امریکہ کہ ایک مشہور جریدے the Atlantic کہ اس مہینے کہ شمارے میں چند مایہ ناز لکھاریوں سے یہ سوال کیا گیا کہ آپ کہ خیال میں دنیا کا آٹھواں عجوبہ کونسا ہو سکتا ہے ؟ بارہ لوگوں سے یہ سوال کیا گیا اور چھ نے یعنی آدھوں نے ، جواب abstract فارم میں دیا ۔ جیسے ایک نے کہا “بجلی” جس سے سات عجوبوں کو دیکھنا ممکن ہوا ۔ ایک نے کہا Apollo 11 کمانڈ module جس سے انسان پہلی دفعہ چاند پر پہنچا۔ کسی نے کہا کہ انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن ، جس سے اس عزاب والی دنیا سے باہر نکلنے کا موقع ملا۔ کسی نے سیویج ٹریٹمنٹ پلانٹ کو کہا، جس سے صاف پینے کا پانی میسر ہو سکا۔ ایک لکھاری نے coffee bean کو آٹھواں عجوبہ گردانا جس نے دنیا کو ہوش میں رکھا ہوا ہے اور ایک نے Pacific میں wastage dump جو سائز میں فرانس کے کُل رقبہ سے تین گنا کہ بڑا ہے ۔
ہمارا سب کا ایک اپنا سوچ کا زاویہ یا perspective ہے ۔ دراصل سوچ ہی ہماری consciousness یا آگہی ہے ، یہی introspection بھی ممکن کرتی ہے جس پر ایمینؤل کانٹ نے زور دیا اور اس ماہر نفسیات جون نے فلم beauty in the broken میں جو میرے کل کہ بلاگ کی زینت بنی ۔ مجھے بہت لوگوں نے فلم دیکھنے کہ بعد خوبصورت کمینٹز دیے ۔ شکریہ آپ سب کا ۔ میں ادھر بتاتا چلوں کہ میں نہ تو کوئ گُُرو ہوں اور نہ ہی استاد ، بس آپ سب کی طرح nature کو observe کرنے کا طالب ۔ میں زاویے والے ہی اشفاق احمد خان صاحب کو کہتا تھا کہ اگر بابا آپ کہ اندر ہی ہو تو پھر؟ وہ مسکرا دیتے ۔ لہٰزا بلکل ممکن ہے آپ میرے سے زیادہ اچھے observer ہوں ۔ یقین کریں میں آپ کہ تبصروں سے بہت کچھ سیکھتا ہوں ، انہیں اپنا آئینہ سمجھتا ہوں ۔ اور آپ کہ ساتھ ڈائلاگ کا شوقین ، جیسے بھی ممکن ہو ۔
اس سلسلہ میں ایک بہت اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا سوچ ، حالات و واقعات کہ تابع ہے یا حالات اس کہ تابع؟ اس میں فلسفیوں اور لکھاریوں نے مختلف آرا دی ہے ، میرا اپنا زاتی تجربہ اور مشاہدہ یہ کہتا ہے کہ حالات و واقعات تو ایک اپنی چال میں چلتے رہتے ہیں ، ایک فلم یا ڈرامے کی طرح جو آپ کا مقدر یا Fate بھی ہو سکتا ہے ، کرما یا لکھا ہوا بھی اسے کہ سکتے ہیں ۔ لیکن اس لکھے ہوئے ڈرامے ، فلم یا رقص کِہ ڈائریکٹر ، اور choreographer یا ہدایت کار صرف اور صرف آپ ہیں ۔ اور اس میں آپ کی معاونت کرتی ہے آپ کی “سوچ “جو اینٹینا ہے کائنات کہ ساتھ آپ کہ رابطے کا۔ زندگی ایک ڈرامہ ہے جو صدیوں سے چل رہا ہے نجانے کتنی صدیاں اور چلتا رہے گا۔ آپ محض ایک کردار ہیں جس بھی رُوپ میں بھیجے گئے ۔ آپ بھی باقی ساری دنیا کی مخلوقوں ، پرند چرند ، پہاڑ ندی ، چاند ستاروں کہ ساتھ اس مقدس رقص میں مصروف ہیں ۔ یہ قدرتی کھیل ہے اس رنگ میں بھنگ ہم خود ڈالتے ہیں جب ہم ان حالات اور واقعات کو بدلنے کی کوشش کرتے ہیں اور اکثر منفی سوچ اور فکر سے ۔ پھر وہی حال ہوتا ہے جو فرعون کا ہوا ، جو آج کہ زمانے میں اسٹیو جابز کا ۔ نہ دنیا ملی نہ آخرت ۔
اسکاٹ گیلووے ، نیو یارک یونیورسٹی کہ مشہور بزنس اسکول میں برانڈنگ اور مارکیٹنگ کا پروفیسر ہے ۔ اس کی ایک بہت زبردست کتاب مارکیٹ میں پچھلے دنوں آئ the Four جس میں وہ hidden DNA چار بڑی کمپنی کہ CEOs کا پیش کرتا ہے ۔ ضرور پڑھیں، کیسے ہم بیوقوف بن رہے ہیں ۔ جیسے ہراری نے کہا کہ کوکا کولا اپنے اشتہار میں کوئ زیباطیس یا موٹاپے کا مریض کیوں نہیں دکھاتی ؟ اُلٹا وہ کھلاڑی دکھاتی ہے جو صرف اشتہار میں ہی کوک پیتے دکھائ دیتے ہیں ۔ پاکستان میں تو کوک نے کلاسیکی موسیقی کا بٹھہ بٹھا دیا ، اس کو بھی اپنے جعلی کمرشل رنگ میں رنگ دیا ۔ ماڈرن ورلڈ کا کمرشل سرکس ایک اپنی فلم چلائے ہوئے ہے جس نے انسان کو بلکل confuse کر دیا ہے۔ دراصل جنہوں نے اس سارے معاملے کو سلجھانا تھا ، پروفیسر ، پادری اور پوتر یا پارسا ، انہوں نے بھی دوکانیں سجا لیں ۔ کوئ فرسٹ لیڈی بن گئ ، کوئ نماز جنازہ پڑھانے چل پڑا ۔ یہ سب لوگ الٹا ناچ چل رہے ہیں ۔ اسٹیفن کہتا ہے کہ یہ چار کمپنیوں ، گوگل ، فیس بک ، ایمازون اور ایپل کہ سی ای اوز محنت یا مشقت کر کہ یہاں نہیں پہنچے ۔ سوتے ضرور صرف چار گھنٹے ہیں لیکن یہ وہ تخلیقی محنت نہیں بلکہ وہ ignorance کو exploit کرتے ہیں باقی ۲۰ گھنٹے ، اپنی اور باقی دنیا کی۔ چیزوں کو مختلف packs میں فروخت کرنے کا چکر یا monopoly کِہ سوا
کچھ نہیں ۔ اگلے دن کسی نے مجھے کہا، امریکہ میں کینسر کہ کیس بہت بڑھتے جا رہے ہیں ۔ میں نے کہا جی ، پوری دنیا میں ہی ایسا ہے ۔ کیونکہ ہم flow کہ against یا مخالف سمت میں جا رہے ہیں تو cells کا زندہ رہنا بہت مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ فطرت کا DNA جس قدرتی auto پر tuned ہے اس سے اختلاف cells کہ لیے تباہ کن ہے ۔
چائس ہماری اپنی ہے ، کیا ہم نے اُلٹا ناچ ناچنا ہے یا سیدھا یہ free will کہ تابع ہے ۔ اس دنیا سے تو دونوں صورتوں میں رخصت ہونا ہی ہے ۔ اس دنیا کی زندگی کو عزاب نہ بنائیں ۔ اسٹیو جابز نے جس مقصد کو حاصل کرنے کی وجہ سے کینسر لگوایا آج وہ اس کو ساتھ نہیں لے کے جا سکا ۔ اس کی موت کہ بعد اس کی کمپنی نے ٹریلین ڈالر کا ہدف حاصل کیا جو اس کہ لیے بیکار ہے ۔ اسی لیے اسٹیو نے کہا مجھے گمنام جگہ دفنانا اور میری قبر پر کسی کو آنے نہ دینا ۔
ہم illusions میں رہ رہے ہیں ۔ مادہ پرستی کی زندگیاں سوائے illusion کہ کچھ نہیں ۔ اور یہ سب کچھ سوچ کہ غلط زاویوں سے ہوا ۔ خدارا اس سے چھٹکارا حاصل کریں اور سکون میں آ جائیں ۔ سکون flow میں ہے ۔ Tolle کہ Now میں اور جو موجود ہے اُس میں ، وہ present moment ہے ، نہ ماضی نہ مستقبل ۔
بہت خوش رہیں ۔