یہ ستر کی دہائی کے اوائل کا زمانہ تھا جب میں سنٹرل ماڈل ہائی سکول لوئر مال لاہور میں چھٹی جماعت کا طالب علم تھا۔ سکول کے مین گیٹ کے ساتھ ہی آج بھی امام بارگاہ گامے شاہ کے داخلے کا مرکزی دروازہ ہے۔ وہ زمانہ ہر طرح کی دہشت گردی سے کوسوں دور امن و امان کا دور تھا۔ سو آج کل کسی جنگی چھاؤنی کا منظر پیش کرنے والے اس گیٹ کے ساتھ ان دنوں چرس بھرے سگریٹ اور کونڈی ڈنڈا لیے بھنگ گھوٹنے والے کچھ ملنگ لوگ آتے جاتے زائرین سے خیرات کی امید میں بیٹھے نظر آتے تھے۔ کبھی کبھارانہیں مست ملنگوں کے پاس خاک سے اٹی ہوئی زلفوں اور کٹے پھٹے احرام نما سیاہ لباس میں ایک مجذوب سا شخص بھی نظر آتا تھا۔ میں سکول سے واپس گھر جاتے ہوئے اکثر اس سیاہ پوش کے پاس کھڑا ہو کراس کی حرکات و سکنات کا طفلانہ سا جائزہ لیا کرتا تھا۔
اکثر اس کے پاس سگریٹ کی خالی ڈبیوں کے خولوں سے بھرا ہوا لفافہ پڑا رہتا تھا۔ وہ اس میں سے ایک ڈبی نکال کر اس کی تہیں کھولتا، اندر والے سفید حصے پر اشعار لکھتا اور گلے میں ڈالے ہوئے ایک میلے کچیلے تھیلے میں ڈال لیتا۔ سگریٹ کی ڈبیوں کے خولوں سے بنائے ہوئے وہ گتے ہی اس شخص کی نوٹ بک اور پرسنل ڈائری تھے۔ مجھے اس شخص کے پاس بیٹھے اور اس کے لکھے ہوئے وہ گتے دیکھنے کی بڑی خواہش تھی لیکن شاید اس کی ” خوفناک ” اور پراسرار حالت دیکھ کر زیادہ نزدیک جانے کا حوصلہ بھی نہیں پڑتا تھا۔ میں نہیں جانتا تھا کہ جس شخص کے اشعار میرے والد حضور شام کے وقت اپنی دوکان پر لگنے والی یاروں کی بیٹھک میں سنایا کرتے تھے، وہ انہی اشعار کا خالق ساغر صدیقی تھا۔
میں ساتویں جماعت میں پہنچا تو والد صاحب سے تعلیم کے ساتھ ساتھ دوکان پر فوٹو فریمنگ کا ہنر سیکھنے کا حکم مل گیا۔ اور یوں میں نے پہلے ہی روز میں نے اسی مجذوب ساغر صدیقی کو اپنے والد کی سرنگ جیسی لمبی دوکان کے آخری گوشے میں ان کیلیے بچھائی چادر پر گاؤ تکیہ لیے، لبوں میں سگریٹ لگائے سگریٹ کی ڈبیوں کے خولوں کے گتوں پر اشعار لکھتے دیکھا۔ مجھے یاد ہے کہ جب میرے والد نے مجھے ان سے متعارف کراتے ہوئے کہا کہ ” ساغر جی یہ میرا بیٹا ہے، اسے بھی کچھ لکھنا شکھنا سکھائیں”، تو وہ میرے چہرے پر نظریں گھاڑے دیکھتے رہے اور مجھے مجال نہ ہوئی کہ میں ان کی طرف آنکھ بھر کے دیکھ پاتا۔ انہوں نے میرے والد صاحب سے کہا، ” بابو جی ایک پرچی دو” ۔ میں ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ پرچی کا کیا مطلب ہو گا کہ میرے والد نے لوہے کے سیل بکس سے ایک روپے کا نوٹ نکالا اور ساغر صاحب کے ہاتھ میں تھما دیا۔
وہ اٹھے اور سامنے چائے کی دوکان سے ایک گلاس چائے، دو رس اور ایک کے ٹو سگریٹ کی ڈبی لا کر واپس تکیہ کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ روپے کی پرچی سے بچنے والی چونی انہوں نے میری طرف بڑھائی اور اشارے سے جیب میں ڈالنے کو کہا۔ اس سے پہلے کہ میں انکار کرتا یا چونی کا وہ سکہ ان سے لیتا میرے والد بولے” اوئے رکھ لا، درویشاں دا دتا ہویا برکت والا ہوندا اے”۔ ساغر صاحب نے سگریٹ کی ایک خالی ڈبی کے خول کو چیرا اور ڈبی کے الٹی طرف کےسفید حصے پر یہ دو اشعار لکھ کر میرے ہاتھ میں تھما دیے، جو میرے لیے کسی بھی مکتبہ عشق سے حاصل کردہ پہلا سبق ٹھہرے۔
فیض عالم کی رہگزاروں پر ۔۔۔۔ نقشِ پائے رسول ملتے ہیں
تتلیاں رحمتوں کی رقصاں ہیں ۔۔۔۔ جذب و مستی کے پھول کھلتے ہیں
وہ اکثر شام کے بعد ہماری دوکان کے اسی گوشے میں سڑکوں سے اکٹھی کی گئیں سگریٹوں کی خالی ڈبیوں کے ساتھ آ بیٹھتے تھے۔ لوہاری دروازہ میں واقع ہماری دوکان کی اوپری منزل پر شہرہ آفاق خطاط تاج الدین زریں رقم اور خورشید گوہر رقم کی مشہور بیٹھک کاتباں تھی۔ جہاں سارا دن نامور شعرا اور ادبی ہستیوں کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ اکثر وہ شعرا حضرات بھی نیچے دوکان پر ساغر صاحب کے پاس یٹھے رہتے۔ میں گواہ ہوں کہ شباب کیرانوی جیسے کئی فلمساز اور صہبا اکبر آبادی جیسے کئی شاعر ان سے گیت اور غزلیں لکھوا کر اپنے نام سے شائع کرتے تھے۔ یہ میری خوش قسمتی تھی کہ مجھے دو تین برس مختصر سے عرصہ کیلئے ان کی صحبت میسر رہی۔ میرے والد حضور بھی اردو ، پنجابی اور کشمیری زبان کے اعلی پائے کے شاعر تھے۔
لہذا ساغر صاحب جو بھی لکھ کر دیتے میں اسے سمجھنے کیلئے والد صاحب کا سر کھاتا رہتا۔ ساغر صاحب کی کبھی سمجھ آنے اور کبھی نہ آنے والے انداز میں بتائے گئے شاعری کے علم العروض کے کچھ نکات اور دو چار بحریں ہی سیکھ پایا تھا کہ وہ اس جہان فانی سے چل بسے۔ ان کی موت مجھ سمیت ان کے بہت سے پرستاروں کیلئے بڑی ہی تکلیف اور دکھ کا باعث تھی۔ ساغر صدیقی کے انتقال کے بعد ساغر میموریل سوسائٹی بنی اور میرے والد نے ان ادبی احباب کی درخواست پر ساغر سے جڑی کچھ یادیں، جن میں ان کے سیاہ احرام، رنگ برنگے کپڑوں کے ٹکروں سے سلی ہویی دو گودڑیاں، پیتل اور تانبے کی کچھ انگوٹھیاں اور نگینوں سے سجے پتھر کے چند کاسے ان کی خدمت میں پیش کر دیے۔
گزشتہ برس حسن نثار کے کالم میں ساغر صدیقی صاحب کا ذکر دیکھا۔ تو مجھے ساغر صاحب کی خدمت میں حاضر ہونے والے وہ نام نہاد شعرا یاد آ گئے جو ساغر صاحب کو سگریٹ کی ڈبیاں اور چرس کی ڈلیاں دیکرغزلیں لکھوا کر اپنے نام سے شائع کروا کے عظیم شاعر کہلوائے۔ خود کو دنیائے صحافت کا عظیم صحافی سمجھنے والے صاحبِ میخانہ حسن نثار صاحب لکھتے ہیں کہ،
“۔۔ “عشروں پہلے لاہور میں ایک بھوکا ننگا مجذوب شاعر کملی پہنے قریہ قریہ آوارہ پھرا کرتا تھا ۔ کسی نے روٹی دی… کھا لی، چرس دی…. پی لی ۔ ۔ ۔ ۔ گالی دی ۔۔ لے لی ۔ ۔ غرضیکہ ہر اعتبار سے” واجب القتل” تھا ۔۔ لیکن فتوے سے اس لیے بچا رہا کہ ہر قسم کے سوداگروں کے لیے بے ضرر تھا۔ ۔ اس شاعر خانہ خراب کا نام تھا ساغر صدیقی ۔ کیا عجیب کامبینیشن ہے ایک طرف ساغر دوسری طرف صدیقی ۔ اسی ساغر کے اس شعر پرغور کریں ” آؤ اک سجدہ کریں عالم مدہوشی میں ۔۔ لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں “۔
حسن نثار صاحب اگر اپنے ماضی پر نظر دوڑائیں تو شاید انہیں یاد آ جائے گا کہ وہ صرف دو عشرے پہلے حضور لنڈے کا کوٹ پہنے مفلر سے ناک صاف کیا کرتے تھے۔ کبھی آپ بھی حامد میر کے والد گرامی وارث میر صاحب کا بیگ تھامے ذاتی خدمتگار کی طرح پیچھے چلتے دکائی دیتے تھے۔ ساغر مفلوک الحالی کے جرم میں “واجب القتل” تھا، ہاتھ میں کاسہء فقر لئے دریوزہ گری کرتا رہا مگر وہ سامراجی غلاموں کا غیرت فروش بھکاری نہیں بنا۔ ساغر صدیقی کے اعزاز میں ٹارگٹ کلر اور بھتہ خور مافیوں نے موسیقی کی شامیں منعقد نہیں کیں۔
ساغر ایک پراگندا طبع سیاہ پوش مجذوب ضرور تھا لیکن اس نے اٹالین سوٹ برانڈ خوش پوش مسخرے حسن نثار کی طرح قرآن و حدیث اور شان رسالت مآب کے حوالے سے کبھی گستاخانہ باتیں یا اسلامی اقدار و شعائر کے بارے ہرزہ سرائی کر کے لوگوں سے لعنتیں نہیں سمیٹیں۔ ساغر صدیقی نے اوروں سے ملی چرس اور چائے پی، مداحوں سے روٹی ضرور کھائی مگر حسن نثار کی طرح مجید نظامی جیسے معزز صحافی کو گالی دیکر خواجہ فرخ سے سٹیج پر سرعام طمانچے نہیں کھائے۔ یہ بھی کسی لطیفے سے کم نہیں کہ شاعری کے بنیادی اصولوں سے ناواقف شخص، علامہ اقبال کو شاعر مشرق کے نام سے پکارے جانے پر چاند پر تھوکتا اور ساغر صدیقی جیسے سخنور کی فقیرانہ زندگی کا حوالہ دیکر عامیانہ انداز میں جغت بازی کر رہا ہے۔
حسن نثار صاحب لکھتے ہیں کہ۔۔۔
۔”لوگ واقعی بڑے ظالم ہوتے ہیں کہ اپنے اپنے ظالموں کو کندھوں پہ اٹھائے پھرتے ہیں۔ اور روشنی تقسیم کرنے والوں کو اندھیروں کے سپرد کر دیتے ہیں۔ اسی ساغر صدیقی نے لکھا تھا۔۔ جس شہر میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی ۔۔ اس شہر کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے۔ لیکن ہمارے سلطان تو براہِ راست خود لوٹتے ہیں، سرکاری طور پر لوٹتے ہیں ۔۔ دن دیہاڑے لوٹتے ہیں ” ۔۔۔۔
مسٹر حسن نثار آپ عالمیت اور دانشوری کا دعوی تو کرتے ہیں لیکن آپ ساغر صدیقی کا یہ شہرہ آفاق شعر بھی درست نہیں لکھ سکے۔ شعر کا غلط لکھا جانا کوئی بڑی بات نہیں لیکن آپ کی طرف سے اکثر و بیشتر یا تو دوسروں کے اشعار غلط لکھے جاتے ہیں یا خود آپ کے اشعار بحر سے خارج اور بے وزن ہوتے ہیں۔ اور یہی آپ کے جاہل ہونے کی علامت ہے۔ یاد رہے کچھ لوگوں نے اس شعر کے دونوں مصرعوں میں “عہد” لکھا ہے، لیکن “شہر” کا ذکر کسی بھی دیوان، کلیات یا کتاب میں موجود ہی نہیں۔ میری تحقیق کے مطابق اصل شعر کچھ یوں ہے ۔۔۔۔جس دورمیں لٹ جائے فقیروں کی کمائی ۔۔۔۔ اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے
اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ آپ جیسا ڈبل فیس ہی ظالموں کو کندھوں پر اٹھانے کی بات کر رہا ہے۔ خواص و عوام گواہ ہیں کہ وہ کراچی کا ظالم بھتہ خور مافیہ ہو یا گستاخانہ حملے کرنے لوگ، ان کا پہلا حلیف حسن نثار ہوتا ہے۔ وہ آپ ہی ہیں جو کبھی ظالموں کے نظریات اپنے کاندھوں پر اٹھائے پھرتے اور کبھی خود ان کے کندھوں پر بیٹھے اپنی عقل کل پر ماتم کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کچھ تعجب نہیں کہ آپ کو بے تحاشہ پی کر یہ سب کچھ لکھنے وقت ذرا برابر شرم محسوس نہیں ہوئی ہو گی۔ لیکن قارئین کے ذوق مطالعہ کیلئے اس شعر کا پس منظر لکھ رہا ہوں۔
ساغر صاحب نے ایوب دور کے اوائل میں ” کیا ہے صبر جو ہم نے، ہمیں ایوب ملا ” کے مرکزی مصرع کے ساتھ ایک نظم لکھی تھی۔ یہ نظم ایوب خان کی نظر سے گزری تو اس نے ساغر صدیقی سے ملنے کی خواہش کی ۔ اداروں اور افسر شاہی نے ساغر کی تلاش میں اندرون شہر کا رخ کیا تو اندرون لوہاری گیٹ میں مشہور حاجی نہاری والے کی دوکان کے سامنے پان فروش کے تھڑے پر بیٹھے ساغر صاحب ان کے ہتھے چڑھ گیے۔ اہلکاروں نے ساغر کو بتایا کہ صدر نے انہیں گورنر ہاؤس بلوایا تو ساغر صدیقی نے کھرا جواب دیا تھا کہ کہ ہم فقیروں کا بادشاہوں سے کوئی لینا دینا نہیں۔ صدر مجھے کیا دیں گے،صرف یہی دو چار سو روپے، مگر فقیروں کی قیمت اس سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ اہلکاروں کے مذید اسرار پر ساغر نے سڑک پر پڑی سگریٹ کی خالی ڈبی اٹھا کر کھولی اور اس کےاندر کے سفید حصے پر یہ شعر لکھا ۔ ۔ ۔ ہم سمجھتے ہیں ذوقِ سلطانی ۔۔۔۔ یہ کھلونوں سے بہل جاتا ہے
یہ شاعرانہ جواب صدر ایوب خان سے زیادہ گورنر نواب آف کالا باغ امیر محمد خان کو ناگوار گذرا تو۔ مگر انہوں نے اگلے روز جو ٹیم روانہ کی جو بصد کوش تمام پھر ساغر کی بجائے ایک اور سگریٹ کی ڈبی پر لکھا ہوا وہ شعر ساتھ لے گئی جو آپ نے ہمیشہ کی طرح اپنے عالمانہ نشے میں غلط لکھ دیا ہے۔ یاد رکھیں کہ ساغر صاحب آپ جیسے ضمیر فروش اور زرد صحافت کے قلم کاروں کی طرح کبھی بھی کسی مسند نشین یا سامراجی گماشتوں کی قدم بوسی کیلئے محلات شاہی کے ضمیر فروش مہمان نہیں بنے۔
ساغر نے فقیری یا بھیک میں چرس کی ڈلیاں اور کالے لباس کی چادریں لیں مگر اس غیرت مند مجذوب نے غدارین امت کی طرح اپنے مغربی آقاؤں کے سفارت خانوں سے کینالی کے اٹالین سوٹ اور ولائتی شراب کی پیٹیاں، محلات شاہی کی گداگری سے ایکڑوں کے پلاٹ اور سیاسی بلیک میلنگ سے کروڑوں ڈالروں کی بخششیں اکٹھی نہیں کیں۔ کچھ دوستوں کیلئے ساغر صدیقی بظاہر ایک نشئی اور متنازعہ وضع قطع و پراگندا طبع رکھنے والا میلا کچیلا شخص سہی، مگر میری نظر میں وہ ایک صاحب علم سخن ور، پیغمبرِ حق صلی اللہ علیہ وسلم کا عاشق، اکابرین ملت کا ادب کرنے والا مجذوب قلندر تھا۔ بحرحال حسن نثار جیسے احمق دین دشمن ” دانشور” کی طرح بندہء یروشلم، دہلی و جالندھر نہیں تھا۔
وہ سید علی ہجویری رحمۃاللہ علیہ کے مزار کے سامنے پائیلٹ ہوٹل کے فٹ پاتھ پر خون اگلتا ہوا اس جہان فانی سے رخصت ہوا۔ لیکن کون جانے کہ آپ ارب پتی خوش پوش نیویارک یا لندن کے کسی مہنگے ترین ہسپتال میں نشانہء قضا بنیں یا پھر اپنے آقاؤں کی طرح برس ہا برس بستر مرگ پر ایڑیاں رگڑتے رہیں۔ میں دعا گو ہوں کہ اللہ آپ کو ہدایت دے اور آپ اسلامی اقدار اور نظریات حق کے بارے اول فول لکھنے سے توبہ کر لیں۔
کاش آپ کبھی نصرت فتح علی کی آواز میں ساغرصدیقی کا یہ عاشقانہ کلام دل کے بند دروازے کھول کرسنیں تو آپ نبی ء آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم اور دین حق کے روشن نظریات کے بارے ہرزہ سرائی کرنے سے باز آ جائیں۔
بزم کونین سجانے کیلے آپ آئے ۔۔۔ شمعِ توحید جلانے کے لیے آپ آۓ