سماجی ذہانت
ایک انسان کئی خلیوں اور بافتوں سے ملکر بنا ہوتا ہے جس میں کئی کیمیائی تحاملات ہوتے رہتے ہیں جن کا دارومدار اُس میں موجود عناصر کے طبیعاتی خصوصیات پر منحصر ہوتا ہے جبکہ کئی دفعہ انکے مرکبات عناصر سے یکسر تبدیل ہوجاتے ہیں جیسے پانی کے کیمیائی عناصر کی خصوصیات پانی سے مختلف ہوتی ہے ویسے ہی ایک انسان کوذاتی سطح پربالعموم اور مجموعی سطح پر بالخصوص متعین کرنا نہ ممکن ہے۔ دو یا دو سے زیادہ لوگ مل کر ایک معاشرہ تخلیق کرتے ہیں جن کے قدم اپنے پُرکھوں کے شانوں پر ہوتے ہیں کئی انسان پُرکھوں کے دماغوں پر کھڑے ہوتے ہیں انسانی اعضاء سماجی پابندیوں والے مخصوص ذہن کے زیر اثر ہوتے ہیں۔معاشرے میں لوگوں کے آپس میں تعلقات کی نوعیت اور ذہانت مخصوص اہمیت رکھتی ہے۔ انسان کی اہمیت جانوروں کی نسبت سماجی آگاہی کی بنیادوں پر استوار ہوتی ہے اخلاقیات کی تعمیر، ترقی ، تعلقات اور پیچیدگیاں سماجی آگاہی کہلاتی ہے۔ سچ ، جھوٹ، مدد، فریب، سچائی، ریاکاری، عاجزی، غرور، اخوت، منافقت، خدمت انسان پرسماجی عکس چھوڑتی ہے
سماجی ذہانت انسان کے تجربات، تعلیمات، اخلاقیات، عقل، جذبات، معاملات، خوراک کا استعمال، ناموں اور اشکال کی پہچان، مہذب بننا، انتظامی امور پر نظر، موقع کی مناسبت سے الفاظ کے چناؤ،زبانوں کی اہمیت ،قابلیت حاصل کرنا اور خدمت کرنا، دوسروں کے جذبات محسوس کرنا اور اپنے محسوس کرانا اور ساتھ یہ بھی اندازہ لگانا کہ کتنے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ انتہائی پیچیدہ سماجی تعلقاتسے رونما ہونے والی تبدیلیوں کی نوعیت کی معلومات اور اس کا اندازہ لگانا تاکہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ اچھے تعلقات اور معلومات کا تبادلہ کرسکیں
- Social IQ = Social Knowledge (Dale Carnegie)
- ابراہم میسلو انسان کیلیے سماجی ضرورت تیسری بنیادی ضرورت قرار دیتا ہے
- حوصلہ ٹوٹنے کا معیار بھی ہونا چاہیے اعلیٰ سطحی معیاری امتحانات پست معیاری لوگوں کے حوصلے مزید پست کردیتے ہیں
- ذاتی سطح سے اجتماعی سطح اورسماجی ذہانتوں میں درجہ بہ درجہ تبدیلیاں ہوتی ہیں
- طبقاتی معیارات لوگوں کی شخصیت متعین کرتی ہے
- معاشرے میں رائج انصاف کے معیارات کے مطابق انصاف ملتا ہے
- انسانی جذبات جتنے زیادہ مستحکم ہونگے انسانی دماغ اتنے زیادہ لوازمات زیر غور لاسکتا ہے اور اس پر عمل کراسکتا ہے
- عقلی قوتیں اور جذباتی قوتیں متغیر اور متبدل کیسے ہوتی ہیں؟مستقل مزاجی کن میں ہونی چاہیے اور کن چیزوں میں نہیں ہونی چاہیے
- انسان اپنے معروضات پر کھڑا ہوتا ہے اکثر موضوع پسندی کام نہیں آتی
- پہلے کسی بھی شے کو مجموعی انداز میں یا حرفِ عام میں لینی چاہیے اس کے بعد آہستہ آہستہ تخصیص یا Modular کی رسائی حاصل کرنے سے زیادہ تجربات، معلومات اور نتائج کا حصول ممکن ہے
- جبلی تقاضے بھی سماجی ذہانت پر اثرات ڈالتے ہیں،ضمیر کی دِین انسان کیلیے سماجی قوانین کی پابندی تحت الشعور سے وابستگی پیدا کرتی ہے
- گھروں میں چھوٹی چھوٹی پریشانیاں، ناچاقیاں لوگوں کی زندگیاں برباد کردیتی ہیں اس کے برعکس خوشحال گھرانے سماجی ترقی کرنے کا سبب بنتے ہیں ایسے ہی گھروں سے معاشرے اور ملک و قوم بنتے ہیں
- انسان کے آپس میں تعلقات رشتے داری کسی نہ کسی اعتماد، بھروسے اور یقین پر قائم ہوتا ہے،جزا و سزا سے سماجی رویوں کی تدوین ہوتی ہے،احساسات سے انسانیت پروان چڑھتی ہے، سماجی ذہانت کے پیمانے وقت کے ساتھ تبدیل اوروسعت پیدا کرتے ہیں جیسے وقت پر شادی نہ کی گئی ہو یا دوسرے رواج انسان کیلیے ایک مخصوص زندگی کی ترتیب کیلیے ہوتے ہیں ان کے ساتھ کے دوسرے لوگ سماجی لحاظ سے آگے نکل جاتے ہیں وہ اسی جگہ کھڑا ہوتا ہے
- نفسیاتی اثر بھی لوگوں پر پڑتا ہے، ماحولیاتی اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں، دوستوں سے انسانی کی پہچان کی جاتی ہے اسی طرح گرہوں کے ساتھ تعلقات سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ انسان کسی کی طرف متوجہ ہواوراس کو ذرا سا بھی شبہ ہوتو وہ فوراً اپنی تمام حسیّا ت کے ساتھ اس طرف متوجہ ہوجاتا ہے۔ جس سے احساسات بنتے ہیں
زمانہ روحانیت سے مادیت کی طرف سفر طے کررہا ہے جس میں کئی کئی روحانیت کی تردید اور اصلاح ممکن ہورہی ہے زرعیدور سے صنعتی اور آئی ٹی کی طرف سفر جارہی ہے، آئی ٹی نے سماجی ویب سائٹس سے لوگوں کی ازسرنو سماجی نوعیت بحال کی ہے۔ آلات و اوزار میں وسعتیں آرہی ہیں انسان اپنے تجربات سے ساتھ مستفید ہونے کے ساتھ اپنے پُرکھوں کے تجربات سے فائدہ اٹھاتا ہے جیسے سماجی ارتقاء اور فطرتی عوامل۔بہترین چیزیں معاشرتی ترقی کی طرف راغب کرتی ہےمجموعی انسانیت کا ایک چیز کے بارے میں کیا کہنا ہے۔قدیم صداقتوں اور رواج کو مدِ نظر رکھنا چاہیے۔ معاشرے میں کچھ سماجی وائرس ہوتے ہیں۔ جن کا کام معاشرے کی ترقی میں رکاوٹ بننا ہوتا ہے لیکن دور جاکر کسی جگہ فائدے کا انتظام بھی کرجاتے ہیں
انسان کو اپنی ذات کا محاسبہ اور تفکر کرنا چاہیے خود کو جاننے کے ساتھ سنوارنا بھی ضروری ہےاپنے لحاظ سے سوچنا، دوسروں کے لحاظ سے سوچنا اور مجموعی معاشرے کے لحاظ سے سوچنا اور فیصلہ کرنا۔اپنے بارے میں جاننا، دوسروں کے بارے میں جاننا، سماجی اشارے جاننا، دوسروں کی سماجی حیثیت اور گروہوں میں اثرورسوخ، تابعداری کی درجہ بندی اور انکی نظر میں آپکی تابعداری، آپ کیلیے کشش کیا ہے ۔ہر انسان میں مختلف صلاحیتیں ہوتی ہیں ان کی پہچان رکھنا اور ان کے ساتھ ملکر کیسے کام کرنا اور ان سے زیادہ سے زیادہ بہتر نتائج کیسے حاصل کرسکتا ہوں کوئی شخص کسی کو عزت دیتا ہے تو اس کی مانگ دوسرے سے عزت کی ہوتی ہے۔
جارحیت Aggression کی ضرورت کس جگہ ہوتی ہے پچھلے قدموں میں کتنا واپس آنا ہے اور پھر کب قدم آگے کی طرف اُٹھانا ہے۔ Hard Stop vs Slow Play، Direct vs Indirect، Inductive vs Deductive ہونا ہوتا ہے منطق، عقل، لیڈر کی خوبیاں اور خصوصیات ہونی چاہیے جس سے سماجی باہمیت تشکیل پاتی ہے
جس کام کو ہم نے بڑی مشکل سے سرانجام دیا ہوا ہو اس کو کوئی دوسرا سرانجام دے رہا ہوتو اپنے اوپر بوجھ نہ محسوس کرکے اطمینان محسوس ہوتا ہے،جس گندی گلی سے آپ گزرتے ہیں اگر آپ اسکو ٹھیک کرنے کی ذاتی کوشش یا اجتماعی شعور اجاگر کرنے کے بعد پھر اسی کا حصہ بھی بن جاتے ہیں، برائی کی خلاف جنگ کرتے کرتے کئی دفعہ خود اسکا حصہ بھی بن جاتے ہیں
عام طور پر انسانوں کی زندگیوں میں کچھ معیارات مقرر ہوتے ہیں ان نمونوں، معیارات اور قوانین کا مقصد انسانوں کیلیے آسانیاں پیدا کرنا ہوتا ہے کچھ گرہوں اس مقصد کیلیے متحرک بھی ہوتے ہیں ورنہ انسان دوسرے انسان کا جینا حرام کردے کیونکہ کچھ زیادتیاں ان کی وجہ سے بھی کمی کا شکار ہوتی ہیں اور کچھ اس وجہ سے ہمارے ساتھ بھی ممکن ہے اور معاشرے کو باہمی سنبھالنااور اشتراک دینے کا مقصد بھی ہے لوگ ایک دوسرے کی مدد کرکے معاشرے کی تعمیر کرنے سے خوشی محسوس کرتے ہیں جس کیلیے مجموعی طور پر مذہبی نظریات جن کا اطلاق زرعی دور کیلیے تھا صنعتی دور میں جدلیاتی مادئیت اور صنعتی اشتراکیت کا نظریہ پیش کیا گیا
ایک شے کو کسی حد تک ہم شعوری محرک سے سرانجام دیتے ہیں رفتہ رفتہ اُس کو اسطرح کرنے لگتے ہیں کہ پہلے نتائج کا خیال نہیں رہتاپھر احساس تک ختم ہوجاتا ہے یعنی پہلے عقلی تقاضوں سے قابل فہم بنائی جاتی ہے پھر عام فہم Common Sense میں شامل ہوتی ہے اس کے بعد باز رہنے کی ترغیب کی جاتی ہے آخر میں قدغن لگادی جاتی ہیں
ایک ہی کام بار بار کرنے سے وہ عام فہمی میں شامل ہوجاتا ہے جیسے پیشہ وارانہ صلاحیتوں کے مالک افراد۔ جسمانی کام کرنے والوں لوگوں کےحرکی عضلات سے چربی کی کمی ہوجاتی ہے جس سے پسینہ اور تھکاوٹ محسوس نہیں ہوتا۔ جیسے ایسے اشخاص نیا کام کرتے ہیں وہ تھوڑا مختلف ہی ہواسے پسینے آنا اور دماغ بھاری ہونے لگتا ہے جس کی طوالت کرنا مشکل ہوجاتا ہے ایسے ہی سوچنے سے افراد پر متغیر حالت آجاتی اور وہ رواج کی طرف جاتا ہے جس سے سماجی ذہانت میں کمی ہوتی ہے
انسان ایک وقت میں ایک منطقی سوچ کے زیر اثر تمام حسیات کو استعمال کرسکتا ہے جبکہ ایک ہی وقت میں منقسم سوچ سے علیحدہ حسیات پرعمل نہیں کرسکتا۔ جس سے مختلف سوچوں پر مختلف حسیات قابلِ استعمال نہیں ہوسکتے
فطرت کیا ہے ڈارون اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہے لیکن فطری عوامل انسان پر کئی طریقوں سے اثر انداز ہوتے ہیں جیسے فطرت کے قدرو جبر کے معاملات قابل بناتے ہیں کہ وہ کیا کیا کرسکتا ہے اور کیا نہیں کرسکتا ہے جس کا اطلاق ہر دور کیلیے مختلف ہوتا ہے
سماجی ذہانت کیلیے ہمیشہ انسان کو ایک متعین سوچ Frame Workمیں رہنا پڑتا ہے کیونکہ انسان افادیت پسند ہوتا ہے۔ کوئی بھی شے ذاتی طور پر اچھی یا بُری نہیں ہوتی۔ عقل دونوں پر بات کرتی ہے جبکہ سماج اس کا اہل نہیں بھی ہوتا
انسان کو پتہ کہ دوسرا شخص فضول بات یا وقت کا ضیاع کر رہا ہے لیکن پھر بھی دوسرا شخص اس سے متاثر ہوتا ہے اورجواب بھی دیتا ہے
ایک شخص معاشرے میں تخریبی کام کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس سے میں آسانی سے حاصل کرسکتا ہوں لیکن وہ معاشرے کا توازن خراب کرتا ہے اگر توازن کی خرابی سے اسے نقصان نہ بھی ہوا تواسکی اگلی نسلیں اس سے ضرور متاثر ہونگی کیونکہ انسانوں کی ترقی کا راز اسکےورثہ میں ہوتا ہے چاہے وہ ورثہ مالی شکل میں ہو یا علمی شکل میں وہ نسلوں کیلیے نفع و نقصان کا ذامن ہوتا ہے جس پر معاشرہ گامزن ہوتا ہے
گاڑی چلاتے ہوئے جو احتیاطیں برتی جاتی ہیں ویسی ہی احتیاطیں سماجی توازن کے قیام کیلیے سر انجام دی جاتی ہیں ورنہ کمپیوٹر گیمز یا نقلی مشینوں اور ماڈلنگ سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنا قدرے مشکل ہوتا ہے
تیسری دنیا میں سماجی ذہانت:
تیسری دنیا کے ممالک کے معاشرے میں رائج انصاف کے معیارات مال و دولت اور رکھ رکھاؤ پر منحصر ہوتے ہیں
کاروبار کی نسبت لوگوں کو بے وقوف بنا کر دولت اکٹھی کی جاتی ہے
خوش فہمی میں مبتلا رہتے ہیں۔ میں ہی حق پر ہوں باقی تو بکریاں چرانے آئے ہوئے ہیں خود کو خوش قسمت سمجھتے ہیں جبکہ باقی بدقسمتی لے کے پیدا ہوئے ہیں
ان کی زندگی تماش بینوں جیسی ہوتی ہے، کچھ تماشہ گر ہوتے ہیں جو دولت سمیٹتے جاتے ہیں
معاشرے میں جبرواستبداد قائم رہتاہے سماجی طور پر جمود کا شکار ہیں
معاشرتی مسائل کو اسکی بنیادی مسئلے سے حل کرنے کی ہرگز کوشش نہیں کرئیں گے بلکہ رعب دبدبہ اور گھما پھیرا کربات سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں مسئلہ کے حصول مقاصد کے بعد مسئلہ ایسے حل ہوجاتا ہے کہ پہلے کبھی تھا ہی نہیں اور کبھی ختم ہی نہیں ہوتے۔ پھر ساری زندگی ساتھ چلتے ہیں
یہاں ہر بندہ انتظامی صلاحیتوں Administrationکا مالک ہوتا ہے اور دوسرے کو سمجھا ہورہا ہوتا ہے کہ ایسے نہیں ایسے کرنا چاہیے تھا
تیسری دنیا کے لوگ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ متولی یا تحویلی برتاؤ رکھتے ہیں اور پسند کرتے ہیں
زیادہ مال و دولت رکھنے والوں کیلیے دنیا وسیع ہوتی ہے کم مال و دولت رکھنے والوں کیلیے دنیا تنگ ہوجاتی ہے
ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچتے ہیں۔ اور اپنی اہمیت کا اندازہ کرانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں
کسی عوامی منصب کی جوابدہی عوام کی نسبت کسی اور کیلیے، اس وقت تک کیلیے ملتوی کردیتے ہیں ایسے منصب کیلیے لوگ خود مرکزی ہوتے ہیں جبکہ اس منصب کا حصولِ مقصد عوام مرکزی ہونا چاہیے
طاقت اور توجہیات کی جنگ جاری رہتی ہے۔جیت اور خوش قسمتی لوگوں کی پہنچ سے دور ہوتی ہیں اسی جدوجہد میں ہی مر جاتے ہیں جیت کی لگن اور ہار کا ڈر کھائے جاتا ہے
یہ کالم اس لِنک پر بھی موجود ہے۔
“