خوشی سے ایتھنز کی طرف بھاگا، لوگوں کو بتایا کہ ڈیلفی کے مندر میں اپالو نے یہ جواب دیا ہے۔ دو طرح کی آوازیں بلند ہوئی، کچھ نے کہا ہمیں اپالو کی بات ماننی چاہئے اور کچھ نے کہا، کہ پجارن کو رشوت بھی تو دی جاسکتی ہے۔ خود سقراط غرور سے بچنے کے لئے کہتا، کہ اپالو نے میرا نام محض مثال کے طورپرلیا ہے۔ میں چونکہ جاہل ہوں۔ اور یہ سمجھتا بھی ہوں، کہ جاہل ہوں، اسی لئے آواز غیب نے کہا، جو شخص اپنے جہل سے واقف ہے، وہی عقل مند ہے'۔
"