آپ کرسی پر سوچوں میں گم بیٹھے تھے کہ اچانک ایک سانپ گود میں آ کر گرا ہے۔ چیخ مار کر کھڑے ہو کر اسے کپڑوں سے جھٹک رہے تھے کہ پتہ لگا کہ سانپ ربڑ کا ہے۔ نظر گھما کر دیکھا تو شرارتی دوست کچھ فاصلے پر کھڑا دانت نکال رہا ہے۔ لیکن اس کے پیچھے بھاگنے کے بجائے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہوا کیا۔
موجودہ لمحہ (Now) کیا ہے؟ جب ہم غور کریں تو پتہ لگتا ہے کہ یہ اتنا آسان سوال نہیں۔
انسانی سوچ وقت لیتی ہے اور ہماری کھوپڑی کے بیچ جو موجودہ لمحہ ہم محسوس کر رہے ہیں، وہ اصل دنیا سے تھوڑا سا پیچھے ہے۔ اپنی حسیات سے معلومات اکٹھی کر کے ان کو جوڑ کر دنیا کی شعوری طور پر تصویر بنانے میں دماغ کو پانچ سو ملی سیکنڈ (آدھا سیکنڈ) کا وقت لگتا ہے۔ ہمارے ارد گرد کا مستقبل گزر چکا ہے، ہم اس سے بے خبر ہیں۔
اس کو مزید پیچیدہ کرتے ہیں۔ ہماری ہر حس کے کام کرنے کی رفتار مختلف ہے۔ سماعت، بصارت یا دوسری حسیات سے دماغ تک سگنلز پہنچنے کا وقت مختلف ہے۔ اس سب کو ایک مربوط انداز میں جوڑنے کے لئے دماغ کو ان کے درمیان وقفہ ڈالنا پڑتا ہے تا کہ ان کو یکجا کر کے ایک شکل میں شعوری طور پر اکٹھا کر سکے اور دماغ یہ ایڈجسٹمنٹ مسلسل کرتا ہے۔
اس کا ایک دلچسپ و عجیب سائیڈ ایفیکٹ ہے۔ وہ یہ کہ کسی شخص کا کاز اور ایفیکٹ کا ادراک الٹ کیا جا سکتا ہے۔ اس پر ٹیکساس یونیورسٹی میں تجربہ کیا گیا۔ ایک بٹن دبانے کے بعد سو ملی سیکنڈ کے بعد ایک بلب روشنی دیتا تھا۔ اس میں حصہ لینے والوں کو یہ بٹن بار بار دبانے کو کہا گیا۔ ان کے دماغ نے ایڈجسٹ کر لیا اور درمیانی وقفہ نظرانداز کرنا شروع کر دیا۔ پھر یہ درمیانی وقفہ ختم کر کے بٹن دبانے کا کہا گیا تو لوگوں کو یہ لگا کہ روشنی ان کے بٹن دبانے سے پہلے ہی جل اٹھی ہے۔ (تجربے کی تفصیل نیچے لنک میں) خیال ہے کہ شٹزوفرینیا میں بھی اس ادراک کی ایڈجسمنٹ غلط ہونے کا مسئلہ ہو۔
شعوری ذہن کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کا مشن بڑا مشکل ہے۔ اس نے دنیا کو سمجھنا ہے، مستقل کی پیشگوئی کرنا ہے اور فیصلے کرنے ہیں کہ کیا کیا جائے۔ یہ عمل سست ہے اور مشکل بھی، لیکن تیزی سے آتے خطرات کے مقابلے کے لئے اس کا طریقہ بیکار ہے۔ اگر ہر خطرے کو شعوری طور پر سمجھ کر اور پھر سوچ کر اس کا جوابی اقدام لیں گی تو زندگی کا رشتہ زیادہ دیر برقرار نہیں رہے گا۔
لیکن دماغ کے پاس اس مسئلے کا حل ہے۔ اس میں سرعت سے فیصلے کرنے کے لئے ایمرجنسی کے کئی سرکٹ تہوں کی صورت میں ہیں۔ ہر تہہ اگلی تہہ سے تیز ہے اور سادہ سرکٹ رکھتی ہے۔
ان میں سے سب سے تیز ترین اونچی آواز پر چونکنے کا ریفلکس ہے۔ آپ کے قریب اچانک اونچی آواز آئی۔ کانوں سے دماغ اور ریڑھ کی ہڈی تک صرف پانچ ملی سیکنڈ میں سگنل پہنچ گیا، آنکھ بند ہو گئی، مٹھی بھینچ لی، کندھے اور سینہ اکڑ گئے۔ جب تک آپ نے شعوری طور پر اس کا ادراک کیا، جسم مقابلہ کرنے کے لئے اس وقت تک کئی اقدامات کر چکا تھا۔ اس حس کی تیز رفتاری ہی وہ وجہ ہے کہ اولمپک گیمز میں ریس شروع کرنے کے لئے گن کا استعمال کیا جاتا ہے۔
کچھ اور ملی سیکنڈ کا اضافہ کر دیں تو بارہ ملی سیکنڈ میں خطرے کا سگنل دماغ کے حصے امگڈالا تک پہنچتا ہے جو خود دماغ کا نسبتا سادہ حصہ ہے۔ یہ تیاری کے لئے کئی پیچیدہ اقدامات کرتا ہے۔ آپ کی گود میں آنے والے سانپ پر آپ کی نکلنے والی چیخ اور لگائی گئی چھلانگ بھی اسی وجہ سے تھی۔ آدھے سیکنڈ کے بعد آپ کے شعور کو یہ پتا لگا کہ آپ کے ساتھ شرارت کی گئی ہے لیکن اس وقت آپ ہوا میں دو فٹ اونچا اچھل چکے تھے۔
جو بھی چیز ہم آدھے سیکنڈ سے کم میں کرتے ہیں، خواہ وہ کرکٹ میں تیزرفتار گیند کو بلے سے باؤنڈری کے پار پہنچانا ہو، کسی اجنبی کی اپنے پر پڑتی نگاہ کا احساس یا پھر شرم سے گالوں پر نمودار ہوتی ہوئی سرخی، یہ شعوری نہیں بلکہ ذہن کے آٹومیٹک سرکٹس کا کام ہے۔ یہ مایوس کن لگے یا متاثر کن، یہ آپ کی نظر۔ انسانی شعور کی وجہ سے دنیا میں ہونے والے کمالات اپنی جگہ، لیکن ہم زندگی کی کئی بہترین چیزیں اس کی مدد کے بغیر ہی کر لیتے ہیں۔
فیس بک یا یوٹیوب پر آپ نے اس طرح کی کئی ویڈیوز دیکھی ہوں گی، لیکن ایک بار پھر اس ویڈیو کو دیکھیں اور اس دفعہ ہمارے ذہن کے تیزرفتار سرکٹس کی وجہ سے ہونے والے فوائد کو ذرا گہرائی میں سمجھیں۔