سوشل میڈیا کا جن
پُرانے زمانے میں لوگ پیغام رسانی جانور کے چمڑے کے اُوپر کندہ کرکے کیا کرتے تھے اور کم ذرائع آمدورفت کی وجہ سے پیغام کو ایک مقام سے دوسرے مقام پر پہنچنے میں بھی کافی وقت درکار ہوتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ چمڑے کی جگہ کاغذ نے لی اور گھوڑوں سے سواری پہیوں والی سواری میں تبدیل ہوگئی اور اس طرح کم وقت میں زیادہ فاصلے طے ہونے لگے اور دنیا ایک نئے ٹیکنولوجی والے دور میں داخل ہونے لگی۔ اسی جدت کی بدولت آج دنیا کاغذی خطوط سے نکل کر ای میلز اور کارڈ لیس فون سے ہوتی ہوئی موبائیل اور پرنٹ میڈیا سے الیکٹرونک میڈیا اور اب سوشل میڈیا میں داخل ہوچکی ہے۔
بِلا شبہ اس ساری ترقی میں ماہرین ِ ایجادات کے بہت بڑے سرمائے اور تحقیقات کا ثمر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب یہ نئی ایجادات انسانی زندگی میں بہت اہمیت اختیار کرچکی ہیں اور انسان اپنی روز مرہ کی زندگی میں ان سے بہت فائدہ بھی اُٹھا رہے ہیں لیکن اس جدید ٹیکنولوجی کے جہاں بہت سے فوائد ہیں وہاں اس کی وجہ سے انسانی زندگی میں معاشرتی پریشانیاں بھی جنم لے رہی ہیں۔بد قسمتی سے اس جدید ٹیکنالوجی کی بدولت جہاں لوگ مثبت فوائد حاصل کر رہے ہوتے ہیں وہاں منفی سوچ کے لوگ بھی سرگرم ہوجاتے ہیں اور اپنا شرپھیلانا شروع کردیتے ہیں۔ یہی آج کل ہمارے معاشرے میں درد ِسر بنتی جا رہی ہے اور نئے مسائل جنم لے رہے ہیں جیسا کہ آج کل پاکستان میں بھی سوشل میڈیا دنیا بھر کی طرح بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اس طرح آئے روز اسی سوشل میڈیا کے ذریعے منفی سوچ کے لوگ منفی افواہیں اور مذہبی فرقہ وارانہ مواد پھیلا نے میں مصروف ہیں جس کی وجہ سے پُرسکون زندگی اذیت میں مبتلا ہوتی جارہی ہے اور لوگ ڈپریشن کا شکار ہورہے ہیں۔
سوشل میڈیا تقریباً ہر پڑھے لکھے اور نیم پڑھے لکھے لوگوں کی کی جیبوں میں ہر وقت موبائیل فون اور اس میں موجود فیس بُک، ٹویٹر اور واٹس ایپ اور کئی دوسری اپلیکیشن کی صورت میں صارفین کو سہولت فراہم کر رہی ہیں اور اچھی انفارمیشن کے ساتھ ساتھ منفی انفارمیشن بھی مہیا کر رہی ہیں۔ بد قسمتی سے اس کو استعمال کرنے والے میرے سمیت ہر پڑھے لکھے اور نیم پڑھے لکھے لوگ بھی بغیر تحقیق اور مستعد خبروں اور کئی دوسری چیزوں کو آگے شیئر کردیتے ہیں۔جس کی وجہ سے معاشرے میں تضاد کی فضا قائم ہو رہی ہے اور اگر اسی طرح سوشل میڈیا کی زیادہ تر جھوٹی خبروں کا بازار گرم رہا تو خدانخواسطہ معاشرے میں خوفناک تصادم کا خطرہ موجود رہے گا اور اس میں چند منفی عناصر مذہبی فرقہ وارانہ فصادات پھیلانے کا سبب بن رہے ہیں جوکہ ایک فکر کے لمحہ کا مقام ہے۔
میری معاشرے کے تمام لوگوں سے التماس ہے کہ خدارا کسی بھی انفارمیشن کو آگے شیئر کرنے سے پہلے اس کی تحقیق کرلینی چاہیے کہ آیا کہ یہ کہیں شر تو نہیں پھیلایا جا رہا اور ہماری صفوں میں خلا تو نہیں پیدا کیا جا رہا اور خاص طور پر مذہبی مواد، احادیث اور مقدس اشیاء اور مقامات کو اس وقت تک نہ شیئر کیا جائے جب تک کہ اس کا کوئی مستند معلومات نہ ہوں۔ اس طرح آج کل گستاخانہ مواد سوشل میڈیا پر وائرل ہے جوکہ دُشمن کی فرقہ وارانہ جنگ شروع کرنے کی کوشش ہے جس میں انشاء اللہ وہ خود ہی ناکام ہوں گے اور ذلت کا شکار ہوں گے۔
میری حکومت سے التجا ہے کہ اس طرح کےمذہبی مواد کو روکنے کا بندوبست کریں اور افواہوں کے بازار کو بھی روکا جا سکے اور اس قسم کی غیر مصدقہ معلومات کو اپ لوڈ کرنے والوں کو سخت سزا کی صورت میں ممکن ہے تاکہ ہمارہ معاشرہ خوفناک تصادم سے بچ سکے اور بے لگام سوشل میڈیا کے جن کو بھی قابو کیا جا سکے۔
“