سماجی اضطراب سے منسلک بہت سوالات پوچھے جاتے ہیں، لیکن اس سوال کا جواب دینے کے لیے میں کسی کامیاب سحر انگیز ایلفا مرد کی مثال ہر گز نہیں دوں گی جسے کبھی سماجی اضطراب کا سامنا تھا لیکن اب وہ اعتماد کی اس ڈگر پر ہے کہ کھڑے کھڑے بندہ بیچ دیتا ہے…..بلکہ ہم سماجی اضطراب کو کم کرنا باقی کے جانوروں کے سوشل ہونے کے طریقے سے سیکھیں گے۔ باقی جاندار بھی سوشل ہوتے ہیں اور ان کے اور ہمارے اذہان میں زیادہ فرق نہیں، بقول ڈاکٹر لیزا کے۔
سماجی اضطراب میں لوگ ضرورت سے زیادہ سوچتے (overthinking) ہیں کہ ان کے متعلق لوگ کیا سوچ رہے ہونگے، انہیں سب پسند کرتے ہیں یا نہیں، بات کرتے وقت کیا کہنا چاہیے کیا نہیں وغیرہ…… اضطراب کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ آپ کی نفسیاتی تکلیف تک محدود نہیں رہتا، اور یہ نہ ہی صرف علمی مسئلہ (cognitive problem) ہے بلکہ اسکا تعلق آپ کے تصورات (perceptions) اور فزیالوجی (physiology) (یعنی کہ آپ کے جسم سے) سے بھی ہے۔ تبھی اسکو صرف کسی سائیکوتھراپسٹ کے پاس بیٹھ کر باتیں کرنے (talk therapy) یا یوٹیوب پر وڈیوز یا کتابیں پڑھ کر کم نہیں کرسکتے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر اسکوٹھیک کیسے کرنا ہے؟؟
ہمارا دماغ دراصل پیشن گوئی کرنے والی مشین (prediction machine) ہے۔ اور پیشن گوئی کرنے والی یہ مشین ماضی میں ملے ڈیٹا اور انفارمیشن پر چلتی ہے۔ بہت ممکن ہے کہ آپ کو ماضی میں کچھ ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑا جس نے آپ کے دماغ کو اضطراب میں رہنے والا دماغ (anxious brain) بنا دیا اور اب جب بھی اسے سوشل ہونا ہوتا ہے تب وہ ماضی میں ہوئے تجربات کی بنیاد پر اضطراب میں چلا جاتا ہے اور یوں آپ میں سوشل اسکلز کی کمی اور لوگوں کے ساتھ ملنا جلنا دشوار لگتا ہے۔ آپ کو لگتا ہے کہ آپ میں اعتماد نہیں۔
جیسا کہ میں نے پہلے ہی کہا کہ ہم سوشل ہونا باقی کے جانداروں سے سیکھیں گے تو اگر آپ جانوروں (animal kingdom) پر غور کریں تو آپ کو علم ہوگا کہ وہ اپنی سماجی زندگی سے جڑے معاملات کو بنا کتابیں، یوٹیوب اور گوگل کیے حل کرتے ہیں کیونکہ وہ اپنے دماغ میں موجود ان تمام سرکٹز (circuit) کا استعمال کرتے ہیں جس میں سونگھنے کی حس، باڈی لینگوج، آواز کی ٹون اور مختلف ڈیٹا کو اکھٹا کرنا شامل ہے جس سے انہیں دوسرے جانداروں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ وہ لوگ جو سوشل انزائٹی میں ہوتے ہیں وہ اپنے دماغ کے ان تمام سرکٹز کا استعمال نہیں کرتے جو انہیں سامنے والے کے متعلق ڈیٹا دے سکیں، یہ اپنے دماغ میں رہتے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ آس پاس موجود لوگوں کے متعلق انفارمیشن اور ڈیٹا کو اکھٹا کرنے کے لیے اپنے دماغ میں موجود سرکٹز کو استعمال ہی نہیں کرتے۔
ہمارے اندر اعتماد تب آتا ہے جب ہم کہیں جائیں اور لوگ ہماری طرف مسکرا کر اپنی باڈی لینگویج سے ہمیں یہ سگنل دیں کہ ہمارا آنا انہیں پسند آیا اور وہ غیر-زبانی طور پر ہمیں اسکی تصدیق دیتے ہیں۔ اس تصدیق سے ہمارے دماغ میں موجود “ہمدردی والا سرکٹ” (empathetic circuits) متحرک ہوتا ہے اور ہم آس پاس والوں کے ساتھ گھل مل جاتے ہیں۔ لیکن سوشل انزائٹی سے جھونجھ رہے افراد یا تو اپنی ساری توجہ موبائل میں لگا کر انفارمیشن اور ڈیٹا کو بلاک کردیتے ہیں یا پھر اپنے دماغ میں سوچتے رہتے ہیں، اور آس پاس موجود ڈیٹا کو اکھٹا نہیں کرپاتے جو ہمیں تصدیق دیتا ہے کہ سب صحیح ہے اضطراب میں جانے کی ضرورت نہیں۔ ہمدردی والا سرکٹ جو تصدیق چاہتا ہے وہ اسے نہیں ملتی کیونکہ ہم دوسروں کی پرسکون باڈی، انکا مسکرانا، یا اگر کوئی ہماری جانب دیکھ کر ہمارے ساتھ نظریں ملا کر (eye contact) بات کرنا چاہتا ہے تو ہم یہ سارا ڈیٹا موبائل اور اپنے دماغ میں پھنس کر مس کردیتے ہیں۔
یہاں موبائل کا کردار بہت منفی ہے۔ ہمارے بچے باہر جاتے ہیں تو والدین موبائل پکڑا دیتے ہیں اور یوں بچے اپنے دماغ کے وہ سرکٹز (circuits) استعمال کرنا نہیں سیکھتے جو انہیں اپنے ارد گرد کے ماحول، کلچر اور لوگوں کو سمجھنے اور ان کے ساتھ بات چیت کرنے اور سماجی معاملات کو جذب کرنے کے لیے بنے ہیں۔ بچے وہ ڈیٹا نہیں اکھٹا کرپاتے جو انہیں بالغ ہوکر اچھے سماجی رشتے بنانے میں مدد دے سکتا ہے۔ پھر ایسے بچے یوٹیوب اور کتابوں کا سہارا لیتے ہیں لیکن یہ سرکٹ یوٹیوب یا آرٹیکلز پڑھنے سے محرک (activate) نہیں ہوتے۔
تو پھر یہ محرک کیسے ہوتے ہیں؟؟
*سب سے پہلے اپنی فزیالوجی پر کنٹرول لائیں۔ سیدھے کھڑے ہونا اور آہستہ سانس لینا (slow breathing) آپ کے ایڈرینالین(adrenaline) کو کنٹرول کرتا ہے کیونکہ اضطراب میں اڈرینالین زیادہ خارج ہوتا ہے جس سے آپ مزید گھبراہٹ (panic) میں چلے جاتے ہیں (لمبی اور گہری سانس خارج کرنا اڈرینالین کو کم کرتا ہے)۔ اپنے کندھوں کو پیچھے کی جانب کرکے زور دے کر واپس نارمل پوزیشن میں آجانا ہے۔ فزیالوجی پر کنڑول ضروری ہے ورنہ پینک اٹیک (panic attack) ہوجاتا ہے اکثر۔ ڈھلکا ہوا جسم آپ کے متعلق دوسرے انسانوں کو مثبت سگنل نہیں دیتا۔
*آئی-کانٹیکٹ (eye contact)…. یہ والا بہت مشکل ہے، لیکن یہی سب سے زیادہ ضروری ہے۔ سماجی اضطراب والوں کو اصل مسئلہ ہی دوسرے انسان سے نظریں ملانے میں ہے….جب کہ یہی آپ کے مرض کی دوا ہے۔ جب تک آئی-کانٹیکٹ نہیں ہوگا آپ کے دماغ کا حصہ جسے “وژول ایسوسی-ایشن کارٹیکس” (Visual Association Cortex) کہتے ہیں اسے اس بات کی تصدیق نہیں ملے گی کہ سب نارمل ہے اور اضطراب میں جانے کی ضرورت نہیں۔جب برین کے مختلف حصوں کو وہ انفارمیشن نہیں ملتی جو انہیں چاہیے تو پھر آپ کے دماغ کا تھیوری بنانے والا حصہ ضرورت سے زیادہ متحرک ہوجاتا ہے اور غلط اور بیکار اندازے لگاتا رہتا ہے ماضی کے تجربات کی بنیاد پر۔ برین کے ہر حصے کو اپنے طریقے کی انفارمیشن چاہیے۔ ہمدردی والا سرکٹ ہمدردی پر کتابیں پڑھنے سے متحرک نہیں ہوتا بلکہ حقیقی دنیا میں لوگوں کو دیکھ کر ان کے ساتھ گھلنے ملنے سے ہوتا ہے۔ ہزاروں کتابیں پڑھ لیں سوشل انزائٹی ختم نہیں ہوگی، کتابوں کی اپنی ایک جگہ ہے اور اسکا اپنا ایک عمل (function) ہے۔ بلکل ویسے جیسے یہ آرٹیکل آپ کو سمجھنے میں مدد دے سکتا ہے کہ سماجی اضطراب کیا ہے اور یہ مسئلہ کیسے حل ہوگا لیکن اس سے زیادہ یہ آرٹیکل آپ کی مدد نہیں کرسکتا۔ اس کے بعد برین کے مختلف حصوں کو ڈیٹا مختلف طریقے اور ذریعے سے درکار ہے۔
دوسروں کی آنکھوں میں زیادہ دیر ڈوبنے کی ہرگز ضرورت نہیں، پریکٹس کریں اور تھوڑی تھوڑی دیر کے لیے آئی-کانٹیکٹ کرتے رہیں۔ بہت آہستہ آپ کا برین ڈیٹا اکھٹا کرنا شروع کرے گا اور پھر ایک دن آپ بھی ایلفا چیڈ (Alpha Chad) بن جائیں گے۔ 😉
*مسکراہٹ (smile)….. یہ جادو ہے انسانوں کے پاس۔ چونکہ انسان ایک خطرناک اور پاگل کردینے والی حد تک “سماجی مخلوق” (social creature) ہے تو ایسی مخلوق کو اللہ نے اچھے سوشل تعلقات بنانے کے لیے “مسکراہٹ” جیسا ہتھیار دیا ہے۔ جب ہم آئی-کانٹیکٹ کرتے ہیں اور ہلکی سی مسکراہٹ دیتے ہیں تو ہمارے “وژول ایسوسی-ایشن کارٹیکس” کو یہ تصدیق اور یقین دہانی ملتی ہے کہ سب صحیح ہے۔
یہ پریکٹس آپ کو کرنی ہوگی، اور کئی غلطیاں کرنے اور بیوقوفیاں کرنے کے بعد آپ اپنی انزائٹی پر آہستہ آہستہ قابو پاتے جائیں گے، اور انسانوں کے سماجی تعلقات کے متعلق مزید دلچسپ معلومات اکھٹے کرتے جائیں گے (حقیقی زندگی میں معلومات، یوٹیوب پر نہیں!!!!)۔ جتنا زیادہ ڈیٹا اور انفارمیشن ملے گی دماغ کو اتنا ہی ماضی کے تجربات نئے تجربات سے تبدیل ہوتے رہیں گے۔
جانور بنا گوگل، کتابوں اور یوٹیوب کے اپنے تعلقات کو دوسرے جانوروں سے سماجی طور پر برقرار رکھے ہوئے ہیں کیونکہ وہ اپنے دماغ کے ان تمام سرکٹز کا استعمال کرتے ہیں جو فطرت نے اسی کام کے لیے بنائے ہیں۔ ہم انسان موبائل اور اپنے دماغوں میں رہ کر ان سرکٹ کو استعمال کرنے سے قاصر ہیں۔ اور افسوس اس بات کا ہے کہ آنے والی نسلیں جو اپنے آس پاس سے کٹ کر ایک مصنوعی دنیا میں جی رہی ہیں ان کے لیے اچھے، معنی خیز تعلقات بنانا مزید دشوار ہوگا۔ یاد رکھیے کہ انسان کی زندگی میں اچھے اور معنی خیز تعلقات نہ ہونا اس کے عصبی نظام (nervous system) پر منفی اثرات ڈالتا ہے۔ ہم سب نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی خوشی کے لیے ایک دوسرے پر، ثقافت اور سماج پر منحصر ہیں، انسان انفرادی اور اکیلے رہنے والی مخلوق نہیں ہے، وہ اگر چاہے تب بھی نہیں!!!
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...