سوچنے کی بات
امیر یا پیسے والے لوگوں کے شاہانہ خرچ پر بہت تنقید کی جاتی ہے کہ ایک طرف لوگ بھوکے مر رہے اور دوسری طرف یہ لوگ عیش کر رہے ۔ اس پر فیس بک میں بہت سی تصویریں بھی پوسٹ کی جاتی ہیں اور بہت سے لوگ ان پر کمنٹ بھی کرتے ہیں ۔ زیادہ تر لوگوں کے کنمٹ کے مطابق انہیں پیسہ اس بے دردی سے خرچ کرنے کے بجائے ان کو لوگوں کی مدد کرنا چاہیے ۔
اگر حقیقت پسندی سے دیکھا جائے تو نہ یہ خرچ کرنا اتنی غلط بات نہیں ہے جیسا کہ تاثر دیا جاتا ہے بلکہ یہ ملک اور لوگوں کے لیے بہت سود مند ہے ۔ ان پیسوں والوں کے اس شاہانہ خرچ سے بہت سے لوگوں کو روزگار ملتا ہے اور ملکی معشت بھی ترقی کرتی ہے ۔ اگر یہ پیسے والے وہ اپنا پیسہ دبا کر بہٹھ جائیں یا اپنے خرچ کو محدود کریں تو بہت سے لوگوں کے چولھے ٹھنڈے ہوجائیں گے ۔ یہ خرچ ہونے والا عموماً وہ پیسہ ہوتا ہے جس پر ٹیکس نہیں دیا جاتا ہے ۔ ان کے اس طرح خرچ کرنے سے کچھ پیسہ ملکی خزانہ میں ٹیکس کی صورت میں بھی جمع ہو جاتا ہے ۔ ہاں اس پیسے کو بیرون ملک خرچ کرنے کی صورت میں ملکی معیشت کو سخت نقصان ہوتا ہے ۔
ٍ فرض کریں کہ وہ اپنا پیسے ضرورت مندوں میں خیرات کرنا شروع کریں تو ایسی صورت وہ بھکاریوں کی تعداد میں اضافہ کریں گے ۔ ہمارے معاشرے میں ایسا طبقہ پہلے ہی موجود ہے اور کام کرنے کے بجائے مانگنا پسند کرتا ہے ۔ ضرورت مندوں کی مدد ضرور کریں مگر ایک حد ۔ کیوں ان کو بغیر محنت ان کی ضرورتیں پوری ہونے لگیں گیں تو وہ کام دھندہ چھوڑ دیں گے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔