سقراط ایتھنز میں ایک سنگ تراش کے ہاں پیدا ہوا۔ وہ بچپن میں دوسروں سے مختلف طرح سوچتا تھا۔ اور اس کو سوال کرنے کی عادت تھی۔ کچھ شرمیلا اور خاموش طبع بھی تھا۔ ایک دن اسکول سے آیا تو باپ سنگ مرمر کے ایک بڑے پتھر سے شیر کا مجسمہ تراش رہا تھا۔ سقراط باپ کو چوکور، نوکیلی ، اور تیزدھار اوزاروں کو استعمال کرتے دیکھ رہا تھا۔ شیر کی شکل آہستہ آہستہ سنگ مرمر سے برآمد ہورہی تھی۔ سقراط نے والد سے پوچھا، کہ آپ کو کیسے اندازہ ہوتا ہے کہ کونسے اوزار کے ساتھ کتنی چوٹ لگانی ہیں۔ اور کہاں کتنا تراشنا ہے کہ وہ جگہ ایک مخصوص شکل بنتی چلی جائے۔ باپ نے کچھ دیرمیں ماتھے سے پسینہ پونچھتے ہوئے ہتھوڑی ایک طرف رکھی۔ اور کہا، کہ تم کچھ بڑے ہو جاو، سب سکھا دوں گا۔ سقراط نے ضد کی کہ ابھی مجھے سمجھائیں۔ میں بڑے ہونے تک جواب کا انتظار نہیں کرسکتا۔ " یوں سمجھو سب سے پہلے تمھیں شیر پتھر کے اندر دیکھنا پڑتا ہے۔ یہ محسوس کرو کہ شیرپتھر کے اندر قید ہے۔ اور یہ طے کرو کہ تمھیں اس کو آزاد کرانا ہے۔ اب جتنا اچھی طرح تم شیر کو پتھر کے اندر بند دیکھ سکو گے، اتنے ہی یقین کے ساتھ تمھیں معلوم ہوگا، کہ کہاں کس اوزار کے ساتھ کتنی چوٹ لگانی ہے۔ کہ شیر کا وہ حصہ آزاد ہوکرباہر نکل آئے"، سقراط اس جواب سے بہت متاثر ہوا، باپ نے کہا، اچھا اب تم اپنی ماں کے پاس جاو۔
سقراط کی ماں کا نام ریتے فیتی تھا۔ اور وہ دائی کے کام میں ماہر سمجھی جاتی تھی۔ ایک دن سقراط نے ماں سے بھی سوال پوچھ لیا، ماں تم اپنا کام کیسے کرتی ہو۔۔ ؟ ماں نے جواب دیا، 'میں تو کچھ بھی نہیں کرتی، میں تو بچے کو آزاد کرانے میں اس کی مدد کرتی ہوں"۔ سقراط چپ چاپ بستر پر ماں کے ساتھ لیٹ گیا۔ سقراط باپ اورماں کے جوابوں سے سوچنے لگا کہ چیزیں چھپی ہوتی ہیں۔۔ انہیں آزاد کرانا ہوتا ہے۔۔۔ان کو باہر نکالنا ہوتا ہے۔ پھر ماں اسے دیوتاوں کی کہانیاں سناتی، تو سقراط ان پر بھی کوئی نہ کوئی سوال کھڑا کردیتا۔۔۔ماں اسے چپ کرادیتی کہ دیوتاوں کے بارے میں ایسا نہیں سوچتے۔۔ اسے الجھن ہوتی تھی کہ دیوتا بھی انسانوں کی طرح نفرت کرتےہیں۔ آپس میں لڑتے جھگڑتے ہیں۔ انسانوں پر غصہ ہو کران کو سزائیں دیتے ہیں۔ عذاب نازل کرتے ہیں۔ سقراط کو بچپن میں ہی اس سوال نے تنگ کرنا شروع کردیا کہ کوئی چیز حسین ہوتی ہے، تو وہ کیونکر حسین ہوجاتی ہے۔ حسن کی حقیقت کیا ہے۔ حسین ہونے کے اصل معنی کیا ہیں۔ ۔ کسی چیز کو حسین کیسے بنایا جاتا ہے۔ سقراط کی اپنی شکل بھی کچھ اچھی نہ تھی۔ کیونکہ دوسرے بچے اس کی بدشکلی کی وجہ سے کوئی نہ کوئی نام ڈال دیتے تھے۔ تو وہ اپنی بدصورتی کے بارے میں سوچا کرتا تھا۔ جب ایک مندر میں ماں نے دیوتا سے دعا مانگنے کو کہا، تو سقراط نے دعا مانگی، " کہ میری صورت تو اب اچھی نہیں ہوسکتی۔ میرے باطن کو حسین بنا دے۔ مجھے عقل کی دولت دے دے، اور میری روح کو متوازن کردے تاکہ وہ عقل کا بوجھ اٹھا سکے۔ دیوتاوں کو غرور ناپسند ہے۔ مجھ میں کبھی غرور پیدا نہ ہو"۔
عمر کے ساتھ ساتھ سقراط کی الجھنوں اور سوالوں کا سلسلہ بھی دراز ہوتا جارہا تھا۔ ان کے محلے میں ایک کمہار تھا جس کے برتن بہت خوبصورت ہوتے تھے۔ سقراط اس کے پاس جا کربیٹھ جاتا اور چاک پر مٹی کے تودے کو خاص شکل میں ڈھلتا دیکھتا۔ سقراط نے کمہار سے بھی پوچھا، کہ کمہار تو اور بھی ہیں۔ تمھارے برتن زیادہ خوبصورت کیوں ہوتے ہیں۔۔ وہ کون سی بات ہےجو ان کو 'حسین' بنا دیتی ہے۔ سقراط مجھے یہ تو معلوم نہیں، میں تو صرف اچھے برتن بناتا ہوں۔ اور یہ کہہ سکتا ہوں کہ ایک اچھا بے عیب برتن حسین ہوتا ہے۔ اب سقراط کو لگا، کہ جس طرح خوبصورت مورتیاں پتھروں سے نکل آتی ہیں، اور مٹی کے تودے سے حوبصورت برتن ۔۔ اسی طرح میرے سوالوں کے جواب کبھی اسی طرح باہر نکل آئیں گے۔