جاپان میں کام کی جگہوں پر تمام سٹاف اپنے کسٹمرز کو مسکرا کر ملتے ہیں چاہے ایئر پورٹ ہو کوئی ہوٹل ہو یا شاپنگ کی جگہ وہاں موجود سٹاف پر یہ فرض ہے کہ وہ آپکو مسکرا کر ہی سروس فراہم کریں گے ۔ یہ جاپانیوں کا اصول ہے کہ کسی کے کہنے سے پہلے ہی اسکو مطلوبہ سروس فراہم کر دی جائے اور کسٹمرز کو اہم ترین محسوس کروایا جائے ۔
جاپان میں ورکرز کو مسکرانے کی باقاعدہ ٹریننگ کروائی جاتی ہے جس میں چہرے کے مسلز کے متعلق پڑھایا اور انکو کیسے ایکٹیویٹ کیا جائے یہ سکھایا جاتا ہے اور اس مقصد کے لئے لرنرز کے منہ میں چاپ اسٹکس رکھ کر بھی یہ پریکٹس کروائی جاتی ہے ۔ ‘سمائل سکول’ نامی ایک جاپانی ڈاکومنٹری میں اس کی پریکٹس کرواتے ہوئے دکھائی گئی ہے ۔
جاپان میں کام کی جگہوں پر مسکرانے اتنا ضروری ہے کہ جس ورکر کی سمائل اچھی نہ ہو اس کو کام سے بھی روک دیا جاتا ہے اور اس کو کام کرنے کی دوبارہ اجازت تبھی ملتی ہے جب وہ مسکرانے کی اچھی سی پریکٹس کر لے ۔
لیکن یہ مصنوعی مسکراہٹ صرف خوشگواری لئے ہوئے نہیں ہے یہ ورکرز کے لئے پریشانی کا باعث بھی ہو جاتی ہے اور لمبے عرصے تک غیر مصنوعی مسکراہٹ سجاتے سجاتے کچھ لوگ مستقل ذہنی بیزار اور بیمار بھی پڑ جاتے ہیں ۔
سمائل ماسک سینڈروم (sms) جاپانی پروفیسر مکوتو ناسومی کا تجویز کردہ ہے جس میں کسی شخص کو زیادہ دیر تک مصنوعی مسکراہٹ چہرے پر سجائے رکھنے کی صورت میں حقیقی ڈپریشن اور بیماری بھی لاحق ہو سکتی ہے ۔ 1983ء میں پروفیسر مکوتو نے اوساکا شوئن وومنز یونیورسٹی میں یہ رپورٹ پیش کی کہ اس کے سٹوڈنٹس میں عضلاتی کھچاو ، درد اور کلینیکل ڈپریشن کی علامات پیدا ہو گئی ہیں جبکہ اس مستقل مصنوعی مسکراہٹ والی پریکٹس سے پہلے ان میں ڈپریشن کی کوئی قسم موجود نہیں تھی ۔
پروفیسر نے اس سینڈروم کی تشخیص سٹوڈنٹس کی کونسلنگ کے دوران کی جب انھوں نے دیکھا کہ ان کے سٹوڈنٹس مصنوعی مسکراہٹ چہرے پر سجانے کے اتنی عادی ہو چکے ہیں کہ انھیں احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ اپنی کوئی منفی یا تکلیف دہ احساس کو اسی مصنوعی خوش آئند مسکراہٹ کے ساتھ بیان کر رہے ہیں جو کہ ایک نارمل نفسیاتی رویہ نہیں ہے اور پروفیسر کا کہنا تھا کہ ان کے مریضوں نے یہ رپورٹ کیا کہ اس مصنوع مسکراہٹ کے لئے ان پر کام کی جگہوں اور سینئرز کی طرف سے اتنا پریشر ہے کہ وہ جب انھیں مستقل طور پر اپنے حقیقی احساسات کو چھپا کر ایک نقلی مسکراہٹ تا دیر برقرار رکھنی ہوتی ہے تو اس سے وہ ذہنی اذیت کا شکار ہیں اور جسمانی درد اور تکلیف بھی محسوس کرتے ہیں جصوصا خواتین اس صورتحال سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں ۔
سمائل ماسک سینڈروم کوریا میں بھی موجود ہے ۔ کورین رائٹر ووو ری کا کہنا ہے کہ کوریا میں مسکراتے ہوئے چہروں کی کام پر ڈیمانڈ زیادہ ہے اور صاف ستھرے یونیفارم کی طرح ہی یہ کسٹمرز پر اچھا تاثر ڈالنے میں مددگار ہے جبکہ ماہرین نفسیات کا خیال ہے کہ ایک ایسا معاشرہ جہاں مصنوعی مسکراہٹیں چہروں پر سجائے لوگ ہوں یہ ایک پتلی تماشے کے جیسا لگتا ہے اور لوگوں کو ذہنی اور جسمانی بیماری سے قریب اور حقیقت سے دور لے جاتا ہے اور جسمانی مسلز جب مستقل یا زیادہ دیر تک ایک ہی پوزیشن یا دباؤ میں رہیں تو اس سے جسم کے عصبی اور عضلاتی نظام میں خرابی ہو سکتی ہے جو سٹرین انجری کی وجہ بھی بن سکتی ہے ۔
سمائل ماسک سینڈروم اگرچہ ابھی ذہنی بیماریوں کے ڈائیگناسٹک اینڈ سٹیٹسٹیکل مینویل ( DSM-5) میں موجود نہیں ہے مگر ماہرین کی رپورٹس اور دنیا بھر میں لوگوں کے اندر بڑھتے ہوئے ڈپریشن کے رپورٹ ہونے پر شاید جلد ہی اس کو ذہنی بیماریوں کی لسٹ میں ڈالنا ضروری ہو جائے ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...