یمن کا یہ جزیرہ آج سے ساٹھ لاکھ سال قبل گنڈووا کے عظیم براعظم سے الگ ہوا تھا۔ نیوزی لینڈ، ہوائی، گالاپاگوس جزائر اور نیو کالیڈونیا کی طرح اتنے پرانے وقت میں کٹ جانے کا مطلب یہ کہ یہاں پر زندگی اپنے ہی ڈھنگ میں ہے۔ یہاں پر جانے والوں کا کہنا یہ ہوتا ہے کہ لگتا ہے کہ وہ کسی الگ ہی دنیا میں پہنچ گئے ہیں۔ مائیوسین زمانے میں الگ ہو جانے کا مطلب یہ کہ اگرچہ اس وقت تک زندگی کی بڑی شاخیں نمودار ہو چکی تھیں مگر سات سو انواع ایسی ہیں جو اس جزیرے کے علاوہ دنیا بھر میں کہیں بھی اور نہیں۔ زندگی ساٹھ لاکھ سال میں ارتقائی شاخوں میں کس قدر فرق رخ اختیار کرتی ہے؟ یہ سات سو انواع اس کی مثال ہیں۔ ان میں سے ایک درخت شجرہ دم الاخوین ہے جس کو انگریزی میں ڈریگن بلڈ ٹری کہتے ہیں۔
اس جزیرے میں سیاحت کی غرض سے آنے والوں کے لئے یہ درخت خاص دلچسپی کا حامل ہے۔ اس کی شاخوں کی شکل کے علاوہ اس کے تنے سے نکلنے والا خون کے رنگ جیسا رس اس کی خاص پہچان ہے۔ اس نکلنے والے رس کو سرخ کپڑے رنگنے کے لئے ڈائی اور پینٹ کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ یہاں پر پہلی بار انسان نے آج سے دو ہزار سال قبل قدم رکھا جب آج کے پاکستان سے تعلق رکھنے والے ملاح یہاں پر پہنچے۔ انگریز دور حکومت میں یہ ممبئی اور سندھ کے صوبے کا حصہ رہا اور عدن کے ساتھ اسے 1937 میں الگ کیا گیا۔
آج اس جزیرے کی اپنی خاص مقامی انواع کی تعداد میں کمی آ رہی ہے اور اس میں ایک بڑا ہاتھ انسان کے لائے گئے جانوروں کا ہے۔ علاقے میں چھڑ جانے والی جنگ کی وجہ سے نہ صرف سیاحت متاثر ہوئی (دو سال پہلے یہاں جانے والی پروازیں بند کر دی گئیں، اب صرف سمندری راستے سے جایا جا سکتا ہے)، بلکہ ماحول بچانے کی کوششیں بھی۔ شجرہ دم الاخوان جو پورے جزیرے پر پھیلے تھے، اب ان کی تعداد کم ہو رہی ہے۔ کنزرویشن کے حوالے سے ان کی درجہ بندی اب ولنرایبل، یعنی خطرے میں ہونے کی کر دی گئی ہے۔
یہاں پر حکومت کرنے والے بدلتے ہاتھ ہوں، متحدہ عرب امارات سے آنے والی فوج کا اس سال ہونے والا حملہ، یمن کا کمزور ہوتا حکومتی تسلط، صومالیہ کا اس جزیرے پر دعوی، اس جگہ پر تین سال سے جاری جنگ یا تائب جنگجوؤں کو یہاں پر بسانے کی کوشش۔ لاکھوں برس اس جزیرے پر رہنے والے اس درخت کے لئے یہ سب نیا ہے۔