(Last Updated On: )
بلاشبہ سوشل میڈیا کا بڑھتا ہوا استعمال نے پرنٹ میڈیا کی کمر توڑ دی کر رکھ دی ہے۔
لاکھوں اخبارات، رسائل جرائد اور کتابوں کی صنعت سے وابستہ افراد بے روزگار ہوگئے ہیں یا شدید معاشی تنگدستی کا شکار ہیں اسی معاشی مسائل کے باعث دنیا بھرسے شعبہ صحافت سے وابستہ لاکھوں افراد اپنے کنبے کی کفالت کے لئے دوسرے شعبے یا روزگار سے منسلک ہوگئے ۔ وطن عزیز میں بھی سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے استعمال کے باعث ان گنت افراد بے روزگار ہوئے یا ان کی مالی حالت خراب سے خراب تر ہوتی چلی گئی۔ نجی ادارے کی زوال پزیری کے باعث فہیم مغل کی خودکشی بھی اسی تسلسل کا حصہ ہے ان کے قریبی حلقہ احباب کا کہنا تھا کہ شعبہ صحافت کی ذوال پزیری کے باعث فہیم مغل رکشہ چلانے پر مجبور ہوگیا تھا، جو کے چلتا کم اور خراب زیادہ رہتا تھا۔ اس کی جیب میں بچوں کے لئے دودھ لانے کے پیسے تک نہیں تھے، اس کے علاوہ قرض خواہوں اور بینک سے لی گئی رقم کی ادائیگی کا سوچ سوچ کر وہ روز مر رہا تھا کیونکہ اس کے حالات و وسائل اس نہج پر پہنچ چکے تھے جس سے گھر کی صورتحال اہلخانہ کی کفالت اور رقوم کی ادائیگی کسی صورت ممکن نظر نہیں آرہی تھی۔ فہیم مغل جیسی ملتی جلتی کہانی سے سینکڑوں نہیں لاکھوں افراد شکار ہیں جو موجودہ حالات کا مقابلہ انتہائی کسمپرسی کی حالت میں کر رہے ہیں۔
بڑھتی ہوئی مہنگائی۔ پیٹرول اور دیگر بنیادی ضروریات زندگی کی قیمتیں آسمانوں پر پہچنے کے ساتھ ساتھ بروقت انصاف کا حصول نا ہونا، بڑھتی ہوئی لاقانونیت اور غنڈہ گردی کے واقعات نے شہریوں میں عدم تحفظ کا احساس اجاگر کر دیا ہے۔ایسے میں بعض حلقوں کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی لگا دینی چاہئے۔ کیونکہ اس کے پرنٹ میڈیا کے ساتھ ساتھ سیٹلائٹ میڈیا کو بھی شدید دھچکا پہنچا بہت سے ادارے اپنے ملازمان کی تنخواہوں اور دیگر سہولیات کی ادائیگی سےقاصر نظر آتے ہیں۔ پرنٹ میڈیا اور سیٹلائٹ میڈیا ڈاوّن فال کے سبب ہزاروں افراد کو ملازمت سے دستبردار ہونا پڑا وہیں دن بہ دن حالات مذید دگرگوں ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اگر دوسری جانب سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کا جائزہ لیں تو یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئےاستعمال کے باعث یہ طاقت چند افراد یا اداروں کی گرفت سے نکل کر عام عوام تک منتقل ہوگئی کیونکہ ہر ریاست کی خواہش ہوتی ہےکہ میڈیا کو کنٹرول کر کے اپوزیشن کے بارے میں برائیاں بیان کرنے ساتھ ساتھ زہن سازی کر کے ہم خیال اورہمنواء بنایا جائے اور لاکھ کرپشن ، مہنگائی اور منظم جرائم کے باوجود عوام میں یہ تاثر پھیلایا جائے کہ موجودہ حکومت نا صرف عوام دوست ہے بلکہ اس کی بہتری کی خاطر دن رات کام کر رہی ہے۔ جس کے اثرات دور درس ہوں گے۔ جغرافیائی اورریاستوں کے لحاظ سے میڈیا کوقابومیں رکھنے کے لئے مختلف حربے اپنائے گئے میڈیا کی آزادی کو سلب کرنے کے لئے قدغن اور الزامات کی بوجھاڑ ہوتی رہی اگرچہ آمرانہ ریاستوں میں اس پر سخت ترین پابندیاں عائد رہی مگر دوسری جانب حقیقتآ دیکھا جائے تو جمہوری ریاستوں میں بھی میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لئے ہر جائز و نا جائز، قانونی و غیرقانونی حربوں کی شکل کسی نا کسی صورت موجود رہی۔ ایسے میں سوشل میڈیا کی بدولت ہی حالات و واقعات کا حقیقی معنوں میں گزرتے حالات کی بہترین عکاسی کی گئی ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کی بدولت ہی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بہت سے مجرموں کو قانون کی گرفت میں لانے میں بھرپور مدد ملی۔ تاہم اگر موجودہ حالات کو دیکھا جائے تو حکمران وقت اور کاغذی صنعت سے وابستہ افراد کے ساتھ برقی اور صوتی شعبے سے منسلک افراد بھی سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے استعمال سے نالاں نظر آتے ہیں۔