سقراط جب کچھ بڑا ہوا، تو رواج کے مطابق ہرکسی نے اپنے خاندانی پیشے کو اپنانا اورسیکھنا ہوتا تھا۔ لیکن ایک سال کے اندرہی باپ نے اندازہ کرلیا کہ سقراط ایک اچھا سنگ تراش نہیں بن سکتا۔ وجہ کام چوری نہ تھی، سقراط کو ہردم ڈرلگا رہتا کہ کہیں ہتھوڑے کی سخت ضرب سے وہ پتھر کو ہی نہ توڑ دے۔ لیکن فطرت نے سقراط کو مہارت انسان کو سمجھنے کی دی تھی، نہ کہ پتھر کو۔ اسے کام سے زیادہ گاہکوں میں دلچسپی ہوتی، وہ ان کے ساتھ طویل گفتگو کرنے لگ جاتا۔
سقراط کا زمانہ وہ تھا، جب ایتھنز میں نئے نئے تجربے ہورہے تھے۔ اہم خیالات اور تصورات کی چھان پھٹک ہورہی تھی۔ اور خوبصورت چیزیں بن رہی تھی، جن کی شہرت یونان سے باہردیگر ملکوں میں پھیل رہی تھی۔ چار سو ممالک کے بحری جہاز ایتھنز آ کررکتے تھے۔ بازاروں میں مجالس لگتی، اور بحث مباحثے ہوتے۔ سقراط ایک سوال کے بعد دوسرا سوال کرتا چلا جاتا۔ اور اپنے مخاطب کو پریشانی میں مبتلا کردیتا۔ اس کا یہ انداز اتنا مقبول ہوا، کہ لوگ جان بوجھ کراس سے سوال کرتے، پھر سقراط اس سوال کے ہزار سوال بنا دیتا۔ لوگ اسے شعبدہ بازی سمجھ کرلطف لیتے۔ ایتھنز کی زندگی میں دیوتاوں کا بڑا عمل دخل تھا۔ زہنوں میں سنی سنائی کہانیاں تھی۔ کسی معیار کو سامنے رکھ کرتصورات کو سلجھانے کا رواج نہ تھا۔ دیوتاون کے متعلق کوئی منفی بات سننے کو تیار نہ ہوتا۔ جب سقراط دیوتاوں کے متعلق کوئی سوال کرتا تو لوگ اس کے جواب میں سنی سنائی کہانی سنا دیتے (ہمارے ہاں آج بھی مذہبی لوگ ایسا ہی کرتے ہیں) معاشرہ ایک تضاد کا شکار تھا۔ کچھ دوست دیوتاوں کی چالاکیوں کا مذاق بھی اڑاتے۔ جب کہ ڈراموں میں گناہ گاروں کو دیوتاوں کے ہاتھوں سزائیں ملتی بھی بتائی جاتی۔ روزمرہ کی زندگی لوگ بے ایمانی سے کام بھی لیتے، اور خلوص قلب سے پرستش بھی کرتے۔ شروع میں سقراط یہ سمجھتا تھا۔ کہ دیوتا اسے کسی نیک راستے کی طرف لے کرجارہے ہیں۔ وہ سمجھتا تھا کہ دیوتا انسانوں کا خیال رکھتے ہیں۔ اورسب دیوتا نیک ہوتے ہیں۔ اوردیوتاوں کے بارے وہ کہانیاں جن میں وہ حاسد، جھوٹ بولنے والے، نقصان پہنچانے والے، سزائیں دینے والے دکھائے جاتے ہیں۔ وہ سب جھوٹی کہانیاں ہیں۔
ایک دن دوستوں کے ساتھ اس کا مباحثہ کچھ یوں
سقراط: میں اپنے وطن کو پہلے سے بہتر حالت میں چھوڑ کرمروں گا
کیا تم بتا سکتے ہو، بہتر سے تمھاری کیا مراد ہے، ایک نے جواب دیا، "اس کے معنی ہیں۔ بہتر عمارتیں، زیادہ جانور، بے پناہ ہتھیار"
سقراط نے کہا، نہیں۔ شہراس وقت بہتر ہوتا ہے، جب وہ زیادہ مضبوط ہو، اور اس کے شہری نہ صرف زیادہ محنت سے کام کریں۔ بلکہ حسب مرضی کام کریں۔ "
اچھا یہ بتاو، بہادر بہتر ہوتا ہے یا بزدل؟ دوسرے شخص نے جواب دیا، ظاہر ہے بہادربزدل سے بہتر ہوتا ہے۔ سقراط نے کہا، یہ حقیقت نہیں۔ بہادر آدمی صرف ایک کام کرسکتا ہے۔ وہ یہ اپنے افسرکے حکم کی اطاعت کرے۔ اور میدان جنگ میں آگے بڑھتا چلا جائے۔ ممکن ہے اس میں اپنی مرضی کا دخل نہ ہو۔ دوسرے آدمی کو سمجھ نہ آرہی تھی، کہ سقراط کہنا کیا چاہتا ہے۔ سقراط نے کہا، دیکھو، بہادر آدمی آگے ہی بڑھ سکتا ہے پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔۔۔ جب کہ بزدل آدمی جو چاہے کرسکتا ہے۔۔ تو میں ابھی پہلے کہہ چکا ہوں۔ وہ شہر بہتر ہوتے ہیں۔ جہاں شہریوں کو اپنی مرضی سے کام کرنے کی اجازت ہو۔ اس مثال میں بزدل اپنی مرضی کررہا ہے۔ جب کہ بہادر اپنے افسر کی اطاعت کررہا ہے۔۔
“