مجھے شطرنج کھیلنے کا بہت شوق ہے، اکثر آن لائن گیم کھیلتا ہوں اور اس دوران مختلف ممالک کے کھلاڑیوں سے تبادلہ خیالات بھی ہوتا رہتا ہے۔امریکی اچھی شطرنج کھیلتے ہیں لیکن ہارنے پر آئیں تو 'ایف‘ سے شروع ہونے والی تمام گالیاں دے ڈالتے ہیں۔ آسٹریلیا والے بات کرنے کی بجائے اشاروں کنایوں سے کام لیتے ہیں، مثلاً میری طرف سے چال چلنے میں دیر ہوجائے تو اُن کی طرف سے سوالیہ نشان آجاتاہے، ان کی چال کامیاب ہوجائے تو مسکراہٹ بھیج دیتے ہیں۔ انڈیا والے ہارنے لگیں تو فوراً میسج بھیج دیتے ہیں کہ پلیز گیم ڈرا کردیں۔پچھلے دنوں ایک امریکی صاحب میرے مدمقابل آئے تو انہوں نے گیم کھیلنے کی بجائے شدید حیرت کا اظہار فرمایا اور پوچھنے لگے کہ تمہارا ملک تو انتہائی خطرناک ماحول سے گذر رہا ہے اور تم شطرنج کھیل رہے ہو؟ عرض کیا کہ حضور نہ صرف شطرنج کھیل رہا ہوں بلکہ ساتھ انتہائی شاندار کافی بھی پی رہا ہوں اورہاتھ میں ایک دوست سے چھینا ہوا کیوبا کا سگار بھی ہے۔ وہ شدید حیرت میں مبتلا ہوگئے، پوچھنے لگے کہ کیاتم بازار وغیرہ میں بھی شاپنگ کرنے جاتے ہو؟ میں نے ایک قہقہہ لگایا اور ان کی معلومات میں اضافہ کیا کہ بھائی میرے میں شاپنگ بھی کرتا ہوں‘ آزادی سے گاڑی بھی چلاتا ہوں‘ راستے میں ریڑھی سے گرم چنے بھی خریدتا ہوں‘ سینما میں فلم بھی دیکھ لیتا ہوں‘ دوستوں کی منڈلی بھی جمتی ہے اور زندگی بڑے مزے میں ہے۔ یہ سن کر موصوف کے 45 فیصد اوسان خطا ہوگئے، جلدی سے لکھا'لیکن میں نے تو سنا ہے کہ پاکستان میں ہر طرف دہشت گردی ہے، ملک تباہ ہورہا ہے، لوگ مر رہے ہیں، بم دھماکے ہورہے ہیں ،کرائم ہی کرائم ہے‘۔ میں نے ایک آہ بھری اور لکھا'یہ سب کہاں نہیں ہوتا‘ یہاں بھی ہوتاہے لیکن جو صورتحال آپ بیان کر رہے ہیں ویسا کچھ نہیں۔‘کچھ دنوں بعد یہی کیفیت میری تھی جب میرے ساتھ گیم لگانے کے لیے ایک افغانستان کا نوجوان آن لائن آگیا۔ میں نے پہلا سوال یہی کیا'تمہارا ملک تو انتہائی خطرناک ماحول سے گذر رہا ہے اور تم …‘‘
میڈیا نے جو تصور بنادیا ہے ہمیں وہی نظر آتاہے۔ یہاں جو جتنا آسودہ ہے اتنا ہی ملک کے خلاف ہے ۔ کیا کمال کی ذہنیت ہے ہماری‘ ہمارا گھر سب سے اچھا ہے‘ ہمارا بیٹا سب سے اچھا ہے‘ ہماری گاڑی سب سے اچھی ہے‘ ہمارا خاندان سب سے اچھا ہے لیکن ہمارا ملک بہت برا ہے۔ہمیں ہر طرف جو مسائل کا انبار لگا نظر آتا ہے ان میں سے ہمارے بے شمار مسائل ایسے ہیں جو ہمارے ہیں ہی نہیں لیکن ہم نے انہیں اپنے اوپر یوں سوار کر رکھا ہے گویا یہی ہمارے سب سے بڑے مسائل ہیں۔وہ لوگ جنہیں اس بات پر پریشان ہونا چاہیے کہ ان کی چھت بغیر بارش کیوں ٹپک رہی ہے وہ اس بات پر سارا دن کڑھتے رہتے ہیں کہ ہمسائیوں کی لڑکی میٹرک پاس ہونے کے باوجود اتنے اچھے گھر میں کیسے بیاہی گئی۔وہ لوگ جنہیں اس بات پر تشویش میں مبتلا ہونا چاہیے کہ ان کے معدے میں کیوں جلن ہوتی ہے وہ اس بات پر فکر مند نظر آتے ہیں کہ ٹرمپ آگیا ہے اب امریکہ کا کیا بنے گا۔میرے ایک کزن کو نئی نئی دُعائیں جاننے کی پریشانی لاحق رہتی ہے۔ ان کے پاس ہر قسم کی دُعائوں والی کتابوں کا ڈھیر لگا ہوا ہے جس میں موٹاپے سے نجات اور رنگ گورا کرنے کی دعائیں بھی موجود ہیں۔ ایک دفعہ بڑے مضطرب نظر آئے،وجہ پوچھی تو پتا چلا کہ گرمی نہ لگنے کی دعا کی تلاش میں ہیں۔ مجھے یکدم خیال آیا کہ ایسے مسائل کا حل پروفیسر صاحب بہت اچھا نکالتے ہیں ، میں نے انہیں ساتھ لیا اور پروفیسر صاحب کے پاس پہنچ گیا۔ مدعا بیان کیا تو پروفیسر صاحب زیرلب مسکرادیے…میز پر پڑی عینک اٹھائی‘ آنکھوں پر لگائی اور آگے کو جھکتے ہوئے بولے'خدا سے جو بھی مانگنا ہے سیدھا سیدھا مانگ لو‘۔کزن کچھ نہ سمجھتے ہوئے بولا'کیسے سیدھا سیدھا مانگیں؟‘۔ پروفیسر صاحب نے عینک سیدھی کی'جو بھی تکلیف ہے اس سے نجات کی دعا مانگ لو…گرمی نہ لگنے کی اس سے اچھی دعا کیا ہوگی کہ یااللہ مجھے گرمی نہ لگے‘ …رنگ گورا کرنا ہے تو اپنی زبان میں خدا سے بات کرو کہ یااللہ میرا رنگ گورا ہوجائے‘…اتنا سیدھا سیدھا حل سن کرمیں نے پہلی بار اپنے کزن کو انتہائی ریلیکس دیکھا…واپسی پر وہ منہ آسمان کی طرف کرکے کچھ بڑبڑانے لگا‘ میں نے قریب ہوکے سنا تو کہہ رہا تھا…'یااللہ ! نوخیز مجھے ڈیڑھ کلو چکن کڑاہی کھلا دے…‘‘
آپ کسی بھی بندے سے بات کر کے دیکھ لیں، اس کا مسئلہ کوئی اور ہوگا اور دُکھ کسی اور چیز کا ہوگا۔جن لوگوں کا پیٹ بڑھا ہوا ہے ان کی نیندیں یہ سوچ سوچ کر اُڑ چکی ہیں کہ میٹھا خربوزہ کیوں نہیں مل رہا۔ جنہیں اس بات پر پریشان ہونا چاہیے کہ ان کا بچہ بار بار فیل کیوں ہورہا ہے وہ اس بات پر افسردہ نظر آتے ہیں فیس بک پر ان کی پوسٹ کو زیادہ Likes کیوں نہیں مل رہے۔ یہی حال ہمارے غصے کا ہے، آتا کسی پر ہے، نکالتے کسی پر ہیں۔گھرمیں بیوی سے لڑائی ہوجائے تو آفس میںملازمین کی شامت آجاتی ہے۔لڑائی دودھ والے سے ہوتی ہے غصہ درزی پر نکلتاہے۔
اصل میں ہماری اکثریت نہایت اعلیٰ درجے کی سڑیل بن چکی ہے۔رہی سہی کسر سیاسی جماعتوں نے نکال دی ہے۔آپ اگر بہت اچھے موٹر مکینک ہیں‘ بہت اچھے ڈاکٹر ہیں یا بہت اچھے انجینئر ہیں تو محض اس لیے گالیوں کے حقدار ہیں کہ آپ نواز شریف کو کیوں پسند کرتے ہیں۔ لوگ آپ کا کام ‘ آپ کا ہنر دیکھنا ہی گوارا نہیں کرتے‘ ہر بات کا فیصلہ آپ کی سیاسی وابستگی پر ہوتاہے۔ ہمارے محلے میں ایک صاحب انتہائی اچھے نان چنے لگاتے ہیں۔ ایک دن انہوں نے غلطی سے کہہ دیا کہ عمران خان بہت اچھا لیڈر ہے‘ اس کے بعد ان کی گاہکی آدھی سے بھی کم رہ گئی ہے۔ میں اب بھی ان کی دکان سے چنے لیتا ہوں جس کی وجہ سے کئی محلے داروں سے گالیاں کھا چکا ہوں۔لوگ باتوں باتوں میں آپ کی سیاسی وابستگی پوچھتے ہیں اور اگر خود سے مختلف پائیں تو 'اچھوت‘ قرار دے دیتے ہیں۔مجھے لگتا ہے عنقریب شناختی کارڈ میں سیاسی پارٹی کے خانے کا بھی اضافہ کرنا پڑے گا۔جن لوگوںکی پسندیدہ پارٹی کی حکومت ہے وہ پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن دیکھتے ہیں‘ جو دوسری پارٹی کے ہیں وہ پاکستان کی بربادی پر پریشان ہیں۔دونوں طرف کے لوگ سچے اور مخلص ہیں‘ دونوں اپنے ملک کا بھلا چاہتے ہیں ‘ دونوں چاہتے ہیں کہ پاکستان ترقی کرے لیکن صرف اُن کے ذریعے۔یہی چیز روز بروز لوگوں کو ذہنی مریض بنائے چلی جارہی ہے۔آپ کسی سے اختلاف کر کے دیکھیں، وہ کاٹ کھانے کو دوڑے گا۔اور اگر بالفرض آپ کا موبائل نمبر آپ کے کسی سیاسی مخالف کے پاس ہے تو وہ دن رات آپ کا جینا حرام کیے رکھے گا‘ اپنے لیڈر کی شان میں قصیدے اور آپ کے لیڈر کی شان میں تضحیک آمیز کارٹون اورخبریں اس تواتر سے بھیجے گا کہ آپ کو بھی بیٹھے بٹھائے خارش ہونی شروع ہوجائے گی کہ میں کیوں نہ جوابی وار کروں‘ پھر آپ بھی اسے ایسا ہی کچھ بھیجیں گے اور یوںپہلے جنگِ پلاسی شروع ہوگی جو رفتہ رفتہ 'جنگِ مراثی‘ میں تبدیل ہوجائے گی۔کیسا مزیدار کام ہے ناں…ہر لیڈر اپنے اپنے گھر سکون سے ہے اور عوام لنگوٹی کس کے ایک دوسرے کے خلاف میدان میں…!!!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“