بیسویں صدی سے پہلے فزکس، بہت کامیابی سے دنیا کی وضاحت کرتی تھی۔ اس میں دنیا کو روزمرہ کے انسانی تجربے کے لحاظ سے دیکھا جاتا تھا۔ یہ نوٹس کیا گیا کہ جسے اوپر اچھالا جائے، وہ نیچے گرتا ہے۔ اس کا وقت اور رفتار معلوم کی جا سکتی ہے۔ 1687 میں نیوٹن نے اس کو ریاضی کی مساوات میں بیان کر دیا۔ یہ قوانین اس قدر طاقتور تھے کہ انہوں نے چاند اور سیاروں کے مدار کا بھی بتا دیا۔ بیسویں صدی سے پہلے یہ سب ٹھیک چلتا رہا لیکن بیسویں صدی میں یہ خوبصورت اور آرامدہ ورلڈ ویو تہس نہس ہو کر رہ گیا۔ سائنسدانوں نے دریافت کیا کہ نیوٹن کی روزمرہ کی تصویر کے نیچے چھپی حقیقت بہت مختلف تھی۔ اس گہری حقیقت کو اب کوانٹم تھیوری اور ریلیٹیویٹی کہا جاتا ہے۔
جس طرح سائنسدان فزیکل دنیا کو سمجھنے کے لئے تھیوریاں بناتے ہیں، ویسے ہی ہم معاشرتی دنیا کو سمجھنے کے لئے اپنی ذاتی “تھیوریاں” رکھتے ہیں۔ یہ انسانی معاشرے میں شرکت کرنے کے ایڈونچر کا حصہ ہے۔ ان کی مدد سے ہم دوسرے لوگوں کے رویے کا مطلب نکالتے ہیں۔ ان کے ردِعمل کی پیشگوئی کرنے کی کوشش کرتے ہیں، یہ اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں کہ کسی دوسرے سے اپنا کام کیسے نکلوایا جا سکتا ہے، یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ دوسرے کے بارے میں کیا رائے بنانی ہے۔ کیا ان پر بھروسہ کرنا ہے؟ اپنے پیسوں کے بارے میں؟ اپنی صحت کے بارے میں رائے پر؟ اپنی گاڑی کی چاپی حوالے کرتے ہوئے؟ اپنے بچوں کو ان کے سپرد کرتے ہوئے؟ خود اپنا دل کسی کو دیتے وقت؟
جس طرح فزیکل دنیا کے ساتھ ہوا تھا، ویسے ہی سوشل یونیورس بھی اپنی تہہ میں ایک بہت ہی مختلف حقیقت رکھتی ہے۔ فزکس کا انقلاب اس وقت آیا جب ہم نئی ٹیکنالوجی کی مدد سے ایٹم اور سب ایٹامک پارٹیکل، جیسا کہ فوٹون یا الیکٹرون کی شناخت اور مطالعہ کرنے کے قابل ہوئے۔ ویسے ہی نیوروسائنس کی ٹیکنالوجی ہمیں ذہن کی حقیقت کی پرتیں کھولنے میں مدد کر رہی ہے۔ اور یہ ویسے بالکل نہیں جیسا ہم اس سے پہلے اس کے بارے میں تصور کرتے آئے تھے۔ پچھلی چند دہائیوں سے پہلے پوری انسانی تاریخ میں یہ سب ہم سے مخفی رہا تھا۔
اس سے رونما ہونے والا انقلاب اسی پیمانے کا ہے جس پیمانے پر کوانٹم انقلاب تھا۔ ہم کون ہیں اور کام کیسے کرتے ہیں۔ یہ ہمیں اس کی جھلک دکھاتا ہے۔ اور یہ بے نام انقلاب نہیں۔ اس کا نام سوشل نیورسائنس طے کیا گیا تھا۔ ایک نیا شعبہ جس میں یہ نام اس کی پہلی میٹنگ میں اپریل 2001 میں دیا گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کارل جُنگ کا یقین تھا کہ انسانی تجربات کو سمجھنے کے لئے خواب اور متھالوجی کو پڑھنا ضروری ہے تاریخ تہذیب کے واقعات کی کہانی ہے، جبکہ خواب اور قصے انسانی دل کی۔ جنگ کا کہنا تھا کہ یہ وقت اور کلچر سے ماورا ہیں۔ تہذیب کی آمد نے ہمارے “اصل” کو گہنا دیا ہے۔ انسان کیا ہے؟ اس کا پتا لگانے کا یہ طریقہ ہیں۔ آج ہم اس سے زیادہ بہتر طریقے سے خود کو کام کرتا دیکھ سکتے ہیں۔
ذہن کی سطح کے نیچے کیا کچھ ہوتا ہے؟ اور اس کا ہم پر کتنا گہرا اثر ہے، اس سے زیادہ جو اس سے پہلے ہمارا خیال تھا۔ اگر معاشرے کو سمجھنا ہے، روزمرہ خود کو درپیش رکاوٹوں کو عبور کرنا ہے جو زندگی کو بھرپور طریقے سے گزارنے سے روکتی ہیں تو اس کے لئے پہلا قدم خود کے اندر ذہن میں مخفی خفیہ دنیا سے واقفیت پیدا کرنا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا آپ سرمایہ کاری کا فیصلہ کرتے ہوئے یہ دیکھتے ہیں کہ مطلع ابر آلود ہے یا دھوپ نکلی ہے؟ کیا کسی کو ووٹ دیتے ہوئے فیصلہ کرتے ہوئے امیدوار کے قد کاٹھ کو مدِنظر رکھتے ہیں؟ کیا کوئی مشروب چکھتے وقت اس کے خوش ذائقہ ہونے کا فیصلہ قیمت کا لیبل دیکھ کر یا دیکھے ہوئے اشتہار میں مسکراتی خاتون کے چہرے کی بنیاد پر کرتے ہیں؟ کیا کپڑے دھونے کے “بعد” کپڑوں کی صفائی کا اندازہ ڈیٹرجنٹ کے ڈبے کے رنگوں کو دیکھ کر طے کرتے ہیں؟ کیا کسی کی محبت میں گرفتار ہوتے وقت یہ دیکھتے ہیں کہ اس کا نام آپ سے کتنا مماثل ہے؟ کیا عسکری ادارے میں ترقی کا فیصلہ کرنے والا بورڈ اس کو معیار بناتا ہے کہ امیدوار کی آواز کتنی بھاری ہے؟ کیا کھانا پکانے کی ترکیب کی خوشخطی دیکھ کر اندازہ لگاتے ہیں کہ اس کو بنانا کتنا مشکل ہے؟
کیا کہا؟ نہیں؟؟ یہ تو ہمارے ان فیصلوں کے لئے جانے والے اہم عوامل کی فہرست ہے۔ ان کا اژر سیاست، تجارت، معیشت، بزنس، محبت، معاشرت، سرمایہ کاری جیسے گہرے معاملات پر ہے۔ ہم خود اکثر ویسے کام نہیں کرتے، جیسا ہم اپنے بارے میں گمان رکھتے ہیں۔