سوشل میڈیا جسے ہم سماجی رابطے کا ذریعہ کہتے ہیں۔ اس کا نام سن کر فیس بک۔ ٹوئیٹر اور دیگر رابطے کے زرائع سامنے آتے ہیں۔ مجھ جیسے افراد اب بھی لاکھوں میں ہوں گے جن کے زمانے میں رابطہ کا ذریعہ صرف ایس ایم ایس، ای میل اور خط و کتابت تھا۔ وقت نے کروٹ لی پھر MIRC کا دور آیا شائد ہماری نئی نسل اس نام سے واقف بھی نا ہوں۔ یہ انٹرنیٹ کی ایسی دنیا تھی جہاں نئے دوستوں کی تلاش میں دن رات وقف کر بیٹھے
پہلے اخبارات و جرائد ہی لوگوں کے معلومات کا اہم زریعہ تھے اخبار میں شہہ سرخی کا تعین ایڈیٹر کرتا تھا۔ ٹی وی پر نیوز کا فیصلہ ڈاریکٹر کے ذمہ تھا۔ کئی بار میڈیا پر قدغن لگی۔ سننسر شپ ہوئی۔ حکمران وقت نے ان تمام ذرائع کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی بھرپور کوشش کیں۔۔
لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا سوشل میڈیا کا پروان ہمارے معاشرے میں بڑھتا چلا گیا۔
سوشل میڈیا بنانے کا مقصد یہ تھا یہ دنیا بھر میں ہماری جو دوستیاں ہیں ان کو ایک دوسرے سے مربوط کیا جائے تاکہ اپنے ہم خیال لوگوں سے گفتگو کر سکیں۔ چونکہ پاکستان میں تمام ذرائع ابلاغ تک رسائی عام آدمی کو میسر نا تھی۔ اور بااثر افراد ان تمام زرائع پر اپنا تسلط قائم رکھنا چاہتے تھے تو لوگوں کے رجحان میں تبدیلی آئی کیونکہ انہیں آزادی اظہار کی طلب تھی۔ وہ اپنے الفاظ اپنی سوچ دنیا تک پہنچانا چاہتے تھے تو ایک نئی سوچ نے جنم لیا کیونکہ اخبارات کا حصول صرف محدود شہروں تک تھا۔ اور الیکٹرانک میڈیا چند بااثر افراد کے مرہون منت۔ چناچہ ایشیا کے ممالک خصوصا پاکستان میں ایک نئی روایت تیزی سے پروان چڑھی۔ اور لوگوں نے معلومات کی ترسیل کے لئے سوشل میڈیا کا استعمال کرنا شروع کر دیا۔
چونکہ یہ زریعہ انتہائی کم خرچ اور موثر تھا کیونکہ آپ کی خبر کو ہزاروں لاکھوں نہیں بلکہ لاتعداد لوگ استفادہ کرسکتے تھے۔ پاکستان میں چونکہ نوجوان افراد کی تعداد بہ نسبت ضعیف افراد کے زیادہ ہے تو اس تبدیلی کو نا صرف بخوشی قبول کیا بلکہ اس سے استفادہ بھی حاصل کیا۔۔ 2005 تک پاکستان میں سوشل میڈیا کا استعمال حد سے بڑھ گیا تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان میں فیس بک کا استعمال کرنے والے افراد %89.47 ہیں جبکہ ٹوئیٹر %3.65 اور یوٹیوب کا استعمال %1.89 کیا جاتا ہے۔ یعنی کے خبروں اور دیگر معلومات کے حصول کے ذرائع سوشل میڈیا رہ گیا ہے۔۔۔
روزانہ کی بنیاد پرسوشل میڈیا استعمال کرنے ہر شخص نے خواں اپنے پروڈکٹ کی مارکیٹنگ کے لئے یا خبروں کے حصول کے لئے اپنے اپنے پیجز اور گروپ بنا رکھے ہیں۔ تاکہ اپنی آواز لوگوں تک پہنچا سکیں۔۔
پاکستان کی اگر بات کریں تو یہاں سوشل میڈیا کا استعمال اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے ایک اہم زریعہ سمجھا جاتا ہے۔ جس کا استعمال ہر جماعت اپنے کے سوشل میڈیا پرسن کے زریعے کرواتی ہے تاکہ معاشرے میں افراد کی ذہن سازی کی جاسکے۔الزام ، بہتان تراشی اور دوسری جماعت کو نیچا دیکھانا خاص ٹاسک ہوتا ہے۔ چونکہ سوشل میڈیا تک رسائی ہر افراد تک ممکن ہے- سوشل میڈیا پر نا تو آپ کو کسی ڈگری کی ضرورت ہے نا ہی بڑے بڑے دفاتر بس انٹرنیٹ اور موبائل کے ذریعے اپنی اپنی سوچ دوسروں تک باآسانی منتقل کر سکتے ہیں۔ تو یہ خبروں کی ترسیل کا سب سے موثر ہتھیار ثابت ہوا۔
ایک دوسرے پر قدظن لگانا ہو یا کیچڑ اچھالنا ہو تمام تر قید و حیود سے پاک یہ رجحان لوگوں میں تیزی سے سرائیت کر گیا۔
سوشل میڈیا کے استعمال سے جرائم بھی ایڈوانس ہوتے گئے۔ اور نوجوان لڑکیوں سے دوستی اور ان کو بلیک میل کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کی ساکھ مجروح کرنے والے ناپاک عناصر بھی اس جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھانے لگے۔ جس کے منفی اثرات بھی سامنے آئے تو پاکستان میں بھی سائبر کرائم کے حوالے سے ادارے وجود میں لائے گئے جسے وقت کے ساتھ ساتھ جدت دی گئی تاکہ اس طرح کے واقعات کی روک تھام کی جاسکے۔
لیکن بہت سے ایسے سپاہی بھی موجود ہیں جو پاکستان کے دفاع میں اپنا اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ لوگ کسی بغیر کسی لالچ یا تنخواء کے اپنا کام کرتے ہیں۔ کیونکہ جدید دنیا میں سب سے مثبت ہتھیار یہ ہی ذرائع ہیں۔ ہمارے ذاتی خیالات دوسرے کے خیالات بدلنے میں بہت اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ لہذا اپنے کمنٹ اپنی پوسٹ کو بہت سوچ سمجھ کر کیا کریں خدانخواستہ آپ کی کسی دانستہ یا غیر دانستہ حرکت سے آپ کی یا کسی کی زندگی اجیرن بنا سکتی ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...