جسم میں موجود کینسر سے ہر شخص واقف ہے۔ منفی سوچ والے شخص کو کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ "سوچ کا کینسر" رکھتا ہے۔ مطلب خود منفی خیالات پیدا کرکے مفروضہ قائم کرتا ہے، خبر ہر شخص تک اس طرح پہنچاتا ہے گویا حقیقت ہو، پھر خود ہی فیصلہ کرکے نتیجہ بتا دیتا ہے فلاں شخص اس شخصیت کا مالک ہے۔ قرآن کریم میں "اللہ پاک" فرماتے ہیں:
’’اے ایمان والو! زیادہ تر گمانوں سے بچا کرو بیشک بعض گمان (ایسے) گناہ ہوتے ہیں (جن پر اُخروی سزا واجب ہوتی ہے) اور (کسی کے غیبوں اور رازوں کی) جستجو نہ کیا کرو اور نہ پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی برائی کیا کرو، کیا تم میں سے کوئی شخص پسند کرے گا کہ وہ اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھائے، سو تم اس سے نفرت کرتے ہو۔ اور (اِن تمام معاملات میں) اﷲ سے ڈرو بیشک اﷲ توبہ کو بہت قبول فرمانے والا بہت رحم فرمانے والا ہےo‘‘
الحجرات، 49 : 12
درج بالا آیات کا مفہوم ہمیں ذہن کی منفی سوچ سے دور رہنے کو ترغیب دیتا ہے۔ آج کا انسان اتنا باشعور ہے کہ "بین الاقوامی" مسائل پر گہری سوچ اور نظریہ رکھتا ہے اچھے مشورے اور تنقید کرتا ہے۔ لیکن ناکام اس وقت ہوجاتا ہے جب اپنے بھائی، ابو یا قریبی فرد بات کو منفی پہلو میں سمجھتے ہوئے لڑ پڑتے ہیں۔ کئی کئی دنوں تک بات تک نہیں کرتے۔ المیہ تو یہ ہے کہ افوہ کی بنیاد پر ہم فیصلہ کرتے ہیں۔ یعنی اکثر دیکھنے میں آیا کہ یونیورسٹی یا کالج کے کسی "معلم" سے متعلق کسی دشمن نے منفی بات پھیلا رکھی ہے تو طالبعلم تصدیق کیے بغیر اپنے اساتذہ کی غیبت میں مشغول رہتے ہیں۔ وہی استاد جب مثبت ترغیب دے رہے ہوں اور منفی عادات سے دور رہنے کی نصیحت کر رہے ہوں تو وہ انہیں پھیلی ہوئی جھوٹی افواہ کا طعنہ دے کر چپ کروا دیتے ہیں کہ پہلے آپ اپنا قبلہ درست کریں۔ ہاں کوئی معلم ماضی میں کسی کردار میں ملوث رہا بھی ہو تو وہ خدا کو جوابدہ ہے ہم اس کا احتساب کرنے کا حق نہیں رکھتے ۔ ممکن ہے وہ توبہ کرکے مومن بن گیا ہو اور اللہ کے پسندیدہ انسانوں میں شامل ہوچکا ہو۔ کل "تیرہ فروری" بروز جمعرات 2020 کو ایک استاد نے بچوں سے کہا کہ کل چودہ فروری ہے "سوشل میڈیا" کے ساتھ کئی نامور اداروں نے "ویلنٹائین" کا اہتمام کر رکھا ہوگا۔ آپ نے ایسی سرگرمیوں بچ کر رہیں۔ اسی وقت تنقید کے ساتھ تلخ جملوں کا استعمال تین لڑکوں نے کیا۔
یہ سب منفی سوچ کا اثر ہے۔ جو ہم سوچتے اور کہتے ہیں وہی ہمارے چھوٹوں میں منتقل ہوتا ہے۔ چونکہ دماغ میں موجود سوچ کا پورے معاشرے اثر پڑتا ہے۔ اس لیے ہمیں کرداری سازی کرتے وقت سب سے زیادہ کا کام سوچ پر کرنا چاہیئے۔ صحتمند دماغ ہی قوم و ملک کی ترقی کی وجہ بن سکتے ہیں۔ آج ہماری منفی سوچ دماغ، جسم ، رشتے، احساس اور قوم کو تیزی سے تباہ و برباد کر رہی ہے۔ سوچ میں کینسر پیدا ہورہا ہے۔ اس کینسر کو روکنا ہوگا۔ ورنہ یہ "سوچ کا کینسر" نہ جانے کب ہمارے رشتوں اور قوموں کو جدا کر دے ہمیں پتا تک نہیں چلے گا۔