سوشل میڈیا کے ذریعے آواز بلند کریں ۔
آج کل زرائع ابلاغ کے نت نئے سے نئے طریقے آ گئے ہیں ، جو راۓ عامہ اور احتجاج میں اتنا بڑا کردار ادا کر رہے ہیں کہ ناقابل بیان ہے ۔ کل میرے ایک دوست جو اپنی پرائیوٹ کار کو Uber پر چلا رہے ہیں کہ رہے تھے کہ کوئ کانگریس میں نیا قانون لایا جانے کی شنید ہے جس کے تحت پرائیوٹ کار کو Uber پر نہیں چلایا جاسکے گا ۔ Uber نے ہم سب کو ٹیلیفون پر اپنے کانگریس کے ممبر سے احتجاج ریکارڈ کروایا ۔ جو ہزاروں لاکھوں میں اب تک پورے امریکہ میں ہو گیا ہے ۔
یہ ہے جناب فائیدہ نئ ٹیکنالوجی کا جس کو پنجاب حکومت اور مریم نواز غلط پراپیگنڈا کے لیے استمعال کرتی رہی ۔ ۲۲ کروڑ عوام کو الو بنانے کے لیے ، کیوں نہ اب ۲۲ کروڑ اپنی باری لیں ؟
گو کہ ابھی بھی کافی سارے لوگ ،ٹی وی اور سوشل میڈیا کے زریعے اس کو درست استمعال کر رہے ہیں ۔ جیسا کہ کافی سارے Suo moto چیف جسٹس کے ان ہی زرائع سے اطلاعات پر مبنی ہوتے ہیں ۔
اگلے دن دبئ کے سیکیورٹی چیف نے جو پاکستانیوں کے خلاف غلاظت بکی اگر ایک ہزار ای میل یا اس کی ٹویٹ پر احتجاج کیا جاتا اس نے کیا دبئ حکومت نے معافی مانگنی تھی ۔ پاکستانی Emirates اورEtihad Air کا زرا بائیکاٹ کرتے نہ ۔ یہاں امریکہ میں مقیم کچھ غیرت مند پاکستانیوں نے ان ایر لائنز سے اپنی فلائیٹز کینسل کروائ ۔ جناب پیسہ کچھ بھی نہیں ، غیرت اور عزت کی خاطر انسان جیتا ہے ۔ دو وقت کی روٹی تو جانور کو بھی مل جاتی ہے ۔
شہزادہ محمد بن سلمان نے New York Times کے مطابق یہ تسلیم کیا کہ ہم نے وہابی ازم امریکہ کہ کہنے پر شروع کیا ۔ آجکل وہ غامدی صاحب کا برینڈ متعارف کروانے پر تلہ ہوا ہے ۔ غامدی صاحب سعودیہ اور امریکہ کے دورے لگا رہے ہیں ۔ کیا پاکستان سعودیہ کو اس پر معافی مانگنے کا یا نقصان کی تلافی کا کہے گا؟ یہودیوں کی ہٹلر کے ہاتھوں قتل و غارت پر Nuremberg trial سے لے کر holocaust میوزیم بنا دیے گئے ۔ حتی کے سیاہ فام لوگوں کے ساتھ جنوبی افریقہ میں زیادتی پر باقاعدہ Truth and Reconciliation Commission بنایا گیا ۔ گوروں کو سزائیں بھی دی گئیں اور معافی تلافی پر بھی مجبور کیا گیا ۔
ہم سب کو انسانیت کی طرف واپس لوٹنا ہو گا ۔ بہت ہو گیا ہمارا استحصال ۔ ہمارے تو تن پر اب کچھ بھی نہیں رہا ۔ دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا ہے ۔ ہم سب ایک بہت بڑی طاقت ہیں اگر کاش ہم اکٹھے ہو جائیں ۔ اور موجودہ زرائع ابلاغ نے تو اکٹھا ہونا اتنا آسان کر دیا ہے ۔ آپ کے ہاتھ میں ہے سمارٹ فون صرف اپنے احساسات منتقل کرنے کی ضرورت ہے ڈیجیٹل دنیا میں ۔ کیوں چائنہ ، سعودیہ اور دبئ جیسے ملکوں میں سوشل میڈیا پر پابندی ہے ، تا کہ ان کو گدھے کی طرح ہانکنا ان کے لیے مشکل نہ ہو جائے ۔
ہم سب پر فرض ہے ، جہاں ہیں ، اپنی آنے والی نسلوں کی خاطر یہ جدوجہد شروع کریں ۔ وگرنہ یہ سب ہم کو کھا جائیں گے ، ان کے نہ دل ہیں نہ انسانیت ، یہ جانور سے بھی بدتر ہیں ۔
جیتے رہیں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔