سمارٹ گیم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سینٹ کے انتخابات بھی ختم ہوئے۔ انتخابات سے پہلے خاصے جوڑ توڑ ہوئے ، ایک دو دن پہلے تک صورتحال غیر یقینی معلوم ہو رہی تھی۔ سینٹ میں کسی جماعت کو اکثریت حاصل نہیں تھی۔ چیئرمین بننے کے لئے (53)نشستیں درکار تھیں اور ن لیگ کے پاس تینتیس ووٹ تھے، جبکہ اپوزیشن کی دونوں بڑی پارٹیوں پیپلزپارٹی کے پاس بیس(20) اور تحریک انصاف کے پاس تیرہ(13) سیٹیں تھیں۔اس اعتبار سے سینٹ میں فیصلہ کن اکثریت کسی کو حاصل نہیں تھی اور سارا کھیل جوڑ توڑ اور اتحاد بنانے کا تھا۔ جو بہتر اتحاد بنا ئے ، اس نے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا الیکشن جیت لینا تھا۔ ن لیگ اور ان کے اتحادی الیکشن جیت سکتے تھے جبکہ اپوزیشن بھی یہ کامیابی حاصل کر سکتی تھی۔ گیم اوپن تھی۔ اپوزیشن نے اپنے کارڈ زیادہ عقلمندی سے کھیلے اور میدان مار لیا۔ اس میں کسی قسم کی سازشی تھیوری ڈھونڈنا یا اس شکست کی ذمہ داری اسٹیبلشمنٹ پر ڈالنا ذہنی بیماری کی علامت ہی ہوگی۔ اس الیکشن کے حوالے سے یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ کسی سیاسی جماعت کی اکثریت کو اقلیت میں بدلا گیا۔ دو جمع دو چار والی بات ہے۔ اسے سمجھنا قطعی مشکل نہیں۔
مسلم لیگ ن نے (53)ترپن کا ہندسہ پورا کرنا تھا، اس نے اپنی آپشنز پر غور کیا اورجو کارڈز ان کے پاس تھے، انہیں استعمال کیا۔ انہیں ایک ایڈوانٹیج حاصل تھا کہ سینٹ میں پنجاب سمیت تمام صوبوں کے ارکان برابر ہیں، اس لئے بلوچستان کی چھوٹی جماعتیں، جن کے پاس قومی اسمبلی میں بہت کم نشستیں ہیں، ان کے پاس بھی دو چار سینیٹر موجود تھے۔بلوچستان کی پشتون قوم پرست جماعت میپ کے محمود اچکزئی نواز شریف کے قابل اعتماد ساتھی ہیں، بلوچ قوم پرست جماعت نیشنل پارٹی بھی مسلم لیگ ن کی اتحادی ہے۔ ان کی حمایت فوری طور پر ن لیگ کو مل گئی۔ تحریک انصاف کے خیبر پختون خوا میں سب سے بڑے مخالفوں میں اے این پی اور جمعیت علما ئے اسلام کے مولانا فضل الرحمن شامل ہیں۔ یہ دونوں جماعتیں ہر حال میں عمران خان کے مخالف ہی جاتی ہیں۔ ان دونوں نے بھی میاں نواز شریف کے ساتھ ہاتھ ملا لیا۔ یوں ان کی پوزیشن مضبوط ہوگئی ۔رہی سہی کسر جماعت اسلامی نے پوری کر دی۔
اپوزیشن کی مجبوری یہ تھی کہ تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی دونوں چندماہ بعد ہونے والے عام انتخابات میں ایک دوسرے کے مقابل ہوں گی۔ دونوں جماعتوں کو ایک دوسرے سے اختلاف ہے۔ سینیٹ کے انتخابات میں اگر یہ اپنے اختلافات کے ساتھ چمٹی رہتیں تو مسلم لیگ ن کو واک اوو ر مل جاتا اور بھاری اکثریت کے ساتھ میاں صاحب کا امیدوار جیت جاتا۔ اصل مشکل عمران خان کے لئے تھی، جو پیپلزپارٹی کی قیادت کے لئے نہایت سخت الفاظ استعمال کرتے ہیں ۔ عمران خان کے پاس آپشن ایک ہی تھی کہ کوئی ایسا امیدوار چنا جائے ، جس کی حمایت کا اخلاقی جواز موجود ہو اور آخری تجزیے میں وہ فتح یاب بھی ہوسکے۔ پیپلزپارٹی کے پاس چیئرمین کے لئے سلیم مانڈوی والا امیدوار تھے۔ تحریک انصاف اگر روایتی مفاد پرستی کی سیاست کرتی تو وہ آسانی کے ساتھ پیپلزپارٹی کے چیئرمین کا ساتھ دے کر اپنا امیدوار ڈپٹی چیئرمین بنوا لیتی، پچھلی بار مولانا فضل الرحمن نے ایسا ہی کیا تھا۔ ایسا کرنے سے مگر تحریک انصاف کے موقف کی دھجیاں اڑ جاتیں۔ مسلم
لیگ ن کو اس کا اندازہ تھا ، اس لئے ن لیگی رہنماؤں نے دانستہ طور پر تحریک انصاف پر طنز شروع کر دئیے کہ یہ پیپلزپارٹی کے ساتھ اتحاد بنا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ن لیگی میڈیا سیل کے سرکردہ لوگوں اور ان کے جذباتی حامیوں نے بھی اسی لائن کو اٹھایا اور خوب پروپیگنڈا کیا کہ تحریک انصاف او رپیپلزپارٹی کا اتحاد دراصل عمران خان کی سیاسی خودکشی ہوگی وغیرہ وغیرہ۔ ان کا خیال تھا کہ عمران خان جذباتی اور غلط فیصلے کرنے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں، وہ ٹمپرامنٹ کھو بیٹھیں گے اور پیپلزپارٹی کو بے نقط سنا کر اپنے تیرہ ارکان لئے ایک سائیڈ میں ہوجائیں گے ، یوں فتح ن لیگ کے حصے میں آئے گی۔ تاریخ میں(چلیں تحریک انصاف کی تاریخ ہی سمجھ لیں) چند ایک ساعتیں ہی ایسی آئی ہوں گی جس میں عمران خان نے کمال درجہ بالغ نظری اور سیاسی دانشمندی کا مظاہرہ کیا۔عمران خان نے بلوچستان سے آزاد منتخب ہونے والے سینیٹرز کے گروپ کو دعوت دی کہ اگر ہمارے سینیٹروں کی قوت ساتھ شامل ہونے سے آپ کا سینیٹر چیئرمین بن جاتا ہے تو ہم آپ کے ساتھ ہیں تاکہ تاریخ میں پہلی بار بلوچستان سے چیئرمین سینیٹ منتخب ہوجائے۔
عمران خان کی ایک ایسی سمارٹ موو تھی، جس سے ن لیگ تو خیر دنگ رہ ہی گئی، پیپلزپارٹی بھی سکتے میں آ گئی۔ زرداری صاحب اپنی طرف سے مانڈوی والا کو چیئرمین سینٹ بنوائے بیٹھے تھے۔ ان کا اندازہ تھا کہ چونکہ تحریک انصاف کے پاس اور کوئی آپشن نہیں، اس لئے وہ ان کے امیدوار کو ووٹ ڈالنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ صادق سنجرانی کے چیئرمین کے عہدے کے لئے امیدوار بننے کے لئے زرداری صاحب کو اپنا پلان بدلنا پڑا، مانڈوی والا کو ڈپٹی چیئرمین کے لئے نامزد ہونا پڑا۔ عمران خان نے عمدگی سے اپنے کارڈز کھیلے ۔ انہیں تین ایڈوانٹیج حاصل ہوئے۔ ن لیگ کو شکست ہوئی، پیپلزپارٹی اپنا چیئرمین سینٹ نہ بنوا سکی، ڈپٹی چیئرمین بنوانا کوئی بڑی کامیابی نہیں، پچھلے تین برس کے لئے مولانا فضل الرحمن صاحب کا ڈپٹی چیئرمین سینٹ رہا ہے، کوئی فرق پڑا ؟تیسری بڑی کامیابی یہ ملی کہ بلوچستان سے چیئرمین سینٹ بنوانے کا کریڈٹ عمران خان لے سکتے ہیں ،یہ مثبت روایت قائم ہوئی ہے۔ آصف زرداری بہرحال یہ کریڈٹ تو لے سکتے ہیں کہ انہوں نے جوڑ توڑ کر کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کی کامیابی یقینی بنوائی۔
مسلم لیگ ن کو بدترین شکست ہوئی۔ میاں نواز شریف سمارٹ نہ کھیل سکے ۔ راجہ ظفرالحق کو امیدوار بنانے میں کیا دانشمندی پوشیدہ تھی؟ ان کے امیدوار بننے سے کیا اضافی ووٹ ملے یا اس سے کوئی مثبت پیغام گیا؟ اس وقت وزیراعظم کا تعلق پنجاب سے ہے، سپیکر قومی اسمبلی پنجاب سے ہیں، آرمی چیف کا عہدہ پہلے ہی پنجاب کے پاس ہے، ایسے میں چیئرمین سینٹ جیسی اہم سیٹ کے لئے پنجاب کا امیدوار دینا سمجھ سے بالاتر ہے۔ میاں نواز شریف ہی ایسے عقل وفہم سے بالاتر فیصلے کر سکتے ہیں، ماضی میں بھی وہ خود وزیراعظم تھے اور صدر بھی گوجرانوالہ کے جسٹس رفیق تارڑ کو بنوا دیا۔ اسکے بجائے وہ اگر ایم کیو ایم سے کوئی اچھی ڈیل کرتے یا بلوچستان کے آزاد سینیٹر حضرات کو ساتھ ملاتے تو کچھ فائدہ ہوسکتا تھا۔ میاں صاحب نے رضا ربانی کو دوبارہ چیئرمین بنانے کی پیش کش کر کے چال چلی، مگر اس کا فائدہ کچھ نہیں ہوا ۔ میاں صاحب جانتے تھے کہ زرداری صاحب رضا ربانی کو پسند نہیں کرتے کہ وہ پارٹی پالیٹکس کے بجائے اپنے ذاتی خیالات کو ترجیح دیتے ہیں، انہیں علم تھا کہ اس بار رضاربانی قطعی طور پر امیدوار نہیں بنائے جائیں گے۔ میاں صاحب کی چال الٹ ہوگئی اور رضا ربانی نے تو خیر کیا بننا تھا،آصف زرداری نے اپوزیشن کے امیدواروں کی کامیابی کے لئے بھرپور محنت کی اور جوڑ توڑ کر کے فتح یقینی بنائی۔
مسلم لیگ ن کے اتحادیوں کو بھی اپنے بڑے پارٹنر کے ساتھ شکست کی تہمت برداشت کرنا پڑی۔ مولانا فضل الرحمن کے حامی ان کو بڑا زیرک سیاستدان کہتے ہیں، سینٹ انتخابات میں مولوی صاحب کی دانش دھری کی دھری رہ گئی ۔ وہ اپنے کارڈز کھیل ہی نہ پائے اور شکست خوردہ کیمپ کا حصہ بنے۔ جماعت اسلامی کی اپنی سیاست ہے ، اسے حق ہے کہ اپنی پسند اور ترجیحات کے مطابق فیصلے کرے۔ یہ نیک نام پارٹی ہے، روایتی کرپٹ سیاست کے چھینٹے یہاں نہیں پڑے، پارلیمنٹ میں سب سے بہتر اور شفاف ارکان جماعت اسلامی کے ہوتے ہیں،جو کبھی پیسہ لے کر وفاداری تبدیل نہیں کرتے۔ امیر جماعت عوامی سیاست کر رہے ہیں، ڈرائنگ روم کی سیاست سے نکال کر اپنی پارٹی کو وہ عوام میں لے آئے ہیں۔ یہ سب اچھی چیزیں ہیں،مگراس پر کئی بار البتہ حیرت ہوتی ہے کہ جماعت اسلامی کو یہ کیسے اندازہ ہوجاتا ہے کہ فلاں فیصلہ تباہ کن اور آخری تجزیے میں غلط ثابت ہوگا؟بڑے غوروخوض کے بعد جماعت کی قیادت اس کیمپ میں شامل ہوتی ہے،شکست کے سائے جس پر منڈلا رہے ہوتے ہیں۔ایسے ضمنی انتخابات میں امیدوار کھڑے کر دیں گے ،جہاں قطعی ضرورت نہیں اور پھر الیکشن کے بعد چندسو ووٹوں کی ذلت برداشت کرنا پڑتی ہے۔ اب سینیٹ کے الیکشن ہی کو دیکھ لیں۔ اپوزیشن کے امیدوار کی حمایت کرنے میں کیا حرج تھا۔ امیدوار کا تعلق بلوچستان سے تھا، پہلی بار چیئرمین سینٹ اس چھوٹے صوبے سے بن سکتا تھا، یہ مضبوط جواز تھا جماعت کی حمایت کا،جو بلوچستان کے ایشوز میں صوبے کے عوام کا ساتھ دیتی رہی ہے۔ صادق سنجرانی پر کوئی الزام بھی نہیں۔ اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں ان کی حمایت کر رہی تھیں۔ حکمران جماعت کے بجائے اپوزیشن کا ساتھ دینا ہمیشہ نیک نامی کا باعث بنتا ہے۔ جماعت نے مگر حسب عادت بلنڈر کیا اور اب اگلی شوریٰ کے اجلاس میں اس پر غور ہوگا کہ یہ فیصلہ کیوں کیا گیا تھا،اس میں کیا کھویا، کیا پایا ؟
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔