سوشل سائنس کا تجرباتی طریقہ۔ خواتین کے مسائل۔ ٹی وی کے غیرمتوقع مثبت اثرات
ایک نوزائیدہ بچے کے پیدا ہونے کے لئے برصغیر دنیا کی بہترین جگہوں میں سے نہیں۔ غربت، کرپشن، جہالت، آلودگی، بنیادی سہولتوں کا فقدان یہاں کے بڑے مسائل ہیں۔ ابھی بات صرف انڈیا کی جہاں پر اس کی حالیہ برسوں میں ہونے والی ترقی کے باوجود یہ مسائل باقی برصغیر سے زیادہ مختلف نہیں۔ اس کی دو تہائی آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے اور دیہی علاقوں میں سے آدھی آبادی بجلی سے محروم ہے اور تین چوتھائی گھروں میں ٹوائلٹ نہیں۔
بیٹیوں کے مقابلے میں بیٹوں کی ترجیح کی وجہ سے مردوں کے مقابلے میں خواتین کی تعداد ساڑھے تین کروڑ کم ہے۔ یہ کہاں ہیں؟ کچھ پیدائش سے پہلے مار دی گئیں، کچھ پیدائش کے بعد (پیدائشی پھٹے تالو والی لڑکی کو پیدا ہوتے ہی قتل کر دینے کی فیس چنائی میں ایک دائی تین سو روپے لیتی ہے)۔ الٹراساؤنڈ کی وجہ سے یہ توازن زیادہ خراب ہوا۔
اک لڑکی کی زندگی آسان نہیں۔ قدم قدم پر رکاوٹ، خواہ تعلیم ہو، صحت یا روزگار۔ یہ صورتحال اس قدر خوفناک ہے کہ ایک سروے کے مطابق ۵۱ فیصد مرد شوہر کے ہاتھوں بیوی کو مار پیٹ کو درست سمجھتے ہیں! اس سے حیرت انگیز بات یہ کہ خواتین میں سے بھی ۵۳ فیصد کا بھی یہی خیال ہے۔ کھانا جل جانے اور بغیر اجازت گھر سے باہر جانے جیسی چیزوں پر بھی تشدد کے واقعات ہو جاتے ہیں۔ ایک لاکھ خواتین ہر سال گھر میں جل کر یا تشدد کی وجہ سے ہلاک ہو جاتی ہیں۔
حکومت کی طرف سے اس کے تدارک کے لئے کئی پروگرام شروع کئے گئے۔ اپنی بیٹی، اپنا دھن کا پروگرام یہ ظلم روکنے اور کئی مائیکروکریڈٹ پروگرام خواتین کو معاشی طور پر اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لئے اور بے شمار سرکاری اور غیر سرکاری تنظیمیں آگاہی کے اور مسئلے کے حل کی کوشش کے لئے برسوں سے کام کر رہے ہیں۔ ان سب سے کوئی قابل ذکر کامیابی نہیں ہوئی۔
پھر ایک تبدیلی اچانک، چپکے سے دبے پاؤں آئی۔ سرکاری ٹی وی چینل دوردرشن کئی دہائیوں سے کام کر رہا تھا۔ چھوٹے شہروں میں اس کی بری ریسپشن اور عام دلچسپی کے پروگراموں کے فقدان کا مطلب یہ کہ اس کو دیکھنے والوں کی تعداد محدود رہی۔ ۲۰۰۱ میں کیبل ٹی وی کی آمد ہوئی۔ اگلے پانچ برسوں میں یہ اس تیزی سے پھیلا کہ پندرہ کروڑ بھارتی شہریوں نے اس دوران پہلی بار ٹی وی دیکھا۔ خاموش دیہی گھروں سے پہلی بار ڈرامے، خبریں، گیم شو کی آوازیں آنا شروع ہوئیں اور انہیں پہلی بار پتہ لگا کہ ان کی بستی کے باہر دنیا کیسی ہے۔
کیبل ٹی وی ہر گاؤں تک نہیں پہنچا اور مختلف وقتوں میں مختلف علاقوں تک پہنچا۔ یہ سوشل سائنس کے لئے ایک بنی بنائی نیچرل تجربہ گاہ تھی۔ کس جگہ کب کیبل آئی اور اس کے نتیجے میں رویوں میں ہونے والی تبدیلیوں کا ڈیٹا سوشل سائنس کے لئے بہترین موقع تھا۔ ہزاروں گھرانوں سے ڈیٹا اکٹھا کیا گیا جن میں اکثریت دیہی خاندانوں کی تھی۔ نتیجہ بالکل واضح تھا۔ وہ تبدیلی جسے لانے میں حکومت اپنی کوشش کے باوجود ناکام رہی تھی، یہ چھوٹا ڈبہ اس میں کامیاب رہا تھا۔
کیبل ٹی وی والے گھرانوں میں بیٹوں کے ساتھ ترجیحی سلوک کم تھا۔ خواتین،خاص طور پر کم عمر خواتین تشدد برداشت نہیں کرتی تھیں۔ اپنے خودمختار انسان ہونے اور کسی دوسرے کی پراپرٹی نہ ہونے کا شعور زیادہ تھا۔ ٹی وی والے گھرانوں میں بچوں کی اوسط تعداد بھی کم تھی اور لڑکیوں کو سکول سے اٹھا لینے کے رجحان میں کمی آئی تھی۔ گھریلو تشدد کے واقعات میں ہونے والی کمی نمایاں تھی۔ (کیا اس کی وجہ خواتین میں آنے والا شعور تھا یا مردوں کا کرکٹ دیکھنے میں مشغول ہو جانا، اس پر سٹڈی نہیں کی گئی)۔
ٹی وی نے برصغیر کی خواتین کی حالت کچھ ہی برسوں میں بدل دی تھی۔
سوشل سائنس کے تجربے لیبارٹری میں نہیں کئے جا سکتے۔ ان کے لئے قدرتی طور پر بننے والی تجربہ گا ہیں تلاش کرنا پڑتی ہیں۔ ایک ہی جیسی کمیونیٹی میں اگر صرف ایک فیکٹر کا فرق ہو تو اس سے حاصل ہونے والا ڈیٹا اس کا ایک طریقہ ہے۔ ٹی وی سے ہونے والی اس تبدیلی کا مطالعہ اس کی ایک مثال ہے۔
نوٹ: اس کا بڑا حصہ لیوٹ اور ڈنبار کی کتاب سپر فریکانکمس سے لیا گیا۔