سوشل میڈیا اور گریباں چاک
میں حیران ہوں کہ ہمارا سماج کس طرف جارہا ہے۔ میرے جیسے شخص کے لیے یہ شاید اس لیے تکلیف دہ ہے کہ میں اجتماعی فکرپر یقین رکھتا ہوں۔ اگر مجھے صرف اپنی فکر ہوتو مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں کہ معاشرہ کس طرف جا رہا ہے۔ یہ بات میں بڑے دکھ اور کرب سے لکھ رہا ہوں۔ اس کا سبب ہماری سیاسی جماعتوں، اُن کے حامیوں اور دیگر لوگوں کی طرف سے ایک دوسرے کے سیاسی رہنمائوں اور اُن کے خاندانوں کے حوالے سے کردارکشی ہے۔ کوئی بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ یہاں کسی ایک جماعت، لیڈر یا اُس کے خاندان کا دفاع کرنا مقصود نہیں ہے۔ جو لوگ عمران خان اور ان کے اہل وعیال پر گند اچھالتے ہیں، یا وہ جو نوازشریف اور ان کے خاندان پر، بلاول بھٹو زرداری پر، یا مولانا فضل الرحمن پر یا کسی اور پر، سب برابر ہیں۔ مجھے ان سیاسی رہنمائوں میں سے کسی کا دفاع نہیں کرنا۔ میرا اُن میں سے کسی سے کوئی تعلق نہیں، ان اور دیگر سیاسی رہنمائوں کے ا ندر میں مائوزے تنگ تلاش کرنے والوں میں شامل نہیں۔ مجھے پاکستان کی موجودہ سیاسی قیادت میں سے کسی کا مقدمہ نہیں لڑنا اور نہ ہی طرف داری کرنا ہے۔ نہ ہی میں اُن صحافیوں، قلم کاروں اور تجزیہ نگاروں میں شامل ہوں جو نوازشریف کی شکل میں جمہوریت کو پروان چڑھتا دیکھ رہے ہیں یا عمران خان کی شکل میں تبدیل ہوتا پاکستان، بلاول کی شکل میں سوشل ڈیموکریٹک پاکستان، اور نہ ہی میں کسی بھی مذہبی جماعت کے لیڈر کی سیاست کے بطن سے فلاحی اسلامی معاشرہ کا ظہور دیکھ رہا ہوں۔ میں نے سیاسی جدوجہد کے دوران ان بونے سیاست دانوں کی حقیقت کا راز پا لیا تھا۔ افسوس کوئی بھی فرد یعنی لیڈر اور کوئی سیاسی ادارہ یعنی سیاسی جماعت اس قابل ہی نہیں کہ وہ پاکستان کو ایک جدید، ترقی یافتہ، خوش حال اور شان دار ملک میں ڈھال سکے، بلکہ اُن کے اندر اپنے سماج، ملک اور قوم کے معاملات، مسائل، دکھ اور کرب دیکھنے کی صلاحیت ہی نہیں اور اسی لیے وہ ان مسائل کو حل کرنے کے قابل نہیں۔
مگر میں اس ساری تنقید کے باوجود سیاست، سیاسی عمل، سیاسی جماعتوں، لولی لنگڑی جمہوریت پر یقین رکھتا ہوں۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ پچھلے پندرہ بیس سالوں سے جنرل مشرف کا دَور ہو یا پی پی پی کا یا مسلم لیگ (ن) کا، سیاست میں گلی محلے سے لے کر مین سٹریم میڈیا اور اب سوشل میڈیا تک اس بدبودار فضا کو تقویت ملی ہے جو لوگوں کی کردارکشی، کفر اور غداری کے فتووں کے لیے چل رہی ہے۔ میں حیران ہوں کہ میاں نوازشریف پر سیاسی تنقید کی بجائے اُن کے کردار، خاندان، اُن کی بیوی بچوں کے حوالے سے سوشل میڈیا پر کیسے کیسے لطائف، تصاویر اور ویڈیو کلپس پیش کیے جا رہے ہیں، کیا اس کو سیاسی یا انتخابی مہم کہا جاسکتا ہے۔ بڑے فخر سے لوگ اُن کی شریک حیات جو موت وزندگی کی کشمکش میں ہیں، کے حوالے سے خبریں گھڑ کر، لطائف اور تصاویر شیئر کررہے ہیں۔ یقین نہیں آتا کہ کسی کے مرنے کی خبر کو لوگ کیسے Celebrate کرنا چاہتے ہیں۔ مجھے سینکڑوں لوگوں نے جن کا تعلق صحافت سے نہیں ، سیاست سے ہے، نوازشریف مخالف ہیں، انہوں نے کلثوم نواز صاحبہ کی موت کی خبر ایسے پیش کی جیسے خدانخواستہ وہ خدائی علم رکھنے میں سب سے آگے نکل گئے ہوں۔شرم آنی چاہیے۔ اسی طرح عمران خان کے چہرے کو مسخ کرکے کیا کیا نہیں پیش کیا جارہا ہے ان ویڈیو کلپس پر، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمن کے حوالے سے بھی۔ کیا اسے سیاسی یا انتخابی مہم کہتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر تو انتہا ہی ہوگئی ہے۔ بندر کے ہاتھ استرا آگیا۔ ہر کوئی رپورٹر، تجزیہ نگار، جاسوس، سراغ رساں، عالم اسلام کا مفکر، قومی مفکر، اور نہ جانے کیا کیا بننے کے درپے ہے۔ اور وہ جو Stuff بھیجتے ہیں، اُن کو گندگی کے ڈھیر ہی میں پھینکا جاسکتا ہے۔ کوئی انسان تنقید کیے جانے سے آزاد نہیں، خصوصاً سیاسی لیڈر۔ اُن کی سیاست، سیاسی عمل، حکمت عملی، اُن کے فلسفے اور نظریے پر تنقید کرنے کا حق جمہوریت کا ہے۔ مگر کسی کی کردارکشی، بے ہودگی، کفر اور غداری کے سرٹیفکیٹ جاری کرنا کہاں کی سیاست اور انفرمیشن ہے۔
میں حیران ہوتا ہوں جب لوگ میرے وٹس اَپ اور فیس بُک پر میرے ساتھ ایسا میٹریل شیئر کرتے ہیں۔ اُن کو یہ ادراک ہی نہیں کہ میرے جیسے شخص کے پاس کیا ان بکواس Stuff کو دیکھنے، پڑھنے اور سننے کا وقت ہے۔ مجھے اُن پر حیرانی ہوتی ہے کہ آخر وہ میرے جیسے شخص کے ساتھ یہ ’’علم، فکر، دانش یا معلومات‘‘ شیئر کرکے میرے علم، فکر، دانش یا معلومات میں کیا اضافہ کرنا چاہتے ہیں۔ ایک ایسا شخص جس نے سولہ سترہ سال کی عمر میں قومی جریدوں میں لکھنا شروع کردیا، جس کی دوستیاں پاکستان اور دنیا بھر کے دانشوروں اور رہبروں سے ہیں، کیا وہ یہ جانتے نہیں، بالکل جانتے ہیں۔ان میں وہ لوگ بھی ہیں جو میری علم ودانش کی دنیا سے آگاہ ہیں، وہ بھی ایسا میٹریل شیئر کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ میں چوبیس گھنٹوں میں سے تین سے پانچ گھنٹے مطالعہ کرتا ہوں۔ کیا ایسے شخص کو ایسا بیہودہ میٹریل بھیجنے والوں کو اپنی جہالت پر اس قدر غرور ہے۔ مین سٹریم میڈیا پر یہ تنقید تھی کہ وہ میڈیا سرمایہ داری کا سرخیل ہے۔ اسی لیے میں اس کا نقاد ہوں۔ مگر افسوس ہمارا سوشل میڈیا، جہالت، بیہودگی کا ہراول دستہ بننے چلا ہے۔ اور اس کا یقین ہے کہ وہ اس جہالت، کردارکشی اور بیہودگی سے پاکستان میں انقلاب برپا کردے گا۔ تصور کریں اگر میرے پاس نائوم چومسکی کا وٹس اَپ نمبر ہواور میں اے امریکہ کے تناظر میں ایسا بیہودہ میٹریل بھیج کر اس کے علم میں اضافہ کرکے اپنی علمی دھاک بٹھانے کا متمنی ہوں۔ یہ جہالت نہیں بلکہ جہالت پر فخر ہے۔ ہلکا پھلکا مزاح جس میں کسی کی تضحیک نہ ہو، ایک صحت مند عمل ہے۔ مگر کردارکشی کے عمیق گڑھوں میں گری اس مہم بازی نے درحقیقت ہمارے سماج کے نچلے اور درمیانے طبقات کے باطن کو کھول کر رکھ دیا ہے۔ سوشل میڈیا نے سماج کے اسی طبقے کو بے نقاب کیا ہے جو اسے انقلاب کا Tool سمجھ کر استعمال کررہا ہے۔ اور ایسے میں قربانی کی گائیں سیاست دان ہیں۔ یورپ اور امریکہ میں بیٹھے، ملک چھوڑ کر چلے جانے والے لوگ بھی اس دوڑ میں برابر حصہ ڈال رہے ہیں۔
اس مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے یہ لوگ نہ تو عمران خان کا مقدمہ لڑ رہے ہیں، نہ ہی نوازشریف اور آصف علی زرداری کا۔ سوشل میڈیا پر بیٹھے یہ بدمعاش سیاست، سیاسی عمل، سیاسی جماعتوں اور اُن کے رہنمائوں پر کیچڑ اچھال کر درحقیقت اس سماج کے ٹوٹنے، بکھرنے اور برباد کرنے کے عمل کو تیز کررہے ہیں۔ مرد تو مرد، خواتین بھی پیچھے نہیں۔ کیسے ویڈیو بنائی ا ور پھیلائی جاتی ہیں۔ ان خواتین کی زبان سننے والی ہے۔ اللہ اللہ۔ ایک عمران خان پر گند اچھالنے کے لیے بازار کے لفظ استعمال کرتی ہے تو دوسری نوازشریف اور مریم کے خلاف۔ ان سب لوگوں نے اپنی جہالت میں سیاست، سیاسی عمل اور جمہوریت کو تو نقصان پہنچایا ہی ہے، اس کے ساتھ ساتھ سماج کی شان دار قدروں کو بھی آلودہ کردیا ہے۔ یہ تمام سیاسی حمایتی جو سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کے لیڈر کے خلاف آڈیو اور ویڈیو کلپس بنا کرشیئر کرتے ہیں۔ راقم کو ان میں کہیں سیاسی فکر، سیاسی تنقید، علم یا معلومات دکھا دیں تو میں ان کا مجرم۔ میں میاں نوازشریف کا مقدمہ لڑنے والوں میں شامل نہیں، مگر خدارا کیا ہوگیا ہے ہمیں۔ ان کی بیوی اور بیٹی کے خلاف جو زبان استعمال کی جاتی ہے، وہ بازار کے لوگ بھی استعمال نہیں کرتے اور اسی طرح عمران خان کے خلاف۔ نوازشریف کی حکمرانی ہو یا کرپشن کے معاملات، یا اُن کا سیاسی نظریہ اس پر تنقید کرنا میرا اور ہم سب کا حق ہے۔ مگر ہمیں یہ حق نہ ریاست دیتی ہے نہ ہی آئین اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کہ ہم دوسرے کسی کی یوں کردار کشی کریں۔
سوشل میڈیا نے درحقیقت اس سماج کی اُس مڈل کلاس کا چہرہ بے نقاب کردیا ہے اور اس مرتبہ یہ بے نقابی بڑی مختلف ہے۔ یعنی اُن کو کسی دوسرے نے بے نقاب نہیں کیا بلکہ انہوں نے ازخود اپنی جہالت اور بیہودگی کو پیش کرکے اپنے آپ کو بے نقاب کیا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی جو انہوں نے ایجاد نہیں کی بلکہ خریدی ہے، اس بے نقابی کا Tool ہے۔ اس میں انہوں نے سیاست، سیاسی عمل اور سیاسی رہنمائوں کو ٹارگٹ کیا ہے۔ اس لیے کہ وہ مسلح نہیں، اُن کے پاس بندوق اور بم نہیں، اس لیے اُن کے خلاف نام نہاد جرأتِ اظہار کرنا آسان ہے۔ کریں ناں یہ ایسی ہی باتیں بندوق برداروں اور بم بازوں کے بارے میں، لگ پتا جائے! ہمیں ایسی بیہودگی کو نہ صرف مسترد کرنا بلکہ روکنا ہوگا، صرف قانون سازی سے نہیں بلکہ حقیقی فکری طاقت کے ذریعے، شعور اور علم کے ذریعے، ایسے عمل کی نشان دہی کرکے ہی ایسی جہالت کو روکا جاسکتا ہے۔ نواز شریف، مریم نواز، کلثوم نواز، بلاول بھٹو زرداری، آصف علی زرداری، عمران خان، مولانا فضل الرحمن اور تمام سیاسی لیڈروں، اُن کی سیات، سیاسی عمل، نظریے، منشور اور سیاسی فلسفے پر تنقید جائز، مگر کردارکشی قطعاً قبول نہیں۔