سوچیے ! اگر زمین کے رنگز ( rings ) ہوتے…
کسی زمانے میں زمین کے رنگز ہوا کرتے تھے…..اور اگر میں کہوں کہ وہ تمام رنگز اکٹھے ہو کر چاند بن گئے..تو حیرت نہیں ہونی چاہیے
رنگز بننے کا عمل ایسے ہوتا ہے جیسے ہی کوئی جسم مثلا چاند ، شہاب ثاقب وغیرہ روش لمٹ (roche limit) میں داخل ہوتے ہیں…تو داخل ہونے والے جسم کے ایک حصے پر کشش ثقل زیادہ اثر کرتی ہے..اور دوسرے یعنی عقبی حصے پر کم …. لہذا اس کی شکل تبدیل ہو جاتی ہے اور وہ ٹوٹ کر چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہو جاتا ہے…اور سیارے کے گرد ایک پٹی بنا لیتے ہیں…جیسی پٹی سیٹرن ، نیپچون اور جیوپیٹر کے گرد ہے..سیٹرن کے گرد پٹی میں کئی چاندوں اور دیگر کامیٹس کا ملبہ شامل ہے.اگر ایک زمین کی جسامت سے اندازہ لگایا جائے تو یہاں پر اگر اب رنگز بنیں تو ان کی چوڑائی 5000 ہزار کلو میٹر تک ہو سکتی ہے.نیچے تصاویر میں روش لمٹ کو کراس کرتے ہوئے جسم اور پھر اس کے رنگز بننے کے عمل کی تصویریں موجود ہیں..
اگر زمین پر رنگز ہوتے تو ایکوایٹر سے ان رنگز کو دیکھا جائے تو وہ ایک باریک لائن کی صورت میں نظر آئی گی…مثلا مالدیپ ، انڈونیشیا ، صومالیہ سے وہ باریک لائن کی شکل میں نظر آئی گی..لیکن جیسے ہی ہم ساودرن اور ناردرن ہیمی سفیر کی جانب بڑھیں گے…وہ رنگز پھیلتے جائیں گے..نیچے تصاویر میں دکھایا گیا ہے کہ وہ رنگز واشنگٹن ، پیرس اور دیگر شہروں سے کیسے نظر آتے..
اگر یہ رنگز ہوں تو ظاہری بات ہے کہ یہ چاند کی طرح روشنی بھی منعکس کرتے . ان کی روشنی چاند سے پانچ گنا زیادہ ہوگی.اور ہم سیاہ راتوں کیلیے ترس جائیں گے..ان کی روشنی میں ممکن نہیں ہو گا کہ ہم دیگر ستاروں اور سیاروں کو دیکھ سکیں..ان رنگز کا اثر ہماری زمینی حیات میں ارتقا کا باعث بھی بنتا..کیونکہ ان سے ایک سایہ زمین پر پیدا ہوتا.اور اس جگہ کا درجہ حرارت بھی کم ہوتا.مزید ان رنگز کے سبب برفانی علاقوں میں سردی مزید بڑھ جاتی.اس کےعلاوہ سپیس شٹل، راکٹ وغیرہ بھی زمینی مدار سے نکالنے میں مشکل ہوتی.
سیٹرن کے رنگز برف سے بنے ہیں..لیکن سیٹرن سورج سے 1.4 بلین کلومیٹر ہے..لہذا وہاں برف کے رنگز قائم رہ سکتے ہیں.لیکن زمین پر اگر برف کے رنگز ہوتے تو ان کا قائم رہنا مشکل تھا..چھوٹے چھوٹے برف کے ٹکڑے تو فورا پگھل جاتے جبکہ مستقل درجہ حرارات سے بڑے ٹکڑے بھی پگھل جاتے اور uv light انہیں گیس میں تبدیل کر دیتی..چلیے فرض کرتے ہیں کہ وہ برف کی بجائے پتھر کے ہوتے.سیٹرن رنگز چمکدار اور واضح اس وجہ سے ہیں کہ وہ برف کے ہیں..اگر زمین پر برف کے رنگز ہوتے تو نہایت لائٹ ریفلکٹ کرتے..لیکن اگر پتھر کے ہوتے تو بہت کم روشنی منعکس کرتے.اور پودوں کا ارتقا بھی کچھ اس طرح ہوتا کہ وہ کم روشنی میں زندہ رہتے..شمسی روشنی کا بڑا حصہ رستے میں رنگز کی رکاوٹ کی وجہ سے رک جاتا..اور جیسے سیٹرن میں رنگز کے اندر گیپ ہیں..جنہیں غالبا کسینی ڈویژن کہا جاتا ہے..زمینی رنگز پر بھی ایسے گیپ نمودار ہو سکتے تھے..
مزید معلومات کیلیے انٹرنیٹ پر ' if earth had rings ' لکھ کر سرچ کیجیے..
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“