سنوکر کا میز سبز رنگ کا کیوں ہوتا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ سنوکر کا ارتقا بلیئرڈز سے ہوا ہے۔ بلئیرڈ شمالی یورپ میں پندرہویں صدی شاہی خاندان میں کھیلی جاتی تھی اور یہ لان میں کھیلی جانے والی کھیل کروکے کی انڈور کھیلی جانی والی شکل تھی۔ میز کو گھاس جیسا دکھانے کے لئے اس کا رنگ سبز رکھا جاتا تھا۔ پھر صنعتی انقلاب آ گیا۔ اس سے نکلنے والا ایک نتیجہ یہ تھا کہ بلیئرڈ کا میز بنانا پہلے کے مقابلے میں بہت سستا ہو گیا۔ یہ کھیل شاہی محلات سے نکل آیا۔ ریسٹورنٹ، بار اور کلبوں کو پتا لگا کہ یہ کھیل انکی آمدنی بڑھا سکتا ہے۔ یہ میز ان جگہوں پر لگنا شروع ہو گئے۔ یہ شہری غریبوں کی رسائی میں آ گیا۔
انیسویں صدی میں یہ کھیل تکنیکی طور پر ڈویلپ ہوا۔ پہلے اس کی سٹِک کی نوک پر چمڑے کا اضافہ ہوا اور چاک سے کور ہوئی تا کہ گیند پر قابو سپِن کے ذریعے بہتر ہو جائے۔ 1840 کی دہائی میں چارلس گڈیئر نے ربڑ میں گندھک ملا کر ولکنیز ربڑ تیار کر لیا۔ اسے میز کے کناروں پر لگایا جانے لگا تا کہ کشن مل جائے۔ سخت لکڑی کے بجائے گیند اس ربڑ کی نرم اور لچکدار سطح سے ٹکرائے۔ اس کے بعد اس کے میز کی وہ شکل بن گئی جس سے ہم آج واقف ہیں۔ بلئیرڈ کی تین یا چار گیندوں کی کھیل 1870 کی دہائی میں امریکہ میں پندرہ گیندوں کی پُول کی گیم میں بدلی۔
کھیل میں گیندوں کے اضافے اور اس کی بڑھتی مقبولیت نے ایک ضرورت کو جنم دیا۔ یہ ضرورت سستی گیندوں کی تھی۔
ابھی تک گیندیں ہاتھی دانت سے بنائی جا رہی تھیں۔ ہاتھی دانت اس لئے کہ خاصیتوں کے اعتبار سے اس سے بہتر میٹیرئل موجود نہیں تھا۔ اتنا سخت تھا کہ ہزاروں تیز رفتار ٹکروں کو برداشت کر جاتا تھا۔ اس پر کوئی ڈینٹ نہیں پڑتا تھا، کہیں سے کوئی کرچی الگ نہیں ہو جاتی تھی۔ اتنا مضبوط تھا کہ اس میں دراڑ نہں پڑتی تھی۔ مشین کے ذریعے اس کو شکل دی جا سکتی تھی۔ اس کی گیندیں بنائی جا سکتی تھیں اور کسی نامیاتی میٹرئیل کی طرح اس کو آسانی سے رنگا جا سکتا تھا۔ کسی بھی دوسرے میٹیریل میں یہ ساری خاصیتیں نہیں تھیں۔
اس کی مقبولیت نے ہاتھی دانت کی قیمت بڑھانا شروع کر دی۔ اگر یہ گیندیں مہنگی ہو جاتیں تو یہ کھیل عوامی نہ رہتا۔ امریکہ میں کلبوں نے کے متبادل میٹیریل کی تلاش شروع کر دی گئی۔ نیویارک ٹائمز میں اشتہار چھپا کہ جو بھی ہاتھی دانت کا متبادل دے سکے گا، اس کو دس ہزار ڈالر انعام میں دئے جائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جان ویسلے ہائیٹ ایک موجد تھے۔ اس اشتہار نے ان کی توجہ حاصل کر لی۔ انہوں نے تجربے میں کامفور کو الکحل اور نائیٹروسیلولوز کے ساتھ ملایا اور زبردست پریشر کے اندر اس کو گیند کی شکل دی۔ ان کی یہ ایجاد دس ہزار ڈالر کا یہ انعام تو نہیں جیت سکی لیکن انہوں نے سیلولائیڈ کی تیاری کا پراسس تلاش کر لیا تھا۔ اس ایجاد نے پلاسٹک کی صنعتی پیمانے پر تیاری کو ممکن بنایا۔
اگلے سالوں میں وہ سیلولائیڈ سے بنی بلئیرڈ کی گیندوں کو بہتر کرتے رہے لیکن یہ ہاتھی دانت کا متبادل نہیں تھیں۔ نہ ہی اتنی نفیس تھیں اور نہ ہی اتنی پائیدار۔ اور اس سے بری چیز یہ تھی کہ نائیٹروسیلولوز زیادہ مستحکم میٹیریل بھی نہیں تھا۔ اگرچہ ایسا شاذ ہوتا تھا لیکن کبھی زیادہ زور سے ٹکرانے پر یہ گیند دھماکے سے پھٹ بھی جاتی تھی۔
امریکی کیمسٹ لیو بیکلینڈ نے 1907 میں ایک نیا پلاسٹک تیار کیا۔ یہ بیکیلائٹ تھا۔ سب سے پہلا مکمل سنتھیٹک تھرموسیٹ وہ میٹیریل جس سے ریڈیو کا ڈبہ، شطرنج کے مہرے، برقی پلگ، کڑاہی کے ہینڈل وغیرہ بنتے ہیں۔ اس کی خوبصورتی، پائیداری، چمک اور آواز کی وجہ سے پُول کے گیند اس سے بننا شروع ہو گئے۔ 1920 کی دہائی کے وسط تک تقریباً تمام گیندیں بیکیلائیٹ سے بننے لگی تھیں۔
اس پلاسٹک کی ایجاد نے ہمارے کھیل کی خاطر مارے جانے والے ہاتھیوں کی جانیں بچا لیں۔
آج یہ گیندیں آرسلک یا پلاسٹک ریزن سے بنائی جاتی ہیں جو بہت پائیدار بھی ہیں اور ان کو ٹھیک ٹھیک سٹینڈرڈ کے ساتھ بنایا جا سکتا ہے۔ ان کے بنانے والے میتیریل کا ذریعہ مرے ہاتھیوں کے بجائے قدیم جانداروں کا جوس یعنی پٹرولیم ہے۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...