اگر انسان اس ایک بات ہی پر غور کر لے کہ کوہِ نور ہیرا کس کس کی ملکیت رہا‘ تو اپنی اوقات سمجھ جائے۔
یہ سات سو سال پہلے کا واقعہ ہے۔ علائوالدین خلجی نے اپنے خواجہ سرا جرنیل ملک کافور کو جنوبی ہند فتح کرنے بھیجا۔ اس کا خاص ہدف ورنگل کی ریاست (موجودہ تلنگانہ) تھی۔ ورنگل کے راجہ نے زبردست مقابلہ کیا۔ ایک خندق قلعے کے اور دوسری شہر کے گرد کھدوائی اور ان میں پانی بھر دیا۔ مگر ملک کافور جیت گیا۔ سات ہزار گھوڑوں اور سو ہاتھیوں کے ساتھ مالِ غنیمت کے انبار ہاتھ آئے۔ اس مال میں ایک ہیرا تھا جس کے بارے میں امیر خسرو نے لکھا ہے کہ وہ دنیا میں لاثانی تھا۔
ملک کافور نے یہ ہیرا سلطان علائوالدین خلجی کو پیش کردیا۔ دنیا کا سب سے بڑا ہیرا۔ مگر ہوا یہ کہ 1316ء میں خلجی مر گیا۔
خلجیوں سے یہ ہیرا تغلقوں کے ہاتھ لگا۔ ہوتے ہوتے ابراہیم لودھی کے پاس پہنچا۔ پانی پت کی پہلی لڑائی میں لودھی کھیت رہا اور ہیرا مغل سلطنت کے بانی بابر کی خدمت میں جلوہ گر ہوا۔ بابر نے اس کی قیمت کا اندازہ یوں لگایا کہ پوری دنیا میں رہنے والے انسانوں کے لیے دو دن کی خوراک مہیا کی جا سکتی ہے۔ ان دنوں اس کا نام ’’بابر کا ہیرا‘‘ تھا۔ اس سے پہلے بھی یہ ’’مالکوں‘‘ کے ناموں سے منسوب رہا!
بابر سے یہ وراثت میں ہمایوں کو منتقل ہوا۔ پھر اکبر کا رہا۔ پھر جہانگیر کا بنا۔ شاہ جہان مالک بنا تو اس نے مقفل خزانے سے اسے باہر نکالا اور تختِ طائوس پر نصب کردیا۔ اورنگ زیب نے باپ کو قید کیا تو اس کے کمرے میں ہیرا ایسے زاویے سے رکھا کہ اس میں تاج محل کا عکس پڑتا تھا! ایک دوسری روایت کے مطابق یہ ہیرا میرجملہ نے شاہ جہان کو پیش کیا۔ اصفہان کے نواح میں پیدا ہونے والا میرجملہ گولکنڈہ آیا۔ ہیروں کی تجارت کی اور بحری جہازوں کا مالک بنا۔ یہ ہیرا اس نے شاہ جہان کو پیش کیا۔ اورنگ زیب نے میرجملہ کو اپنے بھائی شجاع کے خاتمے کا کام سونپا۔ میرجملہ نے شجاع کا تعاقب کر کے اُسے برما بھاگنے پر مجبور کردیا اور خود آسام میں دفن ہو گیا۔ اس کا مزار آج بھی بھارتی ریاست میگھا لایا کی ایک پہاڑی پر موجود ہے۔ 1972ء تک میگھا لایا کی ریاست آسام کا حصہ تھی۔
ہیرا وراثت کی سیڑھیاں اترتا رہا۔ اورنگ زیب سے یہ اس کے نالائق جانشینوں کے پاس باری باری آتا رہا۔ 1739ء میں نادرشاہ نے دلی کو تاراج کیا تو محمد شاہ رنگیلا مغل حکمران تھا۔ نادر شاہ کے قیامِ دلی کی کئی روایتیں مشہور ہیں۔ مثلاً یہ کہ قبض کے علاج کے لیے گل قند پیش کی گئی تو اس نے کھا کر کہا۔ حلوائے خوب است۔ دیگر بیار۔ یعنی یہ حلوہ مزے کا ہے۔ اور بھی لائو۔ اسے بتایا گیا کہ مشہور ہیرا مغل بادشاہ نے پگڑی میں چھپا رکھا ہے۔ نادر شاہ نے محمد شاہ رنگیلا سے کہا کہ ہم بھائی ہیں اور اس تعلق اور محبت میں اپنی اپنی پگڑیاں بدلتے ہیں۔ مفتوح یہ ’’اعزاز‘‘ قبول نہ کرتا تو کیا کرتا؟ نادر شاہ نے قیام گاہ میں جا کر پگڑی کے بل کھولے۔ ہیرا دیکھا تو بے اختیار پکار اٹھا ’’کوہِ نور‘‘۔ روشنی کا پہاڑ۔ وہیں سے اس کا نام کوہِ نور پڑا۔ کوہِ نور ایران پہنچ گیا۔
نادر شاہ کو سوتے میں قتل کردیا گیا۔ اس کی موت پر جو ہڑبونگ مچا اس میں ہیرا اس کے پشتون جرنیل احمد شاہ ابدالی کے ہاتھ لگ گیا۔ ابدالی نے 1747ء میں افغانستان کی داغ بیل ڈالی۔ پھر پانی پت کی تیسری لڑائی میں مرہٹوں کو شکست دے کر ہندو اکھنڈ بھارت کا خواب توڑ دیا۔ پھر اسے ایک عجیب بیماری نے آ لیا۔ السر کی ایک خوفناک قسم نے اس کے رخساروں اور ناک سے گوشت کھانا شروع کردیا اور وہ دنیا سے رخصت ہو گیا۔ اب کوہِ نور کا مالک اس کا بیٹا تیمور تھا۔ تیمور کے بعد اس کے چوبیس بیٹوں میں تخت نشینی کی لڑائیاں ہوئیں اور شاہ زمان جیت گیا۔
یہاں سے کوہِ نور کا ایک اور سفر شروع ہوا۔ شاہ زمان کو اس کے سوتیلے بھائی شاہ محمود نے تخت سے اتار کر قید کر دیا۔ شاہ زمان نے ہیرا قید خانے کی دیوار کے ایک شگاف میں چھپا دیا۔ جب اسے باہر نکال کر اندھا کیا گیا تو ہیرا وہیں رہ گیا۔ روایت یہ ہے کہ وہاں سے یہ ایک اکائونٹنٹ کے ہاتھ لگا۔ شاہ محمود کے بعد شاہ شجاع کابل کے تخت پر بیٹھا تو دس سال کی گم شدگی کے بعد کوہِ نور شجاع کو ملا۔
اب کوہِ نور کا برصغیر کی طرف واپسی کا سفر شروع ہوا۔ کابل کے تخت پر بیٹھنا ایسے ہی ہے جیسے چیونٹیوں کے انبار پر سونے کی کوشش کرنا۔ چنانچہ شاہ شجاع جلد ہی یہ تخت کھو بیٹھا۔ مصبیت کے اس زمانے میں وہ قبائلی سرداروں سے مدد کی التجائیں کرتا رہا اور ٹھکانے بدلتا رہا۔ ایک رات اس کے ایک سابق درباری عطا محمد نے اسے اٹک کے قلعے میں قیام کی دعوت دی۔ لیکن یہ دھوکا تھا۔ وہاں اسے قید کر لیا گیا۔ پھر اسے کشمیر کے ایک قلعے میں رکھا گیا۔ اکثر اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی جاتی۔ اس کی بیوی وفا بیگم
لاہور میں رنجیت سنگھ سے ملی جو پنجاب کا مطلق العنان فرماں روا تھا۔ بادشاہ کی بیگم اور سکھ بادشاہ میں معاہدہ طے پا گیا کہ اگر رنجیت سنگھ شاہ شجاع کو قید سے چھڑائے تو بدلے میں اسے کوہِ نور پیش کیا جائے گا۔ 1813ء میں رنجیت سنگھ نے فوج بھیج کر شجاع کو قید سے رہائی دلوائی اور لاہور لے آیا۔ وہاں اسے حرم سے الگ نظربند کیا گیا تاکہ وہ وعدہ ایفا کرے۔ شاہ شجاع اپنی یادداشتوں میں لکھتا ہے کہ ’’خوراک اور پانی کی مقدار کم کردی گئی۔ ہمارے نوکروں کو کبھی باہر جانے دیا جاتا اور کبھی نہیں‘‘۔ شاہ شجاع رنجیت سنگھ کو ’’گنوار‘ ظالم‘ بدشکل اور پست فطرت‘‘ قرار دیتا ہے۔
شاہ شجاع نے بہرطور ہیرا نہ دیا۔ آخر کار رنجیت سنگھ نے شجاع کو پنجرے میں بند کردیا اور اس کے سب سے بڑے بیٹے شہزادہ تیمور پر باپ کے سامنے جسمانی تشدد کیا۔ اس پر بادشاہ نے ہیرا دینے کا فیصلہ کر لیا۔ یکم جون 1813ء کو رنجیت سنگھ پرانے شہر کی ’’مبارک حویلی‘‘ میں پہنچا۔ شاہ شجاع اور رنجیت سنگھ دونوں ایک گھنٹہ خاموش بیٹھے رہے۔ رنجیت سنگھ بے تاب ہو رہا تھا۔ اس نے سرگوشی میں اپنے ایک خواجہ سرا کو کہا کہ وہ بادشاہ کو یاد دلائے۔ شجاع نے آنکھ کے اشارے سے اپنے ملازم کو حکم دیا۔ وہ ایک لپٹا ہوا کپڑا لایا اور دونوں حکمرانوں سے برابر کے فاصلے پر رکھ دیا۔ کپڑے کو کھولا گیا تو ہیرا برآمد ہو گیا۔ رنجیت سنگھ نے ہیرا لیا اور فوراً واپس چلا گیا۔
دکن‘ آگرہ‘ دہلی‘ مشہد‘ کابل اور کشمیر سے ہوتا ہوا کوہ نور اب پنجاب کے دارالحکومت میں تھا؛ تاہم رنجیت سنگھ نے اپنے پیش روئوں کی طرح کوہِ نور کو خزانے میں مقفل نہ رکھا۔ اس نے اسے اپنے بازو پر باندھا۔ ایک بار ایسٹ انڈیا کمپنی کے گورنر کا ملٹری سیکرٹری کیپٹن ولیم اوسبورن اس کے دربار میں حاضر ہوا۔ اس کے الفاظ میں… ’’بادشاہ سنہری مسند پر آلتی پالتی مار کر سفید لباس پہنے بیٹھا تھا۔ کوہِ نور اس کے بازو پر تھا۔ اس کی ایک آنکھ سے جو آگ جیسی چمک نکلتی تھی‘ ہیرا چمک میں اس سے کم نہ تھا‘‘۔
چالیس سال حکومت کرنے کے بعد رنجیت سنگھ مر گیا۔ اس کا پانچ سالہ بیٹا دلیپ سنگھ تخت نشین ہوا مگر پنجاب اب انگریزوں کے لیے تر نوالہ تھا۔ لارڈ ڈلہوزی نے فیصلہ کیا کہ دلیپ سنگھ خود لندن جائے اور ملکہ برطانیہ کی خدمت میں کوہِ نور پیش کرے۔ 1850ء سے اب تک کوہِ نور ملکہ کے تاج کی زینت ہے۔ کبھی کبھی بھارت سے کوئی آواز اٹھتی ہے کہ ہمارا ہیرا واپس کرو۔ دلیپ سنگھ کی ایک وارث فیملی بھی کوہِ نور پر ملکیت کا دعویٰ کرتی رہتی ہے۔
کوہِ نور کی آفتاب جیسی چمک اپنی جگہ‘ اس کی آسمان کو چھوتی قیمت بھی مسلمہ‘ مگر اس میں ایک وصف اور بھی ہے۔ علائو الدین خلجی سے لے کر دلیپ سنگھ تک اُس نے اپنے کسی مالک سے وفا نہیں کی۔ ہر مالک یہی سمجھتا رہا کہ وہ دنیا کا خوش قسمت ترین انسان ہے مگر موت جب بھی دروازے پر دستک دیتی کوہِ نور آنکھیں ماتھے پر رکھ لیتا اور کوئی نیا مالک تلاش کر لیتا۔ اگر ملکہ برطانیہ یا اس کی رعایا سمجھتی ہے کہ ہیرا انہی کے پاس رہے گا تو ایسا ممکن ہی نہیں! کوہِ نور جلد یا بدیر اپنا مالک بدل لے گا۔
تین چار دن پہلے آصف زرداری ٹیلی ویژن پر دکھائی دے رہے تھے۔ مائک ان کے سامنے صف باندھے تھے۔ بغل میں ایک معروف سیاستدان کھڑے فاتحانہ انداز میں یوں مسکرا رہے تھے جیسے دنیا کی چوٹی پر ایستادہ ہوں۔ آج سیاست کا کوہِ نور ان کی ملکیت میں ہے۔ مگر کیا خبر کل کس کے پاس ہو!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“