سقراط کے باپ کو ایتھنیا دیوتا کے ایک بڑے مندر کی تعمیر کا ٹھیکہ ملا۔ سنگ مرمرکی بھاری سلیں بیل گاڑیوں میں لاد کرلائی جاتی تھی۔ یہ بڑا سخت محنت اوردشواری کا کام تھا۔ سقراط نے اس تمام کام کی نگرانی کی۔ ایک دن فارقلیس کے ہمراہ ایک بوڑھا شخص آیا، سقراط کو بتایا گیا، کہ یہ فیثا غورث ہے۔ ہندوستان جا کرمہاتما بدھ سے بھی مل چکا ہے۔ اس کی اپنی ایک جماعت اور فلسفہ حیات ہے۔ ایتھنز کے بازاروں میں فیثا غورث اور اس کے نظریات کا بہت چرچا ہونے لگا۔ فیثا غورث نے جب یہ نظریہ دیا کہ آسمان پر پتھر ہیں دیوتا نہیں۔ تو اس کے خلاف مخالفت کا ایک طوفان کھڑا ہوگیا۔ فیثا غورث کئی برس سے آسمان کے مطالعے میں مشغول تھا۔ آخر وہ اس نتیجے پر پہنچ گیا، سورج کوئی دیوتا نہیں بلکہ چمکتی ہوئی دھات کا ایک ٹکڑا ہے۔ اس نے اسی پر اکتفا نہ کیا یہ بھی کہا کہ چاند مٹی کا بنا ہوا ہے۔ اس میں روشنی نہیں بلکہ سورج کی روشنی اپنا عکس ڈالتی ہے۔ جس سے وہ چمکتا ہے۔ چاند میں پہاڑ اوروادیاں ہیں اور شائد لوگ بھی آباد ہوں۔ یہ نظریہ سامنے آنا تھا کہ پورا یونان فیثا غورث کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا۔ "یہ شخص ہمارے دیوتاوں کی توہین کررہا ہے، اور فارقلیس اسے اپنا دوست کہتا ہے"۔ مذہبی لوگ بھی فیثا غورث کے دشمن ہوگے اور سیاسی بھی۔ مندروں کی تعمیر میں جو لوگ جمع ہوتے، انہوں نے کہنا شروع کردیا، جب تک فیثا غورث کو موت کی سزا نہیں ہوگی، اس وقت تک اس شہر پر دیوتا مہربان نہیں ہونگے۔ چاہے لاکھ مندر بنا لو۔ ایک دن مندر کے پروہت نے سقراط سے پوچھا، "کیا تم سمجھتے ہو، کہ سورج کوئی دیوتا نہیں بلکہ دھات کا ٹکڑا ہے۔"، میں کسی فیصلے پرنہیں پہنچ پایا" سقراط نے جواب دیا۔ "اس میں فیصلے پر پہنچنے والی کونسی بات ہے۔ کیا ہمارے تمام بزرگ جھوٹے تھے۔۔۔ سقراط نے کہا، 'ہو سکتا ہے فیثا غورث ہی غلط ہو، لیکن ہر نئی بات کو اس طرح جھٹلادینا نہیں چاہئے۔ فیثا غورث سائنس دان ہے۔ اس نے ایک نظریہ قائم کیا ہے۔اس کو جھٹلانے کے لئے ایک اور سائنس دان کی ضرورت ہوگی۔ اسے جھٹلانا عام آدمی کو زیب نہیں دیتا۔ میں تو یہ سمجھ سکا ہوں۔ کہ اس کے نظریات کو سیاسی جھگڑوں میں گھسیٹا جا رہا ہے۔ جو کہ غلط ہے۔
"مجھے تو تم بھی دیوتاوں کے خلاف لگتے ہو" آدمی نے جواب دیا۔ سقراط نے کہا، " میں ابھی حقیقت کی تلاش میں ہوں۔ لیکن جانتا ہوں یہ کام مشکل ہے" سقراط کا باپ پرانے خیالات کا تھا۔ اس کا بھی کہنا تھا، کہ فیثا غورث اگر یہاں نہ آتا، تو ایتھنز کی زندگی بڑی پرسکون ہوتی۔ اسی دوران ایک شخص نے آ کرخبر دی، کہ دیوتاوں کا دشمن اپنے انجام کو پہنچنے والا ہے۔ ایک نیا قانون پاس ہورہا ہے۔ یہ ان لوگوں کے خلاف ہوگا، جو مذہب پرعمل نہیں کرتے۔ اور آسمانی چیزوں کے متعلق نظریات پیش کرتے ہیں۔ دوسرے دن نیا قانون واقعی پاس ہوگیا، اور فیثا غورث کو عدالت میں بلا لیا گیا۔ اس پرالحاد کا الزام لگایا گیا۔ جرم کی سزا موت تھی، جہاں بہت لوگ اس کے خلاف تھے، وہاں کچھ آوازیں اس کے حق میں بھی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اسے شہربدر کرکے اس کو اپنےوطن ایشیائے کوچک جانے دیا جائے۔ چنانچہ اسے موت کی سزا نہ دی گئی، اور وہ اپنے وطن واپس چلا گیا۔ اگرچہ سقراط کی فیثا غورث سے قربت نہ تھی۔ لیکن اس کے چلے جانے کے بعد اسی ایک کمی سے محسوس ہوئی۔ اسے لگتا تھا جس دانش کی اسے تلاش ہے۔ وہ اس آدمی کے پاس تھی۔ جس کی ہم نے قدر نہیں کی۔ اسے فیثا غورث کا جملہ یاد آتا، "وہ شہرت یا عیش و آرام کے لئے نہیں، چاند سورج ، زمین کا مطالعہ کرنے کے پیدا ہوا ہے"
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...