زرنش کو باقی سواریوں کے ساتھ بس سے اتر کر اندھیرے میں پیدل سفر کرتے ہوئے لگ بھگ دو گھنٹے گزر چکے تھے۔ یہ پچیس نومبر کا ایک روشن دن تھا۔ زرنش ملتان میں ایک مشہور جامع میں دو روزہ انٹرنیشنل کانفرنس ختم کر کے ہنسی خوشی اپنی دوستوں سے وداع ہو کر ڈائوو بس سروس میں سوار ہوئی تھی۔ وہ خیالوں میں خوش تھی کہ کانفرنس میں اس کی پریزینٹیشن پر اسے توقع سے بڑھ کر پذیرائی ملی تھی۔ زرنش کا اپنے گھر والدین سے سیل فون پر لگاتار رابطہ تھا۔ اس کے بابا اسے بتا چکے تھے کہ پورے ملک میں بڑے بڑے شہروں کی ناکہ بندی شروع ہو چکی تھی۔ انسانیت اپنے قدیم جنوں کے اظہار پر تل چکی تھی۔۔۔ لہذا وہ ڈرے نہیں اور گھر رابطہ میں رہے۔ اس دن تک والدین، بہن بھائی، دوست، رشتہ دار اور زندگی زرنش کے لئے عام معنی رکھتے تھے۔
اسے صورتِ حال کی گھمبیرتا کا اندازہ اس وقت ہوا جب لگ بھگ تین گھنٹے کے سفر کے بعد بس کو سینکڑوں لٹھ برداروں نے ایک بڑے شہر سے باہر روک دیا۔ وہ ان کی شعلہ بار آنکہوں سے ان کے ارادوں کو بخوبی بھانپ سکتی تھی۔ بس کے ڈرائیور اور بس کی سفری میزبان نے مسافروں کو تسلی دی کہ سواریاں زیادہ فکر مند نہ ہوں۔ وہ انھیں محفوظ و مامون ان کی منزل تک لے جائیں گے۔ ڈرائیور نامعلوم دیہی رستوں سے، نہروں اور راجباہوں کے کناروں پر بس چلاتا رہا اور راستے میں آنے والے بڑے شہروں سے بچتا آگے بڑھتا رہا۔ دن کے تین بجے کے قریب وہ ایسے شہر کے در پر جا پہنچے جس شہر میں محبتوں اور صلح کل کی تبلیغ کرنے والا صوفی شاعر مدفون تھا۔ لیکن یہ کیا! اس شہر کے دروازے بھی ان پر بند کر دئیے گئے تھے۔ بسوں، ٹرکوں، کاروں اور باراتیوں سے بھری گاڑیوں کی لمبی قطاریں شہر سے باہر قید کر دی گئیں تھیں۔ وہیں زرنش کے سیل فون کی بیٹری بھی جواب دے گئی۔ گھر سے رابطہ ٹوٹنے پر۔۔۔ اس نے اپنے چہار سو اندھیرا پھیلتے دیکھا۔۔۔اس نے سورج کو سیاہ ہوتے دیکھا۔ خوف کی ایک بڑی لہر اس کی ریڑھ کی ہڈی سے ابھر کر سارے وجود میں پھیلتی اور جسم کو سرد کرتی چلی گئی۔ اسے اپنی سہیلیوں کے چہرے یاد آئے۔۔۔جن سے وہ صبح نو بجے جدا ہوئی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی
"وہ سب نہ جانے کن کن شہروں کے باہر اپنی اپنی بسوں میں قید خوف کی گرفت میں تڑپ رہی ہوں گی"؟
اسے جتنے بھی درود شریف یاد تھے وہ بد بدائے جا رہی تھی۔ لیکن یہ کیا؟
وہ لٹھ بردار بھی اسی درود کا ذکر بصورت نعروں کے کر رھے تھے۔
پھر انہوں نے درود شریف پڑھنے والوں پر ان کے اپنے ہی ملک کی زمین جہنم بنا ڈالی؟ لیکن وہ یہ سوچ کر تھوڑی مطمئن ہوئی کہ میرے درود کا ورد مجھے اپنے حفاظتی حصار میں رکھے گا۔
بس کا ڈرائیور تھا کہ ہار نہ ماننے والا۔ وہ بھی با آواز بلند ذکر و اذکار کرتا ہوا یوں لگ رہا تھا جیسے دیوتا جنگ طیش میں ہو! وہ پھر سے بس کو نامعلوم کچے پکے دیہی راستوں پر چلاتا آگے بڑھ گیا۔ ڈرائیور بس کو منزل تک پہنچا کر مسافروں سے کیا گیا وعدہ وفا کرنا چاہتا تھا۔ زرنش کسی مسافر سے سیل فون مستعار لے کر گھر فون کرنا چاہتی تھی۔۔۔پھر ڈر گئی۔۔۔وہ کسی پر ثابت نہیں کرنا چاہتی تھی کہ وہ کلیتاً بے وسیلہ ہو گئی ہے۔۔۔اور ایسا تاثر اس کے لئے نقصان دہ ہو سکتا تھا۔ وقفے وقفے سے بے جان فون کان سے لگا کر پر اعتماد آواز میں ایسے بولتی جیسے وہ بڑی بہادری سے گھر والوں کو تسلی دے رہی ہو۔ لیکن۔۔۔ کھو جانے کا خوف۔۔۔بے وجہ و بے وسیلہ ہو جانے کا غم۔۔۔ بے سمت ہو جانے کا احساس اسکی روح کو منجمد کئے جا رہا تھا۔
پھر شام ہو گئی۔ دیگر سواریوں کی مانند اسے بھی علم نہ تھا کہ وہ کس سمت جا رہی تھی۔ وہ دیکھ سکتی تھی، بس ڈرائیور پر بھی ویسا ہی جنوں طاری ہو چکا تھا جیسا لٹھ برداروں میں تھا۔۔۔ فرق اتنا تھا کہ لٹھ بردار منزلوں کی طرف جانے والے راستے بند کئے کھڑے تھے اور وہ مردِ حُر ہر طرح سے غچہ دے کر سواریوں کو منزل تک پہنچانا چاہتا تھا۔ وہ دیکھ سکتی تھی کہ اندھیرے اور اندیکھے راستے پر محض ایک معمولی سے غلطی بس کو کسی نہر یا کچے راستے کے کسی جانب گہرے کھڈوں میں گرا سکتی تھی۔ تمام مسافروں کو کچھ بھی کھائے لگ بھگ بارہ گھنٹے گزر چکے تھے۔
وہ اس سیاہ دن کو کبھی کبھی کرب و بلا کے دسویں سے جا ملاتی۔ تب بھی تو ایمان داروں نے ایمان والوں کو ھی بہوکے پیاسے ذبح کیا تھا۔
وہ سوچ رہی تھی۔ "کیا مجھے بھی بمعہ دیگران کسی ناکہ پر اہل ایمان کے ہاتہوں زندہ جلا دیا جائے گا"؟ اسے خوف کا ایک اور طرح کا جھٹکا تب لگا جب بس کسی گھنے جنگل سے گزر رھی تھی۔ یوں لگتا صدیوں پرانے درخت، آسمانوں کو چھوتے، خوشی کے نعرے لگاتے کوئی بھوت یا دیو تھے۔۔۔جو بس کو ہڑپ کرنے بھاگتے چلے آتے۔۔۔وہ دیکھ سکتی تھی کہ بس کی تیز روشنیاں ان عفریتوں کو قریب نہ آنے دے رہی تھیں۔
بہادر بس ڈرائیور کامیابی سے بس کو مطلوبہ منزل کے اتنا قریب لے گیا کہ شہر کوئی پندرہ یا اٹھارہ کلیومیٹر رہ گیا تھا۔ لیکن اب وہ بے بس ہو گیا۔ بڑی سڑک پر نعرے لگاتے لٹھ برداروں کا بہت بڑا اژدہام تھا۔ وہ سڑک پر آگ کے بڑے بڑے ناقابل عبور الاؤ جلا کر دہشت و وحشت کی علامتیں بنے کھڑے تھے۔ تب بس ڈرائیور نے ہار مان لی۔ شاید چودہ پندرہ گھنٹے لگاتار اتنی بڑی بس چلا کر اس کے اعصاب شل ہو چکے تھے۔ وہ بولا۔ "مجھے افسوس ھے میں آپ لوگوں کو بس ٹرمینل تک نہیں پہنچا سکا۔ مگر شہر یہاں سے محض پندرہ کلومیٹر دور ہے۔ اگر آپ لوگ بھوک، پیاس، خوف اور ایک درد ناک موت سے نجات چاہتے ہیں تو خاموشی سے پیدل چلتے جائیں۔ تسلی رکھیئے راستے میں کھانے پینے کو شاید کچھ مل جائے گا۔ میں آپ سب کی سلامتی کی دعا کروں گا"۔ وہ واقعی تھک چکا تھا۔ خشک حلق سے آتی آواز کو آنسوؤں نے بلکل بند کر دیا تھا۔
تھوڑے بحث مباحثہ کے بعد تمام مرد و زن و اطفال ڈرے سہمے بس سے نیچے اتر آئے۔
مگر یہ کیا! ان بلند آواز میں درود پڑہتے اور نعرے لگاتے جنون کے گھڑ سواروں نے انھیں آگے جانے سے روک دیا۔
زرنش جان گئی اس دن اس کے وطن پر کوئی حکومت نہ تھی۔۔۔ جیسے اس کا ملک یتیم ہو گیا ہو۔ اس کے ملک پر مستقل تاریکی کا راج قائم ہو گیا ہو۔
وہ انھیں بلند آواز میں درود شریف پڑھنے کا حکم دے رہے تھے۔ زرنش حیرت کے گڑھوں میں گرتی چلی گئی۔
کیا وہ مسلمانوں کو مسلمان بنا رہے تھے؟
خوف،دھشت، بے بسی، بے سامانی اور غم و اندوہ نے اس کی عقل کو ماؤف کر دیا۔ وہ مرنے کو تیار ہو گئی۔ چند ثانیے اسے راستے میں سکول بسوں میں بند روتے ہوئے بچے۔۔۔ جو تفریحی دوروں کے لئے نکلے ہوئے تھے۔۔۔یاد آئے۔ اسے رستوں میں مریضوں سمیت ٹریفک میں پھنسی ایمبولینسیں یاد آئیں۔ اسے بھوک و پیاس سے تڑپتے بچے، مرد، عورتیں، باراتی اور دولہوں کی بے بس گاڑیاں یاد آئیں۔ اسے دور دراز سے آئی سبزی کے لدے ٹرک یاد آئے۔
اور پھر وہ چیخ اٹھی! گلا پھاڑ پھاڑ کر رونے لگ گئی۔۔۔ اسے اپنی ماں، باپ اور بہن بھائیوں کے۔۔۔اس کے اپنے گم ہو جانے پر۔۔۔غم میں لتھڑے چہرے یاد آئے ۔۔۔اسے بچپن کی سہیلیاں۔۔۔کزنز۔۔۔کالج فیلوز اور اساتذہ یاد آئے۔۔۔اسے بہ دقت دن رات محنت کر کے ایم فل سوشیالوجی میں حاصل کی گئی ڈگری یاد آئی۔۔۔ اسے اپنے مستقبل کے سنہرے خواب یاد آئے۔ زرنش کو لگا جیسے اس کے گرد اس کے ملک کا ماحول نہ تھا۔ اس کے ارد گرد اس کے اپنے ھم وطن نہ تھے۔ اسے محسوس ہوا وہ اپنے ھم مذھبوں میں نہ تھی۔ شاید کوئی غیر دین کے لوگ چوہوں کی طرح خاموشی سے اندر گھسے اور ملک پر قابض ہو چکے تھے۔۔۔اسے یقین ہو چلا تھا وہ کبھی اپنے پیاروں کو نہ دیکھ سکے گی۔ تب ہی زرنش نے پھیپھڑوں کی پوری طاقت صرف کر کے اس اژدھام کے پیر نما قائد کو اسی انسان کا واسطہ دیا جس کا وہ درود پڑھ رہے تھے۔ وہ تاریکی سے الاؤ کی سرخ پیکار روشنی میں کچھ لمحے زرنش کا خشک چہرہ دیکھتا رہا۔ پھر اس نے انھیں الاؤ سے بچ کر ایک جانب سے آگے جانے کا اشارہ دے دیا۔ وہ سب کے ساتھ چل پڑی۔ راستے میں اسے زندگی اور زندہ رہنے کی قدر و منزلت اور اس سے جڑی ہر شے، ہر رشتے کی اہمیت روشنی کی لکیر بن کر اپنے پردہِ شعور پر نقوش بن کر ابھرتے محسوس ہوئے۔
وہ چلتی رہی۔۔۔چلتی رہی۔ کون کہاں قافلے سے جدا ہوا۔۔۔اسے علم نہ تھا۔ ۔وہ تو چلتی رہی۔ اسے گھر پہنچنا تھا۔ پھر رات کے کسی پچھلے پہر، جب اذانیں بلند ہوتی ہیں۔۔۔وہ اس گلی میں داخل ہو گئی، جس میں اس گھر تھا۔ اس گھر میں اس رات کوئی مذہب نہ تھا۔۔۔بس انسان تھے۔۔۔رنجور، مجبور، ایک فرد کے کھو جانے کے احساس تلے دبے بکھر چکے انسان۔ محلے داروں کے ساتھ باہر گلی میں بیٹھا باپ جس کی آنکھیں اندر دھنس چُکی تھیں، اس کی طرف بھاگا اور وہ چند قدم بھاگ کر اس کے بازوؤں میں گر کر بے ہوش ہو گئی۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...