یہ کمپیوٹر کے دور میں شروع ہوا تھا۔ مر جانے والوں کے پاسورڈ ان کے دماغ میں رہ جاتے ہیں جن تک رسائی نہیں ہو سکتی۔ ان کی فائلوں تک پہنچا نہیں جا سکتا تھا۔ کئی اہم فائلیں ہمیشہ کے لئے ضائع ہو جاتی تھیں۔ کاروبار بھی رک سکتے تھے۔ پروگرامر نے اس کا حل ایجاد کیا۔ یہ ایجاد سیاہ سوئچ تھے۔
پروگرام ہر ہفتے آپ سے پاسورڈ پوچھتا تھا۔ اس سے پتا لگ جاتا تھا کہ آپ ابھی زندہ ہیں۔ جب آپ ایک خاص مدت تک پاسورڈ نہیں ڈالتے تھے تو کمپیوٹر نتیجہ اخذ کرتا تھا کہ آپ چل بسے۔ آپ کا پاسورڈ سیکنڈ ان کمانڈ کو بھیج دیا جاتا تھا۔ اور یوں، یہ مسئلہ حل ہو گیا۔ اس ایجاد کو سیاہ سوئچ کا نام دیا گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب اس ایجاد کا علم ہوا تو لوگ اس کے نئے استعمال کرنے لگے۔ اس سے اپنے وارثوں کو سوئس اکاوٗنٹ کے نمبر دینے لگے، کسی نے دیرینہ بحث میں آخری فقرہ مخالف کو بھیجنے کے لئے استعمال کیا۔ کسی نے ان رازوں کے اعتراف کے لئے جو اپنی زندگی میں نہیں بتا سکتے تھے۔
اس بارے میں پتا لگ گیا کہ یہ سوئچ بڑے کام کی چیز ہے۔ اس سے آخری الوداع کے پیغام بھیجے جانے لگے۔ اپنے پرانے واقف کاروں اور دوستوں کو اپنے موت کی اطلاع بذریعہ ای میل دی جانے لگی۔ یہ پیغام “مجھے لگتا ہے کہ میں اب زندہ نہیں رہا” سے شروع ہوتا۔ “میں اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ سے وہ کہنا چاہتا ہوں جو تمام عمر نہیں کہہ پایا ۔۔۔۔۔۔ “۔
یہ پیغامات مستقبل کی تاریخوں میں بھیجے جانا بھی معلوم ہو گیا۔ “سالگرہ مبارک۔ مجھے فوت ہوئے بیس سال گزر گئے لیکن مجھے امید ہے کہ آپ ستاسی سال کی عمر میں خوش و خرم اور صحتمند ہوں گے”۔
وقت کے ساتھ اس سوئچ کا استعمال وسیع ہوتا گیا۔ لوگ اپنی موت کا اعتراف کرنے کے بجائے اسے چھپانے لگے۔ ایسے ظاہر کرنے لگے جیسے ابھی زندہ ہوں۔ ذہین الگورتھم کے ذریعے جوابات بھیجنے لگے۔ دعوت نامہ قبول کرنے سے معذرت، خوشی غمی پر پیغامات، اور کسی سے آئندہ ملنے کا وعدہ۔
زندہ ظاہر کرنے والے سیاہ سوئچ آرٹ بن گئے۔ ان کی پروگرامنگ کئی دلچسپ کام کرنے لگی۔ کبھی کسی کو خط لکھ دینا۔ کبھی بینک سے پیسے ایک اکاونٹ سے دوسرے میں منتقل کر دینا۔ کبھی آن لائن نیا آنے والا ناول خرید لینا۔ بہت اچھے الگورتھم دوستوں کے ساتھ پرانی یادیں، شرارتیں اور قصے بھی یاد کرتے تھے، آپس کے مذاق، شیخیاں اور گپیں۔
سیاہ سوئچ زندگی کی فنا کے ساتھ کیا جانے والا مذاق بن گئے۔ انسانوں نے دریافت کر لیا تھا کہ وہ موت کو کبھی نہیں روک سکتے لیکن کم از کم موت کے شربت میں تھوک تو سکتے ہیں۔ یہ قبر کی خاموشی کے خلاف بغاوت تھی۔
لیکن ان کے لئے مسئلہ ہونے لگ گیا جو زندہ تھے۔ ان کے لئے پہچان کرنے میں دِقت بڑھنے لگی کہ کون واقعی زندہ ہے اور کون نہیں۔ کمپیوٹر ہر وقت اپنے کام میں لگے رہتے۔ پروگرام ایک دوسرے سے بھی باتیں کرنے لگے۔ ایک مردہ دوسرے سے۔ ایک دوسرے کو مبارک بادیں، ان سے افسوس، دعوت نامے، فلرٹ، بہانے، علیک سلیک، آپس کے مذاق، بے تکلف گپ شپ۔
یہ واضح تھا کہ سوسائٹی کس سمت جا رہی ہے۔ زیادہ تر لوگ مر چکے تھے۔ ہم باقی بچ جانے والوں میں سے تھے۔ ہر ایک کے مرنے کے بعد سیاہ سوئچ آن ہو جاتا تھا۔ پیغامات جاری تھے، جنہیں پڑھنے والا کوئی نہیں تھا۔ ای میل لکھی جا رہی تھیں۔ ایک بے آواز سیارے کے گرد گردش کرتے خاموش سیٹلائیٹ بھی اس میں مدد کر رہے تھے۔
تعلقات کے جال، محبت، مقابلے، دھوکے، قہقہے، اور ان سب کی یادیں اس بڑے سوشل نیٹورک کے صفر اور ایک کے سمندروں میں سے معلوم کی جا سکتی تھی۔ سیاہ سوئچ معاشرے کو اور اس سیارے کی یادوں کو زندہ رکھے ہوئے تھے۔
کسی کو دلاسہ دینے والے، کسی کا حوصلہ بڑھانے والے، کسی سے جذبات کا اظہار کرنے والے الفاظ ۔۔۔ وہ سب جو اپنی وقت پر نہیں کہا، وہ بھی اس نیٹورک میں کہنا ممکن ہو گیا۔ صرف یہ کہ یہ سب محسوسات میں نہیں بدل سکتا تھا۔
یادیں اب اپنی دنیا میں بستی ہیں، ان کو بھلایا نہیں جاتا۔ بار بار دہرانے سے بھی کوئی تھکتا نہیں ہے۔ ہم اس صورتحال سے مطمئن ہیں۔ کیونکہ ہم اپنے گزرے وقت کے اچھے دنوں کے بارے میں بے تکان بول سکتے ہیں۔ شاید ہم یہی چاہتے ہیں۔ اس طرح خوش ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ نیا کر دینا، حالات کی رو میں بہنے کے بجائے اس دھارے کو بدل دینا، نئے تعلق قائم کرنا۔ بس اسی قسم کے چند ایک کام ہیں جو زندہ لوگ سے خاص ہیں۔
کہاں پر سیاہ سوئچ آن ہو چکے؟ یہ پہچاننا دشوار کام ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پسِ تحریر نوٹ نمبر ایک: یہ تمثیل ہے، اس کو literal نہ لیا جائے۔
پسِ تحریر نوٹ نمبر دو: نوٹ نمبر ایک کا اضافہ مجبوراْ کرنا پڑا ہے۔