کچھ سال پہلے کئی لوگوں کی آنکھ اس آواز سے کھلتی تھی۔
"اخبار" "اخبار اے" اخبار والا"
اخبار فروش سائیکل/موٹر سائیکل پر اپنے مستقل گاہکوں کے گھر اخبار پہنچاتے یہ آواز لگاتے جاتے تھے۔
اخبار فروش اپنے مستقل گاہکوں کے گھر دروازے سے اخبار پھینکتے کچھ لوگ اخبار کا انتظار کرتے اور اخبار فروش سے دروازہ کھول کر خود اخبار پکڑتے کوئی نہ کوئی اخبار تقریباً ہر کسی نے لگوایا ہوتا تھا۔
جو 5 روپے والا مہنگا اخبار نہ خرید سکتے ان کے گھر 2 روپے والا سستا اخبار آتا۔
مہنگے اور سستے اخبار کے علاؤہ ایک پہلو اور بھی ہوتا تھا۔ ذوق اور دلچسپی مثلاً جو لوگ پیپلز پارٹی کے حمایتی تھے ان کے گھر "مساوات" اخبار اتا۔ جیسے آج کل پی ٹی آئی والوں کی پسند کے چینل اے آر وائی وغیرہ ہیں۔
صبح اٹھ کر چائے پینے کے ساتھ اخبار بھی چائے کے لوازمات کا حصہ تھا۔
چوراہوں میں اخبار فروشوں نے سٹال لگا رکھے ہوتے تھے جہاں کھڑے ہو کر اکثر لوگ اخبار پڑھتے سٹوڈنٹس ہاسٹلز میں اخبارات پڑھنے کے لئے سٹینڈ لگے ہوتے تھے شاید اب بھی کہیں موجود ہوں۔
گلی محلے کےچائے کے کھوکھوں والوں نے اخبار خریدا ہوتا تھا جن لوگوں کے گھروں میں اخبار نہ آتا وہ وہاں پڑھتے پھر 90 کی دھائی کے بعد پرائیویٹ چینل آئے تو اخباروں کی سرکولیشن میں بےتحاشا کمی آئی۔ اور اب سوشل میڈیا نے اخباروں کی سرکولیشن کو تقریبآ نہ ہونے کے برابر کر دیا ہے۔
وہ دور بھی ہوتا تھا جب اخبار میں "ایڈیٹر کی ڈاک" کے نام سے بھی قارئین کے خطوط اور ان کے جواب کے لئے جگہ ہوتی تھی۔
سوشل میڈیا کے لئے شروعات میں کمپیوٹر اور انٹرنیٹ ضروری تھا۔ کمپیوٹر کے بعد لیپ ٹاپ کے حجم اور وزن کے علاؤہ مہنگا انٹرنیٹ سوشل میڈیا کے آگے ایک رکاوٹ تھا۔ جس کو سمارٹ فون اور سستے انٹرنیٹ پیکجز نے بالکل ختم کر دیا یوں سوشل میڈیا پر چھوٹے بڑے کی جیب میں اخبار ٹیلیویژن لے ایا۔
ہر وہ شخص جس کے پاس سمارٹ فون ہے اور وہ لکھنےکا شوق بھی رکھتا ہے وہ سوشل میڈیا کا رپورٹر بھی ہےاور صحافی بھی ہے۔
پرنٹ میڈیا میں تو اب سکت ہی نہیں رہی تاہم الیکٹرانک میڈیا اب بھی سوشل میڈیا کےخلاف آواز اٹھاتا ہے مگر سب بےسود ہو چکا ہے۔
کیونکہ سوشل میڈیا اب ہر کسی کی ضرورت بن چکا الیکٹرانک میڈیا کہ تقریباً سب ہی صحافی بشمول بڑے بڑے طرم خان اینکرز اپنی ریٹنگ اور پاپولرٹی بڑھانے کے لئے سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں۔ سب ہی چینلز اخبارات کے سوشل میڈیا پیجز یوٹیوب چینلز ٹویٹر اکاؤنٹس کا سوشل میڈیا پر ہونا سوشل میڈیا کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔
سب سے پہلے جس سیاسی پارٹی نے سوشل میڈیا کو اہمیت دی اور اس کے استعمال کے لئے پروفیشنلز کی خدمات حاصل کیں اس پارٹی کا نام تحریک انصاف ہے۔ جس کی بدولت سیاسی میدان میں 22 سال تک کھجل خوار ہونے والے کھلاڑی نے ہر طبقے اور ہر گھر میں اپنے حمایتی بنا لئے جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔
آج تحریک انصاف کے کلینز آف فالورز کے ساتھ ہزاروں سوشل میڈیا اکاؤنٹس/پیجز/یوٹیوب چینلز موجود ہیں۔
سچ کیا ہے جھوٹ کیا ہے یہ بعد کی بات ہے پہلی بات عوام میں کوئی خبر پہچانا ہوتا ہے جوچند کلک کر کے تحریک انصاف پہنچا رہی ہے۔
یہی وجہ ہے پاکستان کی تاریخ میں بدترین کارکردگی کی حامل حکومت ہونے کے باوجود تحریک انصاف کی حکومت بہرحال اپنی مقبولیت رکھتی ہے۔
ان حالات میں جب سابقہ حکومت کی کارکردگی بےمثال تھی لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ / سی پیک/ ترقیاتی کاموں کی بھرمار کے باوجود عوام کی اچھی خاصی حمایت کے باوجود ہمہ وقت دفاعی پوزیشن میں رہتی ہے۔
مسلم لیگ نون کے لئے تو خود ان کی جماعت کے اندر مثال موجود ہے۔
مریم نوازشریف کی مقبولیت کا کیا راز ہے؟؟
مریم نوازشریف نے اگرچہ تحریک انصاف کی نسبت بہت دیر بعد سوشل میڈیا کا سہارا لیا تاہم بہت بہتر کیا اور یہی وجہ ہے کہ اب نون لیگ کی آواز صرف مریم نوازشریف کو سمجھا جاتا ہے۔
اب اگر تمام سیاسی پارٹیوں میں دیکھ لیں تو بہت سے پارلیمنٹرین بہت تجربہ رکھتے ہیں ان کی قابلیت مستند ہے۔ مگر وہ سوشل میڈیا پر موجود نہیں ان کا بڑے پارلیمنٹرین کا نام بہت سے چھوٹے سیاستدانوں سے بھی چھوٹا ہو چکا ہے بہت کم لوگ ان کو جانتے ہیں۔ خیر یہ الگ بات ہے۔
میری دلچسپی پاکستان کی سب سے بڑی اور سب سے بہتر جماعت پاکستان مسلم لیگ نون سے متعلق ہے۔ جس کے پاس سوشل میڈیا پر وہ طاقت نہیں ہے جو اتنی بڑی جماعت کے پاس ہونی چاہئے۔
ایک نو عمر ناتجربہ کار کی یہ بات سن کر خوش رہنا کہ دوسری جماعتیں نون لیگ کے سوشل میڈیا سے ڈرتی ہیں۔
خود فریبی ہے۔
فراز ظلم ہے اتنی خود اعتمادی بھی
رات بھی تھی اندھیری چراغ بھی نہ لیا
۔
جن "دیووں" کو مسلم لیگ نون چراغ سمجھتی ہے یہ "ٹمٹماتے دیوے" صرف خوشامدی ٹٹو ہیں۔
اگر رضاکارانہ طور پر کام کرنے والے ڈھائی تین سولوگ نون لیگ کے لئے نہ لکھ رہے ہوں تو یہ آفیشیل والے دو لائینیں لکھنے کی قابلیت نہیں رکھتے۔
ان کے بنائے ہوئے ہیش ٹیگ کھول کر دیکھ لیں پورے ہیش ٹیگ کی ہزاروں ٹویٹس میں سے بمشکل دو درجن ٹویٹس بھی ایسی نہ ہوں گی جو ہیش ٹیگ میں دیئے گئے موضوع کے مطابق ہوں۔
اکثریت کی ٹویٹس گرم انڈے ٹھندی ٹھار قلفیاں بیچنے والوں کی آوازیں ہوں گی۔
یہی وجہ ہے کہ جس کو تھوڑا سا بہتر لکھنا آتا ہے وہ ہیش ٹیگ/ٹرینڈ پر لکھنا اپنی بےعزتی سمجھتا ہے۔
جو ٹرینڈز پر لکھتے ہیں ان کا اپنا ہی ایک سرکل ہے جس میں ان کی جہالت کنوئیں کے مینڈک کی طرح گول گول گھومتی رہتی ہے۔
بے معنی اور سطحی باتیں کون پڑھے ان کو کوئی فالو نہیں کرتا۔
کیا کرنا چاہئے؟
سب سے پہلے تو اپنے مدمقابل کو دیکھیں اس نے کیاکر رکھا ہے۔ کیا کمزوریاں اور کوتاہیاں ہیں جس نے آپ کو وہ کچھ کرنےنہیں دیا اس پر غور کریں اور محسوس کر سکیں تو ان کو دور کریں۔
ایک باصلاحیت اور معقول پراپیگنڈہ سیل بنائیں جو یہ ادراک رکھتا ہو کہ لوگوں کو کیا سمجھانا ہے کوئی کہہ دیتا ہے
"لوگ ٹویٹ کرتے ہیں اور کریلے گوشت کھا کر سو جاتے ہیں"
چند درجن اینکر جو چند جملے عوام کے منہ میں ڈال کر کئی کئی سال آپ کو اپنی صفائیاں پیش کرنے پر لگا دیتے ہیں ان میں سے کچھ پہلے ہی وہسکی کی چسکی لگائے ہوتے ہیں یا بعد میں چند پیگ لگاتے ہیں۔