سوشل میڈیا ہماری طاقت بھی ہے
اور ہماری کمزوری بھی!!
سوشل میڈیا کے معرفت ہم بظاہر تو
پوری دنیا سے جڑ گئے ہیں مگر
سوشل میڈیا کے معرفت ہم نے
ایک اپنی دنیا بنالی ہے!!
ہم خیالوں کی دنیا
ہم مزاجوں کی دنیا
اپنے جیسوں کی دنیا
اپنے احبابوں کی دنیا
اس دنیا سے تو ہم ان
سب کو ”بلاک“ کرکے
باہر نکال دیتے ہیں
جو ہم سے اختلاف رکھتے ہیں!!
سوشل میڈیا کی دنیا ایسی دنیا نہیں
جہاں لڑ جھگڑ کر ساتھ رہا جائے!!
سوشل میڈیا بظاہر ہمیں جوڑتا ہے
سوشل میڈیا اصل میں ہمیں توڑتا ہے
سوشل میڈیا کی دنیا دھوکے باز ہے!
یہ وہ میڈیا ہے جس پر لاکھوں لوگ
خوشی خوشی فالو کرتے ہیں مگر
غم ِتنہائی میں کوئی قریب نہیں آتا
شہید قندیل بلوچ کے کتنے فین تھے؟
اور اس کے جنازے میں کتنے لوگ جمع ہوئے؟
سوشل میڈیا بے وفا میڈیا کا وہ ہجوم ہے
جس میں چند لوگ فرینڈ کو ”دوست“ سمجھتے ہیں
اور دوستی کا بھرم رکھتے ہیں!!
سوشل میڈیا ذاتی نمود و نمائش کا وسیلہ بن گیا ہے۔
ایسا نہیں کہ ہم سوشل میڈیا پر اہم اشوز ڈسکس نہیں کرتے
کرتے ہیں مگر ان اشوز سے انصاف نہیں کرتے
سوشل میڈیا ہمارے لیے ایک ”ہائیڈ پارک“ بن چکا ہے
اس ”ہائیڈ پارک“ میں ہم ظاہر بھی ہیں اور غائب بھی ہیں۔
اور ایسا بھی نہیں کہ دنیا میں سوشل میڈیا کا استعمال مثبت نہیں ہوتا
بہت ہوتا ہے!!
دنیا کے بہت سارے افراد اس میڈیا کے معرفت ظلم و جبر کا
مستقل مقابلہ کر رہے ہیں
یہ وہ لوگ ہیں جو ذاتی پوسٹس کم
اور نظریاتی پوسٹس زیادہ رکھتے ہیں!!
یہ لوگ دنیا سے مل ایک نئی دنیا بنانے کی
جدوجہد میں مصروف ہیں!!
آئیں دنیا میں ان دوستوں کی تلاش کریں
جو سمجھتے ہیں کہ ”ہمیں ایک لکیر کھینچنی چاہئیے“
دنیا کے دوستوں اور دنیا کے دشموں کے درمیاں؛
ساتھیو اور دوستو! بتاؤ کہ سوشل میڈیا سچی میڈیا کب بنے گی؟
کب اس میڈیا کے معرفت ہم ”سمندری“ بن کر
دنیا کے دور دراز ساحلوں پر جائیں گے
اور وہاں سے لے آئیں گے
درد کے ”در“ اور آنسوؤں کے موتی
اور ہمت؛ جرئت؛ شجائت!!
ہم اس دنیا سے انقلابی کتابیں
ہم اس دنیا سے انقلابی فلمیں
ہم اس دنیا سے انقلابی نظمیں
اور انقلابی پیغامات اور خطابات
چی گویرا کے؛ کاسترو کے اور
شاعر دھرتی اور شاعر کہکشاں
پبلو نرودا کے نظم ڈھونڈ کر لائیں
اور دنیا کو بتائیں
”ظلم کی ذات ہے کیا؟
ظلم کی اوقات ہے کیا؟“
اور دیس کے دلگیر عوام کو
یہ بھی بتائیں
”کہو تم وزارت پہ جانے سے پہلے
کہو تم صدارت سے جانے سے پہلے
کہو تم عدالت سے جانے سے پہلے
قیامت کے دن اور خدا پہ نہ چھوڑو
قیامت سے یہ لوگ ڈرتے نہیں ہیں
اسی چوک پر خون بہتا رہا ہے
اسی چوک پر قاتلوں کو پکڑ کر
سزا دو۔۔سزا دو۔۔سزا دو“
سوشل میڈیا کی دنیا
پہلے سیاسی اور پھر انقلابی میڈیا کب بنے گی؟
کب بنے گی؟
کب بنے گی؟
کب بنے گی؟
”دنیا ہے تیری منتظر
اے روز مقافات“
کیا ہم اب تک اقبال تک
محدود رہیں؟
یا ایک قدم آگے بڑھائیں
وہاں جہاں
یہ عبارت کندہ ہے
”ترے عشق کی انتہا چاہتاہوں
میری سادگی دیکھ؛ کیا چاہتا ہوں
ذرا سی تو شے ہوں؛ مگر شوخ اتنا
وہی لن ترانی سنا چاہتا ہوں“
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...