جانوروں کے پاس دماغ کیوں ہے؟ اس کا جواب کار پوپر کے الفاظ میں یہ ہے کہ “زندگی مسائل کا حل تلاش کرنے کا نام ہے”۔ پوپر کے یہ الفاظ بائیولوجی کے نقطہ نظر کے عکاس ہیں، جس میں جانوروں کو بائیولوجیکل مشین کے طور پر دیکھا جاتا ہے جن کا مقصد زندہ رہنے کی اور اپنی نسل آگے بڑھانے کی کوشش ہے۔ اس نظر کے حساب سے جانور ایسی ڈیوائس ہیں جن کو ایک کے بعد دوسرے چیلنج کا مسلسل سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جانوروں کے دماغ کی ڈویلپمنٹ زمانوں پر محیط ہے اور اس نے اس دماغ کو مسائل حل کرنے کی ایک انتہائی طاقتور مشین بنا دیا ہے۔ اپنا قدم آگے بڑھانا ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنے کا مسئلہ حل کرتا ہے۔ لیکن کیا شاعر کی نظم اور مصور کا آرٹ بھی مسئلہ حل کرتے ہیں؟ ہاں، لیکن ایک مختلف نوعیت کا، یہ اپنے اظہار کا اور جذبات کی ترجمانی کا مسئلہ ہے۔ سوچ کے بارے میں اس نکتہ نظر سے کئی نیوروسائنٹسٹ اور ماہرینِ نفسیات متفق ہیں۔
کیا تمام تر زندگی مسائل کو حل کرنے کا نام ہے؟ جانوروں کی زندگی کا بڑا حصہ اسی کام میں گزرتا ہے۔ پہاڑی پر پڑا پتھر اپنی قسمت نہیں بدل سکتا۔ نباتات زندہ تو ہیں لیکن ہل جل نہیں سکتے۔ تبدیلی کا مقابلہ کرنے کی زیادہ اہلیت نہیں رکھتے۔ اپنی جڑیں مٹی میں گاڑ بڑی حد تک کر حالات کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ جانوروں کو ہر وقت نئی صورتحال، خطرات اور مواقع کا سامنا ہے۔ چونکہ ان کے لئے زندگی حرکت کا نام ہے، اس لئے نئے معمے اور مسائل درپیش ہیں۔ اس کے لئے ماحول کا ڈیٹا کسی طریقے سے اکٹھا کرنا اور اسے ایک جگہ پر پراسس کر کے ماحول کو شناخت کرنے کے لئے دماغ یا پھر دماغ جیسے سٹرکچر کی ضرورت ہے تا کہ صورتحال کے مطابق فیصلے لئے جا سکیں۔
ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے اس سوچ کے تین الگ موڈ ہیں۔ پہلا سکرپٹڈ یعنی پہلے سے لکھی روٹین، دوسرا تجزیاتی یعنی مسئلے اور صورتحال کا تجزیہ کرنے کی اہلیت اور تیسرا الاسٹک یعنی لچکدار جس میں اچھوتے خیالات آتے ہیں۔ اس میں سے پہلا آسان اور روٹین کے مسائل کے حل کے لئے ہے۔ پیچیدہ چیلنجز کا سامنا کرنے کے لئے دوسرا اور تیسرا موڈ ہیں۔
اس سے ایک دلچسپ سوال پیدا ہوتا ہے۔ جب ایک جاندار انفارمیشن کو پراسس کر رہا ہے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ سوچ رہا ہے۔ سلائم مولڈ یک خلوی جانداروں کی کالونی ہے۔ اس کو بھول بھلیوں میں رکھیں، یہ ڈھونڈ لے گا کہ کھانے تک کیسے پہچنا ہے۔ اگر دو جگہ پر اس کی خوراک رکھی جائے تو یہ شکل بدل کر ایسے اختیار کر لے گا کہ دونوں جگہوں پر کھانے تک پہنچ جائے گا اور شکل اس طرح کی بنائے گا کہ دونوں جگہ پر کھانے کے لئے پہنچنے کی سب سے بہترین اور ایفی شنٹ شکل ہو گی۔ سلائم مولڈ ایک مسئلہ حل کر رہا ہے۔ کیا اس کو سوچنا کہیں گے؟ اور اگر سوچنا نہیں کہیں گے تو کیوں نہیں کہیں گے؟ آخر لکیر کہاں پر کھینچی جائے؟
ڈکشنری کی تعریف کے مطابق سوچ کا مطلب “اپنے ذہن کو منطقی اور معروضی طریقے سے استعمال کرتے ہوئے کسی صورتحال کا تجزیہ کر کے اس سے نپٹنا جس میں کوئی ممکنہ عمل کرنے، فیصلہ لینے، ایجاد کرنے یا تصور بنانے کا نتیجہ نکلے”۔ نیوروسائنس کی ایک نصابی کتاب سے، “سوچ وہ عمل ہے جس سے کسی بیرونی محرک کو پرکھا جا سکے، شناخت کی جا سکے اور معنی خیز ریسپانس دیا جا سکے۔ اس کی ایک خاصیت آئیڈیاز کی ایک لڑی پیدا کرنا ہے، جن میں سے کئی اچھوتے ہو سکتے ہیں۔
ان کو سادہ زبان میں دیکھا جائے تو یہ تعریفیں یہ کہتی ہیں کہ سوچنے کے عمل میں حالات کو پرکھ کر نئے خیال وجود میں آتے ہیں۔ ان تعریفوں کے مطابق سلائم مولڈ کا یہ ایکشن سوچنے کی تعریف پر پورا نہیں اترتا۔ یہ ان حالات کا تجزیہ نہیں کر رہا بلکہ ماحول کا جواب ایک سکرپٹ کے ذریعے دے رہا ہے۔ اس کے پاس پیدا کرنے کو نیا خیال نہیں ہے۔ اس کا ریسپانس پروگرامڈ ہے۔ ایک مرغابی جب اپنے انڈوں کی حفاظت کر رہی ہے تو بھی ایسا ہی ہے۔
اگرچہ کسی سکرپٹ کو فالو کرنے کو سوچ نہ کہنا محض ہماری اپنی بنائی ہوئی تعریف ہے اور ایک صوابدیدی لکیر ہے لیکن جس اہم نکتے کو ہمیں تسلیم کرنے کی ضرورت ہے، وہ یہ کہ جس کو ہم سوچ کہتے ہیں، وہ بقا کے لئے ضروری نہیں۔ سوچ جانوروں میں عام نہیں، ایک استثنیٰ ہے کیونکہ جانوروں میں بڑی تعداد اس کے بغیر آرام سے گزارا کر لیتی ہے۔ اپنے آٹومیٹک پروگرام کے بل بوتے پر بآسانی زندہ رہ لیتی ہے۔
تو پھر انسانوں کے بارے میں؟ کیا ہمارا روزمرہ کا طرزِ عمل سوچ کا نتیجہ ہے یا سکرپٹڈ؟ اگرچہ یہ سوچ کی مکمل کہانی نہیں لیکن ہماری زندگی کا بڑا حصہ عادات کے سکرپٹ کے تحت گزرتا ہے۔ سوچ ہماری روزمرہ کی روٹین میں اتنی عام نہیں۔ اور یہ سوچ ہمیں محض زندہ رہنے سے کچھ زیادہ کرنے پر مجبور کرتی رہتی ہے۔
یہ اس کتاب سے
Elastic by Leonard Mlodinow