سوچ کی داستان ۔۔۔۔۔
سائیں بابا سے جب میں نے سوال کیا کہ ہماری انسانیت کے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟کیوں ہمارے ملک سے کچھ افراد لاپتہ کردیئے جاتے ہیں اور بعد میں انہیں مسنگ پرسز کہا جاتا ہے ۔کیوں خرم زکی کو قتل کردیا جاتا ہے ؟کیوں سبین محمود ماری جاتی ہے؟کیوں رضارومی پر جان لیوا حملہ کیا جاتا ہے اور وہ ملک چھوڑ دیتا ہے ؟ کیوں سلمان تاثیر کو قتل کردیا جاتا ہے؟ کیوں سلمان حیدر اغواء ہو جاتا ہے؟کیوں حسین حقانی کو غدار کہا جاتا ہے؟ کیوں کچھ انسان کافر قرار دیئے جاتے ہیں ؟ کیوں اس ملک میں سیکولر اور لبرل قتل کردیئے جاتے ہیں ؟کیوں قادیانی قتل ہوتے ہیں ؟کیوں شیعہ مسلمانوں پر خود کش حملے کئے جاتے ہیں ؟ایسا کیوں ہوتا ہے؟اس کیوں کا کیا جواب ہے ؟ میرے سوال کے بعد بابا کچھ دیر تک خاموش رہے اور پھر اچانک بولے ،بیٹا یہ سب سوچ کا کیا دھڑا کیا ہے؟سوچ ہمیشہ کسی بھی روایت پرست،انتہا پسند ،مذہبی اور غیر سائینٹیفک معاشرے کے لئے خطرناک ہوتی ہے ۔سوچ کی وجہ سے اچانک ہنگامہ برپا ہوجاتا ہے۔معاشرے میں بغاوت اور انقلاب کی خوشبو پھیلنے لگتی ہے ۔چاروں اطراف ہلچل برپا ہوجاتی ہے ۔یہاں سب سے بڑا مسئلہ سوچ ہے اور سوچنا یہاں جرم ہے ۔جو بھی یہاں اپنی سوچ کا اظہار کرتا ہے ،اس لئے اسے ماردیا جاتا ہے ۔یہ اوپر جتنے انسان تم نے گنوائے یہ مجرم نہ تھے ،محبت کرنے والے شفیق انسان تھے ،انسانیت کے ہمدرد تھے ۔لیکن مختلف انداز میں سوچتے تھے ۔معاشرے کی روایت سے ہٹ کر سوچتے تھے ،اس لئے مارے گئے ۔اس معاشرے میں وہ انسان جو سوچتے نہیں ،وہ محفوظ ہیں ،انہیں کسی قسم کا خطرہ نہیں ۔وہ معاشرے کے لئے بہت فائدہ مند ہیں ۔یہاں صرف سوچنا جرم ہے ۔سقراط عظیم انسان تھا ۔انسانوں سے محبت کرتا تھا ۔درویش صفت اور صوفی تھا ،لیکن زہر دیکر ماردیا گیا ۔کیوں صرف سوچ کی وجہ سے ۔انسان اس دنیا میں ہمیشہ سوچ کی وجہ سے ہی قتل ہوتا آیا ہے ۔یہاں ہمارے معاشرے میں ایک جرم کبھی معاف نہیں کیا جاتا اور اس جرم کا نام ہے سوچ۔اس ملک میں کوئی بھی معاشرہ یہ نہیں چاہتا کہ اس کے افراد سوچنا شروع کردیں ۔مذہبی معاشرے میں ایک خاص مذہبی نظریئے سے ہٹ کر سوچو گے تو وہ معاشرہ تم کو کافر کہہ کر مروا دے گا ۔اسٹیبلشمنٹ کی فکر سے مختلف سوچ کا اظہار ہوگا تو تمہیں غدار کہہ کر زلیل کرایا جائے گا ۔مولویانہ فکر سے مختلف سوچوگے تو انجام موت یا پھر زلالت ہے ۔اس معاشرے میں نئی بات سوچنا جرم ہے ،نئے خیالات اور نظریات لانا جرم ہے ۔اس معاشرے کو صرف روبوٹس کی طرح کے انسان چاہیئے جو فرمابرداری سے معاشرے کے بتائے ہوئے احکامات پر چلتے رہیں ۔اس معاشرے کو عامر لیاقت چاہیئے ،ڈاکٹر شاہد مسعود چاہیئے ،یہاں وسعت اللہ خان ،رضارومی یا عائشہ صدیقہ یا سلمان حیدر کے لئے کوئی جگہ نہیں ۔معاشرے کو ایسے روبوٹک انسان چایئے جو حکم کے غلام ہوں ۔جن کی ڈکشنری میں no کا لفظ تک نہ ہو ،صرف ان کی ڈکشنری میں yes کے لفظ کا ہونا بہت ہے ۔سوچ کی وجہ سے نئے نئے حقیقی اور تخلیقی سوالات ابھرتے ہیں ۔سوچنے کا مطلب ہے جو آپ کو کہا جارہا ہے ،وہ بات آپ قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں ،کیونکہ تم تو وہ کرنا چاہتے ہو جو تم خود فیصلہ کرتے ہو،کہتے ہو میں مولوی کی بات سے مخلتف سوچتا ہوں،وہ کروں گا جو خود کی سوچ ہو گی ۔سوچ سے حقائق سامنے آتے ہیں ،دلیل کا ظہور ہوتا ہے ۔یہاں کی انسانیت غیر سائنسی اور توہم پرست ہے ،اس لئے یہاں خود سے سوچنے کو بغاوت سمجھا جاتا ہے ۔جب گلیلیو نے کہا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے ،تو تمام عیسائی پیشوا گلیلیو کے دشمن بن گئے ۔گلیلیو کو عدالت میں گھسیٹ کر لے گئے ۔اس سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اپنے فقرے کو درست کرے اور کہہ کہ سورج زمین کے گرد گھومتا ہے ۔گلیلیو بہت زہین انسان تھا ،اس نے عدالت میں کہا کوئی مسئلہ نہیں ،میں اپنا فقرہ درست کرلیتا ہوں ۔اور کہہ دیتا ہوں کہ سورج زمین کے گرد گھومتا ہے ۔لیکن میرے یہ کہنے سے حقیقت تبدیل نہیں ہو گی ۔زمین پھر بھی سورج کے گرد گھومتی رہے گی ۔مجھے قتل کردو ،میری سوچ کو آگ لگا دو ،لیکن اس سے زمین کا رویہ نہیں بدلے گا ،زمین ہی نے سورج کے گرد گھومنا ہے ۔گلیلیو نے اس دور میں باغیانہ سوچ دی تھی ،عقل اور دلائل کی بنیاد پر بات کی تھی ۔سائنس کی حقیقت بتائی تھی ،لیکن ان معاشرے کا عقیدہ یہ تھا کہ سورج ہی زمین کے گرد گھومتا ہے ۔لہذا گلیلیو کی سوچ ہی اس کا جرم تھا ۔بابا نے کہا جس دن انسانوں کو سوچ کی آزادی مل جائے گی یہ معاشرہ بھی عقلی ،سائنسی اور دلیل والا بن جائے گا ۔پھر کوئی سلمان تاثیر قتل نہیں ہوگا ،پھر خرم زکی بھی محفوظ رہے گا ،سبین محمود بھی قتل نہیں ہو گی اور حسین حقانی کو بھی پاکستان کا غدار نہیں کہا جائے گا اور پھر رضا رومی بھی پاکستان میں اپنی سوچ کی خوشبو کے ساتھ زندگی انجوائے کرسکیں گے۔پاکستان میں انسانوں کو اپنے اپنے انداز میں سوچنے کی آزادی کی ضرورت ہے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔