سیارے نیپچون کے بارے میں کچھ دلچسپ بات بتائیں؟
جواب: حسیب احمد، الیکٹرانکس انجینئر (2008ء تا عصر حاضر)
23 اپریل کو لکھا گیا
نیپچون کے بارے میں 10 دلچسپ باتیں:
1۔ نیپچون سب سے زیادہ دور دراز سیارہ ہے:
شاید یہ جملہ سننے میں کافی سادہ لگے، تاہم اصل میں یہ کافی پیچیدہ ہے۔ نیپچون کو جب پہلی بار 1846ء میں دریافت کیا گیا تھا، تو اس وقت یہ نظام شمسی میں سب سے زیادہ دور دراز سیارہ بن گیا تھا۔ تاہم 1930ء میں، پلوٹو دریافت ہوا، اور نیپچون دوسرا سب سے زیادہ دور دراز سیارہ بن گیا۔ تاہم پلوٹو کا مدار کافی بیضوی ہے؛ لہٰذا کافی دور ایسے آتے ہیں جب پلوٹو سورج سے نیپچون کے مقابلے میں زیادہ قریب مدار میں موجود ہوتا ہے۔ آخری بار ایسا 1979ء میں ہوا جو 1999ء تک جاری رہا۔ اس دوران، ایک بار پھر نیپچون سب سے دور دراز سیارہ تھا۔
2۔ نیپچون گیسی دیو میں سب سے چھوٹا ہے:
24,764 کلومیٹر کے استوائی قطر کے ساتھ، نیپچون نظام شمسی میں واقع دوسرے تمام گیسی دیو یعنی مشتری، زحل اور یورینس سے چھوٹا ہے۔ لیکن یہاں دلچسپ بات ہے:نیپچون یورینس سے لگ بھگ 18فیصد زیادہ ضخیم ہے۔ کیونکہ یہ چھوٹا لیکن زیادہ ضخامت کا حامل ہے، لہٰذا نیپچون کی کثافت یورینس سے کہیں زیادہ ہے۔ اصل میں 1.638 گرام فی مکعب سینٹی میٹر کے ساتھ، نیپچون ہمارے نظام شمسی میں کثیف ترین گیسی دیو ہے۔
3۔ نیپچون کی سطحی ثقل لگ بھگ زمین جیسی ہی ہے:
غالباً پتھریلے قلب کے ساتھ نیپچون گیس و برف کی گیند ہے۔ کوئی بھی ایسا طریقہ نہیں ہے کہ آپ ڈوبے بغیر نیپچون کی سطح پر کھڑے ہوسکیں۔ بہرحال، اگر آپ کسی طرح سے نیپچون کی سطح پر کھڑے ہوسکے، تو آپ عجیب و غریب چیزوں کو دیکھیں گے۔ آپ کو نیچے کھینچنے والی ثقلی قوت بعینہ اتنی ہی ہوگی جتنی آپ زمین پر چلتے ہوئے محسوس کرتے ہیں۔
4۔ نیپچون کی دریافت تاحال متنازعہ ہے:
سب سی پہلے نیپچون کو دیکھنے والا گلیلیو لگتا ہے، جس نے اپنے ایک خاکے میں اس کو ستارہ سمجھا۔ بہرحال، کیونکہ اس نے اس کو سیارے کی طرح شناخت نہیں کیا، لہٰذا اس کو اس کی دریافت کا سہرا نہیں دیا گیا۔ اس کا سہرا فرانسیسی ریاضی دان اربین لی وریری اور انگریز ریاضی دان جان کاؤچ ایڈمز کو گیا، ان دونوں نے یہ پیش گوئی کی کہ نیا سیارہ – جو سیارے ایکس سے جانا جاتا تھا – وہ آسمان کے ایک خاص حصے میں دریافت ہوگا۔
5۔ نیپچون کی نظام شمسی میں سب سے تیز ترین ہوائیں چلتی ہیں:
سوچیں سمندری طوفان ڈراؤنا ہوتا ہے نا؟ ایک ایسے طوفان کا تصور کیجئے جس کی رفتار 2,100 کلومیٹر فی گھنٹہ ہوا۔ آپ شاید سوچ سکتے ہیں کہ سائنس دان حیران ہوں گے کہ کس طرح سے نیپچون جیسا برفیلہ ٹھنڈا سیارہ اپنے بادلوں کو اتنی تیز حرکت دے سکتا ہے۔ ایک خیال تو یہ ہے کہ ٹھنڈا درجہ حرارت اور سیارے کی فضا سے نکلنے والی مائع گیسیں رگڑ کو اس نقطہ تک کم کردیتی ہوں گی جہاں تیز رفتار سے حرکت کرنے والی ہوا پیدا کرنا آسان ہوگا۔
6۔ نیپچون نظام شمسی میں سرد ترین سیارہ ہے:
بادلوں کی بلندی پر، نیپچون کا درجہ حرارت 51.7 کیلون، یا -221.45 ڈگری سیلسیس (-366.6 فارن ہائیٹ) تک گر جاتا ہے۔ یہ لگ بھگ زمین پر کبھی بھی درج ہونے والی کم سے کم درجہ حرارت (-89.2 سینٹی گریڈ ; -129فارن ہائیٹ) سے تین گنا زیادہ ہے، اس کا ملطب یہ ہے کہ ایک غیر محفوظ انسان سیکنڈوں کے اندر جم جائے گا! پلوٹو سرد ہوتے ہوئے کم سے کم 33 کیلون (-240 سینٹی گریڈ/-400 فارن ہائیٹ) درجہ تک گر جاتا ہے۔ لیکن ایک بار پھر، پلوٹو اب سیارہ نہیں رہا (یاد ہے نا؟)
7۔ نیپچون کے حلقے ہیں:
جب لوگ حلقوں والے نظام کے بارے میں سوچتے ہیں، عام طور پر زحل ہی دماغ میں آتا ہے۔ تاہم کیا یہ بات جان کر آپ حیران ہوں گے کہ نیپچون کے بھی حلقے کے نظام ہیں؟ بدقسمتی سے زحل کے زیادہ روشن، جلی حلقوں کے مقابلے میں ان کا مشاہدہ کافی مشکل ہے؛ یہی وجہ ہے کہ اسے اچھی طرح سے جانا نہیں گیا۔ کل ملا کر نیپچون کے پانچ حلقے ہیں، تمام کے تمام ان ماہرین فلکیات سے منسوب ہیں جنہوں نے نیپچون کے بارے میں اہم دریافتیں کیں – گیل، لی ویری، لیسل، اراگو، اور ایڈمز۔
8۔ غالباً نیپچون نے اپنا سب سے بڑا چاند:ٹرائیٹن مقید کیا ہے:
نیپچون کا سب سے بڑا چاند ٹرائیٹن، نیپچون کے گرد الٹا چکر لگاتا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہوا کہ سیارے کے گرد اس کا مدار نیپچون کے دوسرے چاندوں کے برعکس الٹا ہے۔ اس کو اس اشارے کے طور پر دیکھا جاتا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ نیپچون نے ٹرائیٹن کو قید کرلیا ہو – یعنی کہ یہ چاند نیپچون کے دیگر چاندوں کے پیدا ہونے کی جگہ پر نہیں پیدا ہوا۔ ٹرائیٹن نیپچون کے ساتھ ایک ہی شرح سے گردش کرتے ہوئے قید ہے، اور آہستگی کے ساتھ سیارے کے قریب لہراتا ہوا آرہا ہے۔
9۔ نیپچون کو قریب سے ایک ہی مرتبہ دیکھا گیا:
اب تک نیپچون کا جس واحد خلائی جہاز نے دورہ کیا ہے وہ ناسا کا وائیجر دوم خلائی جہاز ہے، جس نے نظام شمسی کے بڑے سفر کے دوران سیارے کا سفر کیا تھا۔ وائیجر دوم نیپچون کے قریب 25 اگست 1989ء کو اڑا، اور سیارے کے شمالی قطب سے 3,000 کلومیٹر کے اندر سے گزرا۔ وائیجر دوم کو جب سے زمین سے چھوڑا گیا یہ کسی بھی جسم کے پاس سے گزرنے کا قریب ترین نقطہ تھا۔
10۔ نیپچون کا دوبارہ مشاہدہ کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے:
وائیجر دوم سے حاصل کردہ حیران کن تصاویر ہمارے لئے دہائیوں تک کارآمد رہیں گی، کیونکہ نیپچون کے نظام تک واپس جانے کا کوئی مصدقہ منصوبہ نہیں ہے۔ بہرحال ایک ممکنہ پرچم بردار مہم کا تصور ناسا نے پیش کیا ہے جو 2020ء کے آخری عشرے یا 2030ء کے ابتدائی عشرے میں ہوگی۔ مثال کے طور پر 2003ء میں ناسا نے نیپچون جیسے ایک نئی کیسینی-ہائی گنز مہم کی طرح کی مہم کا عارضی منصوبے کا اعلان کیا ہے، جو نیپچون مدار گرد کہلائے گا۔
یہ تحریر اس لِنک سے لی گئی ہے۔