Think and Grow Rich
Book by Napoleon Hill
تھنک اینڈ گرو رچ یعنی سوچیں اور امیر ہوجائے 1937ء میں لکھی جانے والی یہ ایک ایسی کتاب ہے جس میں کامیابی کے اصول بتائے گئے ہیں ،آج تک جتنی بھی کتابیں سیلف ہیلپ کے موضوع پر لکھی گئی ہیں اس کتاب جتنی کامیابی کسی کتاب کے حصے میں نہیں آئی اس کی اب تک کروڑوں کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں اور اب تک یہ کتاب بیسٹ سیلر ہیں اس کا ترجمہ دنیا کی تقریبا زبانوں میں ہوچکا ہے
Think and Grow Rich is a book written by Napoleon Hill in 1937 and promoted as a personal development and self-improvement book. He claimed to be inspired by a suggestion from business magnate and later-philanthropist Andrew Carnegie.
اینڈریو گارڈنیگی کا شمار امریکہ کی تاریخ میں سب سے کامیاب بزنس مین میں ہوتا ہے، اس نے مزدور کے طورپر کام شروع کیا اور ترقی کرتے کرتے کچھ ہی سالوں میں وہ اتناامیر ہو گیا کہ امریکہ میں اس وقت شاید ہی کوئی اتنا امیرتھا۔ جب وہ کامیاب زندگی گزارنے لگا توایک دن اس کے دل میں کیاآیاکہ کامیابی کے اوپر باقاعدہ تحقیق ہونی چاہیے۔ اس نے اس کام کے لیے ایک لڑکے کومنتخب کیا جس کا نام نپولین ہل Napoleon Hill تھا ۔
نپولین ہل نے پچیس سال میں بیس ہزار کامیاب اور ناکام لوگوں پر تحقیق کی ۔ اس نے خود اپنی محنت سے کروڑپتی بننے والے 500 سے زائد انتہائی کامیاب لوگوں کے انٹرویو لیے جن میں اینڈریو گارڈنیگی ، ایڈیسن، گراہم بیل، برڈ سٹون، لوتھر بربینک، ایلمر گیٹس، جارج شیفرڈ پارکر، تھیوڈر روزویلٹ، ڈینیل رایٹ، چارلیس شواب، فرینک وانڈرلپ، فرینک ولورتھ، ولیم رگلے، البرٹ گیری، ہاروے فائر اسٹون، ہنری فورڈ جیسے معروف نام شامل ہیں ۔
1937ء میں پچیس برسوں کی یہ محنت دنیا کے سامنے ایک کتاب کی شکل میں منظر عام پر آئی جس کانام تھا تھنک اینڈ گروریچ
Think and Grow Rich،
یعنی ‘‘سوچو اور دولت مند بن جاؤ’’
Think and Grow Rich by Napoleon Hill examines the psychological power of thought and the brain in the process of furthering your career for both monetary and personal satisfaction. Originally published in 1937, this is one of the all-time self-help classics and a must read for investors and entrepreneurial types.
اس بیسٹ سیلز کتاب کے بارے میں “روحانی ڈائجسٹ” کے ایک آرٹیکل کے مطابق “اپنی اس کتاب میں نپولین ہل نے بتایا کہ کامیابی اور ناکامی کیا ہوتی ہے ، یہ کن لوگوں کو ملتی ہے ، کامیاب زندگی کیسے ممکن ہے ، اس کوکیسے قائم رکھا جاسکتا ہے….؟ اس نے امیر بننے کے ‘‘راز’’ کے ساتھ ساتھ زندگی میں ناکامی کا باعث بننے والی بڑی وجوہات کا بھی ذکر کیا۔ یہ مضمون نپولین ہل کی اسی کتاب سے سے مدد لکھا گیا ہے
دنیا میں ہر شخص کامیاب زندگی چاہتا ہے مگر محض چند افرد ہی اسے حاصل کرنے میں کامیاب ہوپاتے ہیں اور باقی لوگ صرف ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔
بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں اپنی ناکامی سے کوئی فرق ہی نہیں پڑتا جبکہ کچھ لوگ ناکامی کو اپنی قسمت سمجھ کر ہمت ہارکے بیٹھ جاتے ہیں۔ بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو ناکام ہو نے پر احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگ خود سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ کچھ لوگ دوسروں کو اپنی ناکامی کا قصوروار ٹھہرابیٹھتے ہیں۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ کون سے اصول اور قوانین ہیں جن کو کچھ کامیاب لوگ اپنالیتے ہیں اور پھر اتنے کامیاب ہوجاتے ہیں کہ دنیا حیران ہوجاتی ہے اور وہ کون سے اسباب ہوتے ہیں جو کامیابی کی راہ میں سفر کرنے والوں اور ترقی کی اونچائیوں کو چھونے والوں کو بھی ناکامی کے گڑھوں میں دھکیل دیتے ہیں۔ دراصل کامیابی یا ناکامی انسان کے اندر کے حال کا نام ہے ….یہی نظریہ فرد کی کامیابی اور ناکامی کی علامت ہے۔ کامیاب لوگ ہمیشہ مثبت خیالات کے حامل ہوتے ہیں ، انہیں خود پر یقین ہوتا ہے کہ ان کی محنت ایک دن رنگ لائے گی ، اور وہ کامیابی کی چوٹی پرہو ں گے۔ ناکام لوگ مشکلات میں منفی خیالات رکھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ مسائل ہمارے مقدر میں ہیں، اور وہ کچھ بھی کر لیں، انہیں حل نہیں کر سکتے۔ ایسا سوچ کر وہ آگے بڑھنا چھوڑ دیتے ہیں۔ جبکہ ناکام ہونے کے بعد دکھ سہنے سے اندرونی طاقت میں اضافہ ہوتا ہے، ناکامی سے حاصل شدہ تجربہ اور معلومات کو کامیاب ہونے کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
کامیابی یا ناکامی فرد کی مثبت یا منفی سوچ اور مسائل سے نمٹنے کیلئے ہمت ہارنے میں ہوتی ہے۔ اکثر اوقات انسان کو بُرے حالات کا سامنا ہوتا ہے مگر ایسے واقعات بھی کم نہیں جن میں انسان خود اپنے بدترین دشمن ثابت ہوتے ہیں، اور کامیابی کی راہ میں خود ہی رکاوٹ بن کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ درحقیقت خود انسان کی اپنی چند عادات اور رویے ایسے ہوتے ہیں جو انسان کی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔
ذیل میں ناکام افراد کی ایسی ہی چند بری عادتوں اور رویوں کا ذکر کیا گیا ہے جن کے ہوتے ہوئے کامیابی کا حصول بہت مشکل ہوسکتا ہے۔
1) خواب نہ دیکھنا
ایک مشہور قول ہے کہ ‘‘خواب وہ نہیں ہوتے جو آپ سوتے میں دیکھتے ہیں ، خواب تو وہ ہوتے ہیں جو آپ کو سونے نہیں دیتے۔’’
کامیابی کے موضوع پر مشہور و معروف کتاب ‘‘تھنک اینڈ گرو رِچ’’ کے مصنف نپولین ہل کے مطابق دنیا میں ہر چیز دوبار بنتی ہے۔
ایک بار کسی کے ذہن میں دوسری بار دنیا میں۔
اگر آپ کے ذہن میں آپ کی کامیابی کی تصویر نہیں ہے تو حقیقت میں بھی کامیاب نہیں ہوں گے۔
انسان دنیا کی واحد مخلوق ہے جو تصور (Imagine)کرسکتا ہے۔ آپ کے اچھے تصورات ہی آپ کی زندگی کے معیار کا تعین کرتے ہیں، اس لیے پہلے کامیاب ہونے کا ایک خواب بنائیے، پھر اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کا سوچئے۔ یاد رکھیں اگر آپ کے پاس خواب نہیں ہے تو آپ غریب ہیں۔ دنیا کا امیر ترین انسان بل گیٹس یہ کہتا ہے کہ ‘‘اگر آپ پیدا غریب ہوئے ہیں تو یہ آپ کی غلطی نہیں لیکن اگر غریب مرتے ہیں تو یہ آپ کی غلطی ہے۔’’
دنیا میں ہر چیز دوبارہ بنتی ہے، ایک بار کسی کے ذہن میں دوسری بار دنیا میں۔ اگر آپ کے ذہن میں آپ کی کامیابی کی تصویر نہیں ہے تو حقیقت میں بھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ [نپولین ہل]
2) کوئی واضح مقصد نہ ہونا ….
نپولین ہل کہتے ہیں کہ خواب جس کی تکمیل کے لیے ہم وقت کا تعین کر لیتے ہیں گول (Goal)کہلاتاہے۔
دنیا میں ناکام افراد کی ناکامی کا ایک بڑا سبب یہ ہوتا ہےکہ ان کے سامنے ان کی منزل واضح نہیں ہوتی۔ وہ اگر کامیابی کے بارے میں سوچتے بھی ہیں تو خود کو ایک دھندلے سے خواب تک ہی محدود رکھتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے ذہن میں یہ تو ہوتا ہے کہ جانا ہے۔ پر کہاں ، کب اور کیسے جانا ہے یہ واضح نہیں ہوتا۔ کہیں جانا ہے سوچ کر وہ بِنا منزل کا تعین کیے نکل پڑتے ہیں۔ جس کی کوئی منزل نہیں ہوتی وہ آوارہ گرد کہلاتا ہے اور آوارہ گرد کبھی کامیابی کی گرد کو بھی نہیں چھو سکتا۔
دنیا میں اس بابت بے شمار تحقیقات ہو چکی ہیں کہ وہ لوگ جنہوں نے اپنے گولز یا اہداف طے کیے اور پھر ان کے حصول کے لیے منصوبہ بندی کی اور مستقل مزاج رہے انہوں نے اپنے گولز کو پا لیا۔ باالفاظ دیگر جو اپنی منزل کو جان گیا اور پھر اس منزل کی جانب چل پڑا ، راستے میں آنے والی پریشانیوں اور تکالیف سے نہ گبھرایا اس نے بالآخر اپنی منزل کو جا لیا۔
ایسے شخص کی کامیابی کی توقع نہیں کی جاسکتی جس کے پاس کوئی مقصد یا واضح ہدف نہ ہو۔
مثال کے طور پر اگر امیر ہونا چاہتے ہیں تو بچت کے اہداف کا تعین کریں اور پھر اپنے مالی منصوبے کو تشکیل دیں ۔ہم ایسے کسی شخص کے بارے میں کیا امید کرسکتے ہیں جو زندگی میں آگے بڑھنا ہی نہ چاہتا ہو اور مشکلات کی قیمت چکانے کے لیے تیار نہ ہو۔ کامیابی آسانی سے نہیں ملتی ۔ کامیابی کے حصول کے لیے تحمل اور تسلسل سے کام کرنا ہوتا ہے۔
3) نظم و ضبط کی کمی
2008 میں امریکہ میں ایک سروے ہوا، جس میں کاروباری سربراہان سے پوچھا گیا کہ کامیابی کیلئے سب سے اہم چیز کیا ہے؟ تقریبا 65 فیصد کا جواب تھا: ‘‘نظم و ضبط اور توازن’’…. نپولین ہل نے بھی 500 امیر ترین افراد سے جب یہ سوال کیاکہ ‘‘آپ کے امیر ہونے کا رازکیا ہے؟۔ تو سب کا کم و بیش ایک ہی جواب تھا: خود انضباطی یا سیلف ڈسپلن۔
ڈسپلن یا نظم و ضبط خود پر کنٹرول سے حاصل ہوتا ہے اور اس کا مطلب ہے کہ ان لوگوں کو اپنی منفی چیزوں پر زیادہ کنٹرول کرنا ہوتا ہے، اگر انسان اپنی ذات کو ہی فتح نہیں کرسکتا تووہ دنیا میں کیا کرے گا۔ زندگی میں کامیابی کے لیے آسان بنیادی فارمولا ہے کہ بچت زیادہ خرچہ کم، مگر کم خرچہ کرنے کے لیے ڈسپلن کی ضرورت ہوتی ہے۔
The price of discipline is always less than the pain of regret. ً~ Nido Qubein
‘‘ڈسپلن ایک تکلیف دہ عمل ہے- لیکن اس کی تکلیف یقینا ناکامی اور پچھتاوے کی تکلیف سے کم ہوتی ہے’’- [نیڈو کیوبین]
4)منصوبہ بندی نہ کرنا
طویل المدتی مقاصد کے حصول کی کوشش سے پہلے حکمت عملی کو ترتیب دینا چاہئے۔ اگر آپ بغیر سوچے سمجھے کوئی کام کررہے ہو اور درمیان میں اچانک کوئی مسئلہ ہو تو یہ انتہائی دل شکن تجربہ اور وقت کا ضیاع ثابت ہوتا ہے۔
نپولین ہل کی ریسرچ بتاتی ہے کہ لوگ فیل نہیں ہوتے بلکہ ان کی پلاننگ فیل ہوجاتی ہے کیونکہ کامیاب ہونے والے لوگ اچھے پلانر ہوتے ہیں۔ نوجوانوں کو پلاننگ کرنی نہیں سکھائی جاتی، اگر وہ اپنی پڑھائی اور چھوٹی چھوٹی ذمہ داریوں کو پلان نہیں کر پاتے تو زندگی کو کیا پلان کریں گے۔
پلاننگ کا مطلب یہ ہے کہ آپ یہ لکھ کر رکھ لیں کہ اگلے سال آپ نے کہاں ہونا ہے اور اگلے دس سال میں آپ نے کیا کچھ حاصل کرلینا ہے۔ پلاننگ کی عادت آپ کو وقت کو منظم کرنا سکھاتی ہے اور وقت کا دوسرا نام زندگی ہے۔ سو جس نے زندگی بغیر پلاننگ کے گزاری۔ اس نے زندگی ضائع کردی۔
5) اپنے آپ کو کمتر سمجھنا
اگر تو آپ سمجھتے ہیں کہ کسی کام کو کرنا آپ کے لیے ممکن نہیں تو درحقیقت آپ خود کو کمتر سمجھ رہ ہوتے ہیں جس کے باعث آپ اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال نہیں کرپاتے۔
کامیاب ہونے والے افراد کو خود پر یقین ہوتا ہے اور یہ یقین ان کی کامیابی کو بھی یقینی بنا دیتا ہے۔ بائبل میں لکھا ہے کہ
‘‘یقین، پہاڑ اپنی جگہ سے ہلا دیتا ہے۔’’
اگر آپ کو خود پر یقین نہیں اور نہ ہی اپنی ذات پر اعتماد ہے تو کوئی شخص آپ پر اعتماد اور یقین نہیں کرے گا۔ پڑھائی، کھیل، سائنس، سیاست، آرٹ اور میوزک سب شعبوں میں وہ لوگ کامیاب ہوتے ہیں جن کو خود پر اور اپنے کام پر مکمل یقین ہوتا ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام اور والدین کی تربیت بچوں اور نوجوانوں میں اعتماد پیدا نہیں کرتی اور وہ زندگی کے ہر شعبے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ دنیا کے تمام بڑے کام اور تمام بڑی ایجادات یقین والوں کی وجہ سے ممکن ہوئیں۔
آپ کی زندگی کے دو دن بہت اہم ہوتے ہیں، ایک وہ دن جس دن آپ دنیا میں آئے تھے اور دوسرا وہ دن جس دن آپ کو یہ یقین ہوجاتا ہے کہ میں کسی بڑے کام کیلئے دنیا میں آیا ہوں۔
انگوار کیمپارڈIngvar Kamprad بچپن میں ماچس بیچا کرتے تھے اور آج وہ سب سے بڑی سویڈش فرنیچر کمپنی IKEAکے مالک ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تعلیم یافتہ لوگ ویژن، علم اور دماغ میں مجھ سے کہیں بہتر ہیں۔ بس ان میں ایک خامی تھی، ان میں نوکری چھوڑنے کا حوصلہ نہیں تھا۔ انہیں اپنے اور اپنی صلاحیتوں پر اعتماد نہیں تھا۔اگر کوئی شخص میرے لئے کام کر سکتا ہے تو وہ خود اپنے لئے بھی کام کر سکتا ہے، بس اس کیلئے ذرا سا حوصلہ چاہئے۔
انگوار کہتے ہیں کہ ‘‘ترقی چیونٹی کے پاؤں لے کر پیدا ہوتی ہے لیکن جوان ہونے تک اس کے پاؤں ہاتھی جتنے بڑے ہو جاتے ہیں۔ دنیا میں ہر چیز کا متبادل موجود ہے لیکن محنت کا کوئی شارٹ کٹ نہیں۔
دنیا کا کوئی کیمیائی عمل لوہے کو سونا نہیں بنا سکتا لیکن انسانی ہاتھ وہ طاقت ہیں جو دنیا کی کسی بھی دھات کو سونے میں بدل سکتے ہیں۔’’
6) من کی بات نظر انداز کرنا
نپولین ہل کے مطابق وہ بات چیت جو ہم دوسروں سے کرتے ہیں اس سے زیادہ اہم وہ بات چیت ہے جو ہم خود سے کرتے ہیں۔ اسے خود کلامی کہہ لیں۔ انگلش میں اس کو آٹو سجیشن Auto-Suggestion کہتے ہیں۔ دراصل ہم جب خود سے بات چیت کررہے ہوتے ہیں تو ہم خود کو نئے چیلنج اور حالات کے لیے تیار کررہے ہوتے ہیں۔ زندگی میں ہونے والا کوئی واقعہ اور کوئی حادثہ اتنا اہم نہیں جتنی اہم یہ بات ہے کہ ہم نے اس واقعے اور حادثے کو معنی اور نام کیا دیا ہے۔ دنیا کا ہر بڑا انسان پہلے خود اپنے آپ کو مانتا ہے اور بعد میں دنیا کے سامنے اپنا آپ منواتا ہے۔ آپ کی خود کلامی آپ کے اندر سوئے ہوئے ‘‘جن’’ کو جگا دیتی ہے۔ یہ بات بھی سوئے ہوئے کا جاگنا اہم نہیں جتنا کسی جاگے ہوئے کا بیدار ہونا اہم ہے۔ ہمیں خود کے لیے ہمیشہ اچھے جملے اور اچھے مثبت فقرے استعمال کرنے چاہئیں۔ ہمیشہ خود سے بات چیت کرتے ہوئے کہیں کہ آپ ایک بڑے مشن کیلئے پیدا ہوئے ہیں۔ دنیا کی یہ عادت ہے کہ وہ اْس شخص کیلئے جگہ بناتی ہے جس کے قول و فعل سے یہ معلوم ہو سکے کہ اس شخص کو اپنی منزل کی سمت کا پتہ ہے۔ [نپولین ہل]
7) اجتماعیت یا تنہائی
خود کو الگ تھلگ کرلینا اپنی شخصیت کو تباہی کے راستے پر ڈالنا ہے، یہ کسی بھی طرح صحت مند رویہ نہیں۔
نپولین ہل کا ماننا ہے کہ کوئی شخص اکیلا کوئی بڑی بزنس ایمپائر نہیں بناسکتا، اس لیے اس نے ریسرچ سے یہ ثابت کیا کہ دنیا کے امیر لوگ اپنے ساتھ لوگوں کا ایک گروپ اٹیچ کرتے ہیں اور یہ تو آپ جانتے ہیں کہ ایک اور ایک مل کر گیارہ بن جاتے ہیں۔ ہمارا دماغ اکیلا کسی بڑے مشن پر کام نہیں کرسکتا، ہمیں کچھ مزید دماغ اپنے ساتھ ملانے ہوتے ہیں۔ اس عمل کو نپولین ہل نے Master Mind کا نام دیا ہے۔ نپولین ہل کے مطابق امیر اور کامیاب ہونے والے لوگوں میں سوشل جینز پائی جاتی ہیں۔ یہ لوگوں کو ایک مقصد کے لیے ساتھ ملالیتے ہیں اور یہ گروپ مل کر ایک بڑا کام کر کے دکھا دیتا ہے۔
8) جوش سے محرومی:
جوش و جذبے کے بغیر کسی کو قائل نہیں کیا جاسکتا، جوش درحقیقت چھوت کی طرح ہوتا ہے اور جس میں یہ جوش ہو اسے ہر طرح کے گروپ میں کھلی بانہوں کے ساتھ خوش آمدید کہا جاتا ہے۔
نپولین ہل کے مطابق کامیاب ہونے کیلئے صرف خواہش اور تمنا کافی نہیں ہے بلکہ ہمیں ایک جنون اور جذبے کی ضرورت ہے۔ یہ جنون ہمیں دوسروں سے ممتاز کردیتا ہے۔ ہماری کامیاب ہونے کی تڑپ ہمیں چین نہیں لینے دیتی اور ہم ایک منزل کے بعد ایک نئی منزل کی جستجو میں لگ جاتے ہیں اور آخر کار کامیاب ہوجاتے ہیں۔
ہل کے مطابق لوگ سست نہیں ہوتے بلکہ ان کامقصد اور ٹارگٹ اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ ان کی زندگی میں جوش اور ولولہ ختم ہوجاتا ہے۔ جنون آپ کی زندگی اور آپ کے کام میں کلر (رنگ) لے کر آتا ہے۔ اس جنون کے بغیر آپ کی کامیابی کا سارا حسن ختم ہوجاتا ہے۔ المیہ یہ ہے نوجوانوں کے پاس تعلیم اور ڈگری تو ہوتی ہے لیکن ان کے پاس کسی بڑے کام کو کرنے کی شدید خواہش نہیں ہوتی اور اگر کسی کے پاس یہ جنون ہو تو اس کی رہنمائی کوئی نہیں کرتا اور وہ بھی ناکام ہوجاتا ہے۔
دراصل ہم کامیابی اور ترقی کا خواب دیکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دوسرے انسان اس خواب کو سچائی میں تبدیل کردیں، یا کم از کم اس خوبصورت خواب کو حقیقت مان کر تسلیم کرلیں۔ کامیاب ہونے کیلئے صرف خواہش اور تمنا کافی نہیں ہے بلکہ ہمیں ایک جنون اور جذبے کی ضرورت ہے۔ یہ جنون ہمیں دوسروں سے ممتاز کردیتا ہے۔ کامیابی کی منزل کا راستہ کانٹوں سے لبریز ہے اس کو جرات، بہادری،حوصلہ مندی اور خوبصورت حکمت عملی سے آپ نے خود ہی پھولوں سے مزین کر ناہوتا ہے۔ وقت ہر انسان کو موقع فراہم کرتا ہے، نئی راہ دکھاتا ہے۔ اگر ہم ان اشار وں کو سمجھ لیں تو حالات مثبت رُخ اختیار کر سکتے ہیں۔ آج یہ فیصلہ کر لیں کہ کیا کرنا اور کیا بننا ہے۔ اگر آپ تیار ہیں تو راستے کی رکاوٹوں اور وقتی نا کا میوں سے دل برداشتہ ہونے کی بجائے مستقل مزاجی سے اپنے منصوبے پر کام کا آغاز کیجئے۔ انشاءاللہ کا میا بی آپ کے قدم چومے گی۔
9) مستقل مزاجی کی کمی
کامیابی پر کی جانے والی ریسرچ ‘‘تھنک اینڈ گروریچ’’ کا یہ باب ہمیں ایک بہت ہم راز بتاتا ہے۔
وہ راز یہ ہے کہ ‘‘دنیا کے انتہائی کامیاب اور امیر لوگوں کے پاس عام لوگوں کی نسبت بہت زیادہ مستقل مزاجی اور استقامت ہوتی ہے۔’’ آپ کی استقامت آپ کے راستے میں آنے والی مشکلات اور مصائب کو چھوٹا کردیتی ہے۔ کامیاب ہونے والے لوگ ہار نہیں مانتے کیونکہ انہیں پتہ ہوتا ہے کہ جیتنے والے کبھی میدان سے بھاگتے نہیں ہیں اور میدان چھوڑ دینے والے کبھی نہیں جیتتے۔ کامیابی کا سفر دل توڑ دینے والا سفر ہے اور اس سفر کی سب سے بڑی قیمت جو ہمیں ادا کرنی ہے وہ مستقل مزاجی ہے۔ خوش قسمتی سے مستقل مزاجی سیکھی بھی جاسکتی ہے اور پیدا بھی کی جاسکتی ہے اور اس کو پیدا کرنے کیلئے بھی ہمیں مستقل مزاجی کی ضرورت ہوتی ہے۔
کامیابی عزم اور تسلسل کا مرکب ہے۔ اگر آپ ہمیشہ اپنے منصوبوں کو کسی دوسری بہترین چیز کے لیے چھوڑ دیتے ہیں تو آخر میں آپ کے ہاتھ میں مایوسی کے سوا کچھ نہیں آئے گا۔ بیشتر افراد آغاز تو اچھا کرتے ہیں مگر اختتام کرنے میں ناکام رہتے ہیں، لوگ شکست کے ابتدائی آثار دیکھ کر ہمت ہار دینے کے عادی ہوتے ہیں۔خود کو کبھی اس وقت تک نہ روکیں جب تک آپ کا مقصد پورا نہ ہوجائے، بیشتر کامیاب افراد میں اپنی ناکامیوں کا سامنا کرنے اور ان پر قابو پانے کی صلاحیت ہوتی ہے۔
10) منفی سوچ
ایسے شخص کی کامیابی کی کوئی امید نہیں ہوتی جو منفی شخصیت کا حامل ہو، کامیابی کا حصول دیگر افراد کے ساتھ مل کر کی جانے والی کوششوں کے باعث ہوتا ہے اور منفی شخصیت کسی کا تعاون قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ منفی خیال چھوت کی طرح پھیلتا ہے، ایک تحقیق کے مطابق اگر آپ کے ارگرد منفی سوچ رکھنے والے افراد ہوں تو آپ کا اپنا رویہ بھی اس کی عکاسی کرنے لگتا ہے۔
سالہا سال تک انسانی صلاحیتوں کا مطالعہ کرنے والے ڈاکٹر نپولین ہل کا کہنا ہے کہ
If you think you can or you cannot you are right.
’’اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ فلاں کام کرسکتے ہیں یا نہیں کرسکتے تو آپ صحیح ہیں’’۔
مطلب یہ ہے کہ انسان اگر یہ سمجھ لے کہ میں فلاں کام کرسکتا ہوں تو وہ اسے کرسکے گا اور اگر وہ ذہنی طور پر یہ سمجھ لے کہ میں تو یہ کام نہیں کرسکتا تو وہ واقعی اسے نہیں کرسکے گا۔ دونوں صورتوں میں نتیجہ اس کی سوچ پر ہی منحصر ہے۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انگریزی کے مشہور ادیب برنارڈ شاہ نے کہا تھا: ‘‘زندگی کا سارا ڈرامہ ذہنی ڈرامہ ہے۔ ہر مشکل ذہنی مشکل ہے’’۔
لہذا منفی، پست اور مایوس کن سوچوں کے حصار سے باہر نکلیں۔ اپنے آپ کو پہچانیں اور یقین کامل کے ساتھ آگے بڑھیں۔ کائنات کی عظمتیں آپ کے سامنے سرنگوں ہونے کو بے تاب ہیں اور مسائل حل ہونے کے لئے تیار ہیں۔
انسانی دماغ جو کچھ سوچ سکتا ہے جس پر یقین رکھتا ہے وہ حاصل کر سکتا ہے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ فلاں کام کرسکتے ہیں یا نہیں کرسکتے تو آپ صحیح ہیں۔ [نپولین ہل]
11) کمزور قوت فیصلہ
کامیابی کی منازل طے کرنے والے سینکڑوں افراد کا تجزیہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان سب میں ایک عادت مشترک ہوتی ہے اور وہ ہے کہ یہ لوگ فیصلہ کرنے سے ہچکچاتے نہیں۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ غلط فیصلہ کرنا کوئی فیصلہ نہ کرنے سے بہرحال بہتر ہوتاہے۔
نپولین ہل کی 20 سال کی ریسرچ یہ بتاتی ہے کہ کامیاب لوگ اچھے فیصلے کرنے کے ماہر ہوتے ہیں، وہ یہ جانتے ہیں کہ انسان کا ہر فیصلہ درست نہیں ہوسکتا مگر غلط فیصلے سے بھی ایک درست سبق سیکھا جاسکتا ہے۔ فیصلہ کرنے کا فن بھی فیصلے کرنے سے آتا ہے۔ نوجوانوں کی اکثریت اس فن سے واقف نہیں ہوتی اور جب زندگی میں بڑے فیصلے کرنے کا وقت آتا ہے تو وہ ناکام ہوجاتے ہیں۔ دراصل ہمارا فیصلہ ہماری شخصیت اور ذات کے اظہار کا ذریعہ ہوتا ہے، جتنا مضبوط اور منظم ہماری ذات اور پرسنیلٹی ہوتی ہے اتنا طاقت ور اوراثر انگیز ہمارا فیصلہ ہوتا ہے۔
والدین کو چاہیے کے اپنے بچوں کو چھوٹے چھوٹے فیصلے کرنے کی عادت ڈالیں، نہیں تو وہ ساری زندگی ان کے محتاج بن جائیں گے اور محتاجی پیسے کی ہو یا فیصلہ کرنے کی صلاحیت کی، دونوں ہی عذاب ہیں۔
12) ناکامی کا خوف
بعض لوگ کوئی بھی کام شروع کرنے سے پہلے ، مشکلات کے بارے میں پریشان ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ وہ کچھ بھی نہیں کر پاتے۔جو لوگ کسی بھی حالت میں ہار نہیں مانتے کامیابی ان کے قدم چومتی ہے۔‘‘نپولین ہل’’ وہ شخص تھا جس نے لوگوں کو یقین دلایا تھا کہ کامیاب ہونے کے لیے ناکام ہونا ضروری ہے۔ جو لوگ ناکامیوں سے سیکھتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں ان کی بنیاد بہت مضبوط ہوتی ہے۔ کامیاب لوگ محنت سے ڈرتے نہیں، وہ وقت ضائع نہیں کرتے،وہ اکتاہٹ اور یکسانیت کا بھی شکار نہیں ہوتے۔
انسانی زندگی تغیرات سے عبارت ہے۔ دنیا میں کسی چیز کو ثبات اور قرار نہیں ہے۔ یہی فطرت کا بھی اصول ہے۔ نا امیدی کے بعد امید کا چراغ روشن ہوتا ہے ، تاریکیوں کے بعد اُجالوں کی حکمرانی ہوتی ہے۔
جو لوگ خطرات مول نہیں لیتے ان کی زندگی کا انحصار دیگر افراد کی رائے پر ہوتا ہے۔ بہت زیادہ محتاط رہنا لاپروائی کی طرح نقصان دہ ہے۔ زندگی درحقیقت امکانات سے بھرپور ہوتی ہے جن کا سامنا کرنا ہی کامیابی کی ضمانت بن سکتا ہے۔
نپولین ہل کے مطابق ہمیں دنیا فتح کرنے سے پہلے خود کو فتح کرنا ہوتا ہے اور خود کو فتح کرنے کے لیے ہمیں اپنے اندر موجود خوف سے نبٹنا ہوتا ہے۔ اگر ہم اپنے اندر پائے جانے والے خوف کو ختم نہ کریں تو یہ خوف ہمیں ختم کردیتا ہے اور ہم کوئی بڑا کام نہیں کرپاتے۔ ہمیں غریب ہونے کے خوف، دوسروں کی تنقید کے خوف، بیماری اور موت کے خوف، بڑھاپے کے خوف اور بڑے نقصان کے خوف سے جان چھڑانا ہوتی ہے۔نپولین ہل نے کہا تھا کہ ہر ناکامی کے ساتھ ایک کامیابی ہوتی ہے اگر آپ کسی ناکامی سے عارضی طور پر دو چار ہوتے بھی ہیں تو پھر اس ناکامی سے سبق حاصل کیجیے۔
13) علم کا مناسب استعمال
کامیاب ہونے والے لوگوں کے پاس اپنے شعبے کا مکمل علم اور مہارت موجود ہوتی ہے۔ نپولین ہل کے مطابق ہمارے لیے ہر شعبے کے علم اور ہر مہارت کا سیکھنا ضروری نہیں ہوتا بلکہ جس شعبے میں ہم نے کامیاب ہونا ہے اور جس شعبے میں ہم نے پیسہ کمانا ہے اس کا علم ہونا ضروری ہے۔
اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے ہر نوجوان کو چاہیے کہ وہ کسی ایک شعبے کا ایکسپرٹ (Expert) یعنی ماہر بنے، اس طرح وہ اپنی صلاحیت اور وقت دونوں کوبہتر استعمال کرسکے گا۔ کالج کی ڈگری اس وقت تک کارآمد یا کامیابی کے لیے فائدہ مند نہیں جب تک آپ اس کا اطلاق اپنی زندگی کو منظم کرنے کے لیے نہیں کرتے۔ تعلیم کا حصول صرف علم کے لیے نہیں بلکہ اس کی افادیت اور تسلسل سے اطلاق کے لیے بھی کیا جاتا ہے۔
14) اپنا خیال نہ رکھنا
اگر آپ کی کامیابی کی قیمت آپ کی صحت ثابت ہو تو وہ کسی اہمیت کی حامل نہیں، کوئی بھی شخص اچھی صحت کے بغیر کامیابی سے لطف اندوز نہیں ہوسکتا۔ اگر آپ متوازن کھانے اور ورزش سے دوری اختیار کرتے ہیں تو ان عادات کو ترک کرنا ہی زیادہ بہتر ہے کیونکہ ان پر خود آپ کا ہی اختیار ہوتا ہے۔ کامیاب افراد اپنی شخصیت کا خیال رکھنا نہیں بھولتے، ناکام افراد محنت تو بہت زیادہ کرتے ہیں مگر صحت پر توجہ نہ دینے پر بھاری قیمت بھی چکاتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق پورا دن بیٹھنے کی بجائے کچھ دیر بعد اُٹھ کر چہل قدمی کرنا زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ میٹنگز بھی دفاتر میں کرنے کی بجائے کھلی ہوا میں چلتے پھرتے کرنا کامیابی کی ضمانت بنتا ہے۔ تازہ ہوا میں گھومنے سے دماغ بھی تازہ دم ہوجاتا ہے۔ رات میں اپنے فون کو بیڈ کے سرہانے نہ رکھیں، ہمارے اسمارٹ فونز، ٹیب لیٹس اور لیپ ٹاپس کی اسکرینز نیلی روشنی خارج کرتی ہیں جو مختلف طبی تحقیقی رپورٹس کے مطابق بینائی کو نقصان پہنچانے کیساتھ ایک ہارمون میلاٹونین کی پیداوار کو متاثر کرتی ہے، یہ ہارمون نیند کے سائیکل میں مدد فراہم کرتا ہے۔ اس ہارمون کی کمی میں مبتلا افراد میں ڈپریشن جیسے مرض کا خطرہ بھی زیادہ ہوتا ہے اور وہ عملی زندگی میں اکثر ناکام ثابت ہوتے ہیں۔
15) ناپسندیدہ ملازمت
کوئی بھی شخص اس وقت کامیاب نہیں ہوسکتا جب وہ اسی کام کو کرتا رہے جسے وہ پسند نہ کرتا ہو، کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ ایسے شعبے کا انتخاب کیا جائے جس میں آپ پورے دل سے کام کرسکیں۔
16) تنگ نظری
تنگ نظری یا محدود ذہنیت کا حامل شخص کسی بھی شعبے میں آگے نہیں بڑھ سکتا، درحقیقت آپ کو دوسروں کے خیالات کو کھلے ذہن سے سننا ہوتا ہے، نئے خیالات کا تصور اور جدت لانا ہوتی ہے۔ کامیاب افراد کی سوچ عام لوگوں سےمختلف ہوتی ہے۔
17) دانستہ بددیانتی
بددیانتی مختصر مدت کے لیے کچھ کامیابیاں تو دلاسکتی ہے مگر یہ کامیابی کا مستحکم ذریعہ نہیں۔ جو لوگ دانستہ طور پر بددیانتی کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ جلد یا بدیر کسی مشکل میں ضرور پھنستے ہیں ۔ ایسے لوگ ساکھ سے محرومی کے ساتھ زندگی میں ناکامی کا بھی شکار ہوجاتے ہیں۔
18)ہمیشہ جواز تلاش کرنا:
اگر تو آپ سے غلطی ہوئی ہے تو اس کی وضاحت اور وجہ کو جاننا چاہئے، تاہم اگر آپ نے اپنی ناکامی کے جواز پیش کرنا شروع کردیئے تو یہ عادت آگے بڑھ کر مسلسل ناکامیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق اپنی غلطیوں کو جواز میں چھپانا دیگر افراد کی نظر میں آپ کی دیانتداری کو مشکوک بناتی ہے، ذاتی مقاصد تباہ ہونے لگتے ہیں اور آپ خود پسند ہوجاتے ہیں۔
کامیاب ہونے کیلئے صرف خواہش اور تمنا کافی نہیں ہے بلکہ ہمیں ایک جنون اور جذبے کی ضرورت ہے۔ یہ جنون ہمیں دوسروں سے ممتاز کردیتا ہے۔ ہماری کامیاب ہونے کی تڑپ ہمیں چین نہیں لینے دیتی اور ہم ایک منزل کے بعد ایک نئی منزل کی جستجو میں لگ جاتے ہیں اور آخر کار کامیاب ہوجاتے ہیں۔ (نپولین ہل)
19) تنقید برداشت نہ کرنا:
کوئی بھی شخص تنقید پسند نہیں کرتا، تاہم اس کو تعمیراتی انداز میں لینا سیکھنے کے مواقع پیدا کرتا ہے، اس طرح زندگی میں کامیابی کا دروازہ کھل سکتا ہے۔
20) اپنی انفرادیت کھودینا
ناکام افراد ہجوم کا حصہ بن جاتے ہیں جبکہ کامیاب افراد ہزاروں افراد میں بھی نمایاں ہوتے ہیں۔
21) دوسروں کے سہارے پر اکتفا
یہ جاننا اہمیت رکھتا ہے کہ کوئی بھی آپ کو ہاتھ سے پکڑ کر زندگی کی مشکلات سے نہیں گزارے گا، اگر آپ اپنے مقاصد کو حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو زیادہ باہمت ہوکر کام کرنا ہوگا۔
22)دیگر افراد کو نیچے گرانا
مسابقت میں کوئی برائی نہیں، بیشتر افراد ہجوم سے ابھر کر سامنا آنا چاہتے ہیں، تاہم اس بات کو یقینی بنایا جانا چاہئے کہ آپ کی توجہ اپنی ذات کی بہتری پر مرکوز ہو اور دیگر افراد کو نیچے گرانے میں نہ لگے رہیں۔
23)بات چیت میں ناکام
لوگوں میں گھل مل جانا اور اچھی طرح بات چیت مشق سے ہی ممکن ہے اور یہ کامیابی کے لیےضروری ہے۔
24) ٹال مٹول اور ٹائم پاس کرنا
ٹال مٹول کی عادت وقت کی دشمن ہوتی ہے، اگر آپ خیالی پلاؤپکانے کے عادی ہیں تو آپ کو اس سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
اچھا کام نہ کرنے کا ڈر ٹال مٹول کا باعث بنتے ہیں۔ کئی لوگ اسی وقت کام کا آغاز کرتے ہیں جب وہ خوفزدہ ہوجاتے ہیں اور انہیں پیچھے رہ جانے کا ڈر ہوتا ہے۔
اس عادت سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ پرفیکشن ازم کی کوشش کو ترک کردیں اور تفصیلات میں جانے کی بجائے کام میں آگے بڑھنے کو ترجیح دیں۔ اس طرح کام جلد پورا کرنا ممکن ہوجاتا ہے۔
نیپولین ہل نے کہا تھا کہ ‘‘ہر پریشانی اپنے ساتھ اپنے مساوی یا مزید شاندار مواقع ساتھ لاتی ہے’’۔
25) اہم ترین کام التوا میں ڈالنا
لوگ اکثر اپنے دن کا آغاز آسان کاموں کو مکمل کرکے کرتے ہیں اور مشکل کام کو بعد کیلئے چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ کوئی اچھی عادت نہیں اور ایسا اکثر کرنے سے اہم کام مکمل بھی نہیں ہوپاتے۔ ایک تحقیق کے مطابق لوگوں کی قوت ارادی دن میں وقت گزرنے کیساتھ کم ہوتی چلی جاتی ہے۔
26) ترجیحات نہ طے کرنا
کچھ لوگوں کا سوچنا ہوتا ہے کہ متعدد مقاصد طے کرنا کامیابی کے حصول کا بہترین راستہ ہے، اگر ایک ارادہ ناکام ہو تو دیگر کا تو انتخاب کیا جاسکتا ہے۔ مگر یہ سوچ انتہائی ناقص ہے۔ ماہرین کے مطابق زندگی کے مقاصد کے حصول میں ناکامی کی وجہ ترجیحات طے نہ کرنا ہوتا ہے۔ ان کے بقول کم مقاصد کو طے کریں جو آپ کے خیال میں بہت ضروری یا نظرانداز کیے جانے کے قابل ہیں اور بس۔
27) اعتماد کی کمی
آنکھوں میں آنکھیں نہ ڈالنا، نروس جسمانی حرکات اور مضطرب ہاتھ پیر چلانا خراب باڈی لینگویج کی چند علامات ہیں جو اعتماد کی کمی کو ظاہر کرتی ہیں اور ناکام افراد میں یہ عام نظر آتی ہیں۔
28) ملٹی ٹاسکنگ کی عادت
اگرچہ بیشتر افراد کا ماننا ہوتا ہے کہ وہ بیک وقت دو کام بہترین انداز سے کرسکتے ہیں مگر سائنسی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ صرف دو فیصد افراد ہی موثر طریقے سے ملٹی ٹاسکنگ کے اہل ہوتے ہیں۔ باقی سب کیلئے یہ ایک بری عادت ہے جو توجہ کی صلاحیت کو کم کرتی ہے اور طویل المعیاد بنیادوں کیلئے ہمارے کاموں کو متاثر کرتی ہے۔
29) حد سے زیادہ منصوبے
بیشتر پرجوش اور منظم افراد اپنے دن کے ہر گھنٹے کی منصوبہ بندی کرتے رہتے ہیں۔ مگر یہ بات ٹھیک ہے کہ دنیا میں سارا کچھ منصوبہ بندی سے ممکن نہیں، بیماری یا غیر متوقع اسائنمنٹ پورے دن کے شیڈول کو کچرے کا ڈھیر بنادیتا ہے۔ اس کے برعکس ہر روز کے چار سے پانچ گھنٹوں کی منصوبہ بندی کی کوشش کریں اور اس میں لچک کا عنصر بھی رکھیں۔
30)غیر ضروری کام
آج کے عہد میں بیشتر افراد کو دفاتر میں انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے، کام کے دوران اکثر بے مقصد ویب سرفنگ کرنا ، دن بھر ای میلز کو دیکھنا اور ہر وقت سوشل میڈیا اکاؤنٹس کا استعمال، ان سب کے نتیجے میں دن بھر میں کام کے ضروری اوقات ضائع ہوجاتے ہیں ۔ ایسا کرنا کاموں کو متاثر کرتا ہے اور اگر یہ ضروری ہے تو اس کی اوقات اور حد مقرر کریں اور اپنے کام کے دوران اس سے گریز کریں۔
کام کی روانی کو جو چیز سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے وہ غیرضروری ملاقاتیں یا میٹنگز ہوتی ہیں۔ جب ای میل، میسنجر اور ویڈیو چیٹ جیسے ٹولز پہنچ میں ہو تو لوگوں سے ملاقاتیں یا میٹنگز سنجیدہ معاملات پر بات چیت کیلئے کی جانی چاہیے۔
جب نپولین ہل نے کامیابی کے موضوع لکھنا شرع کیا تو اینڈیو کارنیگی نے کامیابی کے 10 اصول بتائے جسے نپولین ہل نے کتاب “The Science of Success” میں پیش کیا، ان اصولوں کا خلاصہ ہم آپ کے لیے یہاں پیش کررہے ہیں۔
1۔ اپنا مقصد متعین کریں: ایک عملی منصوبہ بنائیں اور فوری طور پر اس سمت میں کام کرنا شروع کریں۔
2۔ ایک “ماہرانہ اتحاد” تشکیل دیں: ہل کہتے ہیں کہ ایسے افراد کے ساتھ رابطہ رکھیں اور کام کریں “جن کے پاس وہ سب کچھ ہے، جو آپ کے پاس نہیں ہے۔”
3۔ ستاروں سے آگے: ہل لکھتے ہیں کہ “جو آپ کو کرنا چاہیے ہمیشہ اس سے زیادہ کریں، یہی آپ کو آگے لے جانے اور ترقی دینے کا اہل ثابت کرے گا، اور لوگوں کو آپ کا احسان مند بنائے گا۔”
4۔ “عملی یقین” کی مشق: خود اور اپنے مقصد پر اتنا زیادہ یقین رکھیں کہ آپ مکمل اعتماد کے ساتھ کام کرسکیں۔
5۔ ذاتی مقصد: بغیر بتائے وہ کریں جو آپ کو کرنا چاہیے۔
6۔ اپنے تخیل کو مہمیز دیں: جو کام آپ پہلے کرچکے ہیں اس سے آگے سوچنے کی ہمت کریں۔
7۔ جوش و جذبے کی سعی: ایک مثبت رویہ آپ کو کامیابی کے لیے تیار کرتا ہے اور دوسروں کی نظروں میں آپ کو عزت بھی دیتا ہے۔
8۔ درست سوچیں: ہل کے الفاظ میں، درست سوچ “حقائق کو تصورات سے الگ کرنے کی صلاحیت اور انہیں اپنے کام اور مسائل کو ٹھیک کرنے کے لیے استعمال کرنا” ہے۔
9۔ اپنی کوشش کو مرتکز کریں، جو سب سے اہم کام درپیش ہو، اس سے بدحواس نہ ہوں۔
10۔ مصیبت سے منافع ، ہل لکھتے ہیں، یاد رکھیں “ہر ناکامی کے لیے ایک یکساں فائدہ ہے۔”