اللہ تبارک و تعالی' نے بھی کیا کمال کی دنیا بنائی ھے اس میں مستقل طور پر تبدیلیاں آتی رھتی ھیں ۔ ایک زمانہ تھا جب انسان ننگا تھا اس کے جسم کے ساتھ ساتھ خیالات احساسات جذبات بھی ننگے تھے ۔ جو کچھ تھا سامنے واضح اور حاضر تھا کچھ بھی غائب نہ تھا۔ نہ اعتراض نہ تعریف ۔ نہ حسد نہ فخر ۔ نہ خوبصورتی نہ بد صورتی ۔ ُنہ اچھائی نہ برائی نہ علم نہ جہالت ۔ نہ ذات نہ پات ۔ یہ وہ دور تھا جب انسان صرف انسان تھا اور اس کی بس یہی ایک ھی قسم تھی ۔
زمانہ آگے چلا ۔ دنیا میں تبدیلی آئی ۔ طاقت ور اور کمزور کا فرق شروع ھوا ساتھ ھی ساتھ طاقت کی من مانی بھی شروع ھو گئی ۔ اس کی خوشی اور خواہش مقدم ھوئیں ۔ یہ وہ وقت تھا جب کچھ کمزور طاقتور کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے اس کا ساتھ دینے لگے تا کہ اس کے پیٹ بھرنے کے بعد ھڈیوں پہ بچا کھچا گوشت ان کے پیٹ میں جائے۔ یہ تیسری قسم تھی جس میں انسان تقسیم ھوا ۔
اب زمانے نے ایک اور کروٹ لی ۔ انسان کی ایک اور قسم وجود میں آئی جس نے دیکھا کہ کمزور طاقتور سے ھار چکا ھے اور جسمانی اور روحانی طور پر اس کا غلام ھو چکاھے تو اس قسم کے لوگوں نے دو مخالف طاقتوں کے ساتھ اپنا علیحدہ علیحدہ گٹھ جوڑ کر لیا تاکہ اگر ایک طاقت بوجوہ ختم ھو بھی جائے تو اُن کے حلوے مانڈے پہ کوئی زک نہ آئے ۔
یہی وہ قسم ھے جس نے انسان اور انسانی رشتوں کو جو ابھی تک سادہ اور براہِ راست تھے پہلی نئی صنف "منافقت " سے رو شناس کیا
اب یہ وہ دور تھا جس میں انسان کے گنجھلدار دماغ کے بِل سے انواع و اقسام کے ھر دم نئے ول جھل نکلنے شروع ھوئے اور سیانے پن کا دور شروع ھوا جو ابھی تک نہ صرف جاری ھے بلکہ دن رات ترقی کی نئی منزلیں طئے کرتے ھوئے خود غرضی حرص تمّا اور لالچ کے آسمان کو چھونے لگا ھے۔
غالبا" اسی دور میں انسان نے تن ڈھانپنا شروع کیا اور اندر باھر سے مختلف ھوتا گیا۔ دل میں منافرت اور منہ پہ مسکراہٹ آ گئی۔ بغل میں چھری رکھ لی اور منہ سے رام رام کا ورد جاری کر دیا۔
وحشت نے کپڑے تو پہن لئے مگر شدت میں کمی نہ آئی البتہ اظہار کے ذرائع بہت سارے نکل آئے۔ خون اور گوشت کا چسکا لوٹ مار اور چھینا جھپٹی میں بدلا۔ سیانے لوگوں نے ان مقاصد کی تکمیل کیلئے نئے نئے انداز دریافت کئے۔
اس کے بعد انسانی تاریخ کے جتنے ادوار آئے ان میں اور تو کچھ خاص نہ ھوا بس اس آخری قِسم کی ترقی و ترویج کے۔ یا پھر اس کی ذیلی اقسام کا اجراء و ارتقاء ھوا۔ حاکم ھوئے رعایا ھوئے۔ وزیر ھوے مشیر ھوئے۔ چور ھوئے رسہ گیر ھوئے۔ باقی سب راہگیر ھوئے۔
حاکم نے دیکھا کہ کوئی اور طاقت پکڑ رھا ھے۔ کسی وقت مدِ مقابل آ سکتا ھے۔ اسے پہلے اپنا مقرب بنایا پھر اپنے جانثاروں کے ذریعے نثار کر دیا۔ یا اسے پہلوانِ اعظم قرار دیا پھر چھوٹے چھوٹے کئی پہلوانوں کے ذریعے اسے ذلیل کرا کے مار دیا۔
اسی طرح کسی نے موقعہ پا کر عیاش طاقت کی صفوں میں نقب لگائی اور تختہ الٹ دیا۔ خیر ! حکومت نے فیصلہ کیا کہ سڑکوں پہ چلنے کا معاوضہ وصول کیا جائے اس فیصلے کے پیچھے کوئی اور محرک ھو نہ ھو ٹھیکیدار ضرور ھےاور ٹھیکیدار تو بس ایک ھی ھوتا ھے باقی سب مستری مزدور اور گماشتے ھوتے ھیں۔ چنانچہ راستے میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر اینٹ ریت سیمنٹ لوہا شیشہ پلاسٹک کے ڈبے نما کمرے بنا کر رکاوٹیں ڈالی گئیں پھر ان میں گماشتے بٹھا کر راہ گیروں کو روک روک کر ان کی جیبیں خالی کرنے کے لئے اچھوتا طریقہ یہ نکالا گیا کہ پچیس روپے ٹھیکہ فکس کر دیا اور ساتھ ھی پانچ روپے کا نوٹ غائب کر دیا ۔ اب مسافر جو بھی رقم دیتے اس میں پانچ روپے کا مسئلہ ضرور ھوتا۔
اس گماشتے کے پاس پانچ کا سکہ رکھنے کی بجائے ایک ایک روپے والی ٹافیاں رکھ دی گئیں جو مسافر کو صرف ایک دی جاتی اور اگر وہ معترض ھوتا تو ایک اور تھما دی جاتی۔ اگر زیادہ واویلا کرتا تو پہلے مار پیٹ کی دھمکی پھر عملی جامہ پہنا دیا جاتا۔
ان حالات کو بزعم خود عزت دار راہگیروں نے دیکھا تو وہ ایک ٹافی بھی نہ لیتے اور چپکے سے نکل لیتے۔
اب چونکہ یہ صورتِ حال پورے ملک میں پھیلی ھوئی ھے تو پتہ نہیں کتنے ایسے ٹافی گھر بنے ھوں گے جہاں سے پتہ نہیں کتنی کاریں بسیں ٹرک گزرتے ھوں گے۔ اگر صرف ایک سیکشن لاھور راولپنڈی کی بات کی جائے اور صرف چار ٹافی گھر مان لئیے جائیں اور یہ کہ وھاں سے پچاس ھزار گاڑیاں گزرتی ھوں گی تو جہاں تک ھماری ریاضیاتی عقل کام کرتی ھے روزانہ پچاس ھزار ٹافیاں لگ جاتی ھوں گی اور کم از کم آٹھ لاکھ روپے کا علیحدہ سے ٹافی سرچارج سیانے لوگوں کی تحویل میں آجاتا ھو گا۔ اب رہا سوال پورے ملک میں اس طرح بکنے والی ٹافیوں کا اور مفت میں آنے والی رقم کا تو یہ زکی دادا ھی حساب لگا سکتے ھیں کہ وہ فیثاغورث اور سیزر کے ماھر ھیں۔
ویسے اگر خدا لگتی سے دیکھا جائے تو یہ سیانے لوگوں کا احسان ھے کہ اس مد میں صرف چار یا پانچ روپے فی کس وصول کرتے ھیں۔ وہ زیادہ بھی لے سکتے ھیں۔ دوسرا یہ کہ ٹافیوں کی فیکٹریاں چوبیس گھنٹے چلتی ھیں اور ترقی کا پہیہ گھومتا رہتا ھے۔ اور تیسری بات یہ ھے کہ انھیں پتہ ھے یہاں پر چھوٹے موٹے بہت سارے چور ھیں جو وقت بے وقت پبلک کو تنگ کرتے رھتے ھیں۔ ان سے محفوظ رکھنے کے لئیے دولت کا محفوظ ھاتھوں میں ھونا ضروری ھے۔ ایک تو خود ان کے پاس حفاظت کا وافر انتظام ھوتا ھے دوسرے یہ کہ مزید حفاظت کیلئے سوئٹزرلینڈ اور دیگر جنتی جزیروں میں موجود محفوظ ترین ھاتھوں کی مدد بھی لے سکتے ھیں۔
عام لوگ تو صرف گھڑوں میں ھی اپنی بچی کھچی بچت رکھ سکتے ھیں کیونکہ بینک میں رکھنے سے پھر سیانے لوگ ایک طرف ٹیکس کاٹ لیتے ھیں اور دوسری طرف پیسے رکھنے کا کرایہ علیحدہ سے لے لیتے ھیں۔ یہ الگ بات ھے کہ وھی سیانے لوگ اُن پیسوں سے اپنا اور کاروبار یعنی ٹافی فیکٹریاں چلا کر دولت میں کچھ اور اِضافہ کر لیتے ھیں۔
ان بینک والے سیانے حضرات کے گماشتے بھی کچھ کم سیانے نہیں ۔ پچاس ھزار کی رقم تھی۔ پانچ پانچ ھزار والے دس نوٹ تھے۔ سوچا چالیس بینک میں محفوظ کرا لیتے ھیں اور دس سے فی الحال گھرکا خرچہ چلاتے ھیں ۔ چنانچہ دو نوٹ جیب میں رکھ کے باقی آٹھ کیشئر کو دئے۔ اس نے تیزی سے گنے اور ھمیں بتایا یہ پینتیس ھزار ھیں۔ ھمارے تو طوطے اُڑ گئے۔ کہا آٹھ نوٹ تھے۔بولے سات ھیں اور ھمارے سامنے گنے بلکہ پاس رکھی مشین سے بھی گزارے۔ مشین نے بھی سات بتائے۔ ھم نے اپنی طرف سے سمجھانے کی کوشش کی لیکن ان کےاور ساتھی مدد کو پہنچے اور ھمیں ھی غلط قرار دے دیا۔ اور ھم نے اپنی غلطی تسلیم کر لی کیونکہ اب سب ھمارا مذاق اُڑانے لگے تھے کہ بابا بہت چالاک ھے۔ کہیں پیسے گم کر آیا ھے اور اب ان سے وصول کرنے کے چکر میں ھے۔
ھماری طرح کے ایک دوست نے بتایا کہ وہ بینک سے اپنی پینشن لے آیا اور گھر خرچہ کے لئے بیگم کو دےدئیے ۔ بیگم چونکہ کئی دھائیوں سے ان کے مزاج سے واقف تھی اس لئیے رقم کو گنا تو پانچ سو والی گڈی میں سے تین نوٹ غائب تھے۔ دوبارہ بینک گئے تو اُنھوں نے یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ یہیں بیٹھ کر گننا تھا نا۔
اس طرح اور کئی قسم کے سیانے پیدا ھو چکے ھیں جن سے روزمرہ کی زندگی میں ھمارا واسطہ رھتا ھے۔ دوکاندار سیانے سے ساڑھے چار سو کا سودا لیا ھزار کا نوٹ دیا تو اس نے نہایت بھولے پن سے پچاس روپے پکڑا دئیے۔ عرض کیا جناب نوٹ ھزار کا تھا تو لمبی سی اچھھھھھھا کہہ کر باقی پانچ سو بھی دے دئیے۔
پٹرول پمپ پے گئے اور اگر میٹر کو چیک نہیں کیا تو جہاں تک ھماری باری سے پہلے چل چکا تھا اس سے آگے چلا دیا یا پھر چالیس لٹر کی ٹینکی والی گاڑی میں جو چلتے ھوئے انجن کے ساتھ وھاں تک پہنچی تھی اور ایک دو بار پٹرول صاف نظر آ رھا تھا پورے چالیس لٹر ڈال دئیے۔
کچھ لوگ ذرہ نرالی قسم کے سیانے ھوتے ھیں۔ ملازم سے یا مزدور سے تنخواہ سے زیادہ کام لیں گے۔ اپنے سے کمتر سے ھاتھ نہیں ملائیں گے۔ چیزیں غیر اخلاقی حد تک مہنگی یا غیر معیاری بیچیں گے۔ اپنے ناجائز کام رشوت دے کر یا طاقت کے استعمال سےکرائیں گے۔ ھر عزت پہ بُری نظر رکھیں گے۔ لیکن ساتھ ساتھ اپنی اُسی ناجائز آمدنی سے حج و عمرہ باقائدگی سے کریں گے۔ مسجد تعمیر کریں گے جھوٹا سچا ٹرسٹ چلائیں گے۔ اور اس طرح امارت کے مزے بھی لوٹیں گے اور مزھب کے قریبی بہی خواہ بھی بن جائیں گے یعنی رند کے رند اور جنت کے حقدار بھی۔
علاوہ از ایں بہت سارے چھوٹے چھوٹے سیانے ھمارے ارد گرد ھر وقت موجود ھوتے ھیں۔ ان چھوٹے سیانوں کی حالت ذرہ گھٹیا سی محسوس ھوتی ھے۔ کبھی کم تولیں گے تو کبھی اچھا مال دکھا کر ناکارہ مال دے دیں گے۔ کبھی سو کا نوٹ لے کر اسے پچاس کا سمجھ لیں گے تو کبھی دو تین روپے واپس ھی نہیں کریں گے کہ چینج نہیں ھے۔ ایک کلو پہ چونسے کے چار آم چڑھیں گے تو ان میں سے کم از کم ایک کھانے کے قابل نہیں ھوگا۔ اپنی چالاکی پہ پکڑے جائیں تو ان کے پاس ھزار بہانے ھوتے ھیں اس لئیے چھوٹ جاتے ھیں۔
اس ساری صورتِ حال یا اور بیسیوں مثالوں کا مطلب یہ ھے کہ اس قسم کے معرض وجود آنے سے ایک فائدہ یہ ھو گیا ھے کہ انسان کی تقسیم میں کمی ھو گئی ھے اور اب صرف دو ھی قسمیں رہ گئی ھیں۔ جس رفتار سے لوگوں میں سیانا پن زیادہ ھوتا جا رھا ھے لگتا ھے یہ اور کم ھو کر صرف ایک ھی رہ جائے گی۔
https://www.facebook.com/groups/1698166303764695/permalink/1767698953478096/
“