سیاسی تاریخ کا تازہ ترین جبر
تاریخی جبر ایک محاورہ ہے جو اس وقت استعمال ہوتا ہے جب آپ اپنے سیاسی مخالفین کی ان باتوں کو دھراتے ہیں اور وہ کچھ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں جس کی آپ پہلے شدید مخالفت کر رھے ہوتے ہیں۔
"الزام لگانے والے کا فرض ہے کہ وہ ثبوت لا کراسے ثابت کرے" عمران خان
دور کی بات نہیں کہ یہی عمران خان کہ رھے تھے کہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن کا فرض ہے کہ وہ الزام لگائے اور حکومت کا فرض ہے کہ وہ اسے جھوٹا ثابت کرے۔ اسی قسم کے دلائل کل کلاں عمران خان پنامہ کیس میں بھی پیش کر رھے تھے کہ میاں نواز شریف وہ منی ٹرائل بتائیں جو لندن فلیٹ خریدنے کے لئے استعمال ہوئی۔ جبکہ عمران خان خود کوئی بھی ثبوت اس بارے پیش نہ کر سکے۔
آج عائشہ گلالئی نے جب عمران خان پر الزام لگایا کہ وہ جنسی ہراسانی کےمرتکب ھوئے ہیں تو کئی طرح کے حیلے بہانے گھڑے جا رھے ہیں۔ اور اب تو وہ کہ دیا جس کے خلاف وہ خود اور انکے ساتھی بار بار کہتے تھے کہ اب نواز شریف کا فرض ہےکہ وہ ہمارے الزامات کو غلط ثابت کرے۔ یعنی الزام ہم لگائیں اپ اسے جھوٹا ثابت کریں، اب یہ صورتحال ہے کہ الزام لگانے والا ہی اسے ثبوت لا کر ثابت کرے۔
یہ ہے ہماری انکھوں کے سامنے ایک تاریخی جبر جس کا شکار اس بار عمران خان ہوئے اور انکے بارے میں اب بار بار کہا جا رھا ہے کہ وہ اپنی بات سے پھر جاتے ہیں اور یو ٹرن لینے میں کوئی وقت نہیں لگاتے۔
ائیے؛ اب ایک اور تاریخی جبر کی تازہ ترین مثال دیکھیں
بدھ کے روز میاں نواز شریف اپنی برطرفی کے بعد جی ٹی روڈ سے لاھور انے کا پلان فائنل کر چکے ہیں۔ ان کے روٹ میں جو نعرہ زیادہ تر بینرز پر لکھا ہوا ہے وہ ہے "یا اللہ یا رسول نواز شریف بے قصور" یہ وہ نعرہ ہے جو بے نظیر بھٹو کی 1990 میں اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان کے ھاتھوں 58/2B کے تحت برطرفی کے بعد ہیپلز پارٹی کے کارکنوں میں بےحد مقبول تھا۔ میاں نواز شریف اس وقت غلام اسحاق خان کا ساتھ دے رھے تھے۔
کل رات حامد میر نے اپنے پروگرام کیپیٹل ٹاک میں وضاحت کی کہ یہ نعرہ معروف شاعر محسن نقوی کی بے نظیر بارے لکھی ایک نظم کا اخری حصہ تھا جو نعرے کی شکل اختیار کر گیا۔
تاریخی جبر ہے کہ اب مسلم لیگی وہ نعرہ لگا رھے ہیں جس پر کل وہ ہنسا کرتے تھے اور پیپلز لارٹی کے کارکنوں پر طنز کرتےتھے۔
ایک اور مثال دیکھیں
آئین کی وہ شق 62/63جس کے تحت میاں نواز شریف کو نکالا گیا اسے ڈکٹیٹر ضیاالحق کے دور میں "اسلامی" کرنے کے لئے صادق اور امین کے الفاظ ڈالے گئے کہ جو اس میعار پرپورا نہیں اترے گا وہ پارلیمنٹ کا ممبر نہیں رہ سکتا۔
جب اٹھارویں ترمیم کے موقع پر اسے نکالا جا سکتا تھا اور پیپلز پارٹی بھی اس پر امادہ تھی تو اس وقت مسلم لیگ نے اسے نکالنے کی مخالفت کی۔ اب خود مسلم لیگ اس کا شکار ہوئی ہے اسے کہتے ہیں اپنے پاوں پر خود کلہاڑی مارنا۔
اب نومنتخب وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور وزیر ریلوے سعد رفیق اس بارے میں بجا طور پر کہتے ہیں کہ موقع ملتے ہی اسے آئین سے نکال دیں گے۔ یہ تارخی جبر ہے کہ جسے اپ نے آئین سے نہ نکالا اسی کا شکار آپ ہوئے۔
تارخ سے سیکھنے کی ضرورت ہے تا کہ اپ کو دوبارہ تاریخی جبر کے بوجھ سے گزرنا نہ پڑے
تحریر؛ فاروق طارق
ترجمان عوامی ورکرز پارٹی
8 August 2017
Tweeter account
@farooqtariq3
Skype
farooq.tariq55
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔