2019 سائینسی خصوصاً فلکیاتی حلقوں میں اس لحاظ سے اہم ہے کہ پچھلے کئی دہائیوں سے فلکیات دانوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلنے والے سیاہ فام کائناتی یعنی بلیک ھول کیمرے کی آنکھ میں قید کر لیے گئے
یوں دہائیوں کی آنکھ مچولی اپنے انتہا کو پہنچی۔۔۔۔۔۔
اس خبر کے ساتھ ہی عام حلقوں میں یہ چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔۔۔
فلکیاتدان تو کہتے ہیں کہ بلیک ہول روشنی کو بھی فرار یا منعکس ہونے کا موقع نہیں دیتے اور یہ بھی کہتے ہیں کہ ہماری یا ہمارے کیمروں اور دوربینوں کی آنکھیں دیکھنے کے لیے روشنی کی محتاج ہیں تو پھر بلیک ھول کی تصویر کشی کیونکر ممکن ہوئی؟
جناب!!! سائنسدان نہ دیوانے ہوتے ہیں اور نہ ہی اُنکی باتیں دیوانے کے خواب۔۔۔
اور نہ ہی ان پر شاعرانہ وجد طاری ہونے پر خود بخود بننے والے شعروں کے جیسا دریافتوں کا نزول ہوتا ہے۔۔۔۔
انہیں بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں، کوئی فرشتہ مدد کو آتا ہے اور نہ ہی کوئی جن ان کے قابو میں ہوتا ہے، بیچارے جو کچھ ایجاد یا دریافت کرتے ہیں، بس اپنی عقل کے بل بوتے پر کرتے ہیں۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئیے بلیک ہول کی تصویر کشی کی طویل تر کوششوں کی داستان حیرت سنئیے، جو کسی بھی داستان سے کم دل چسپ نہیں۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ سچ ہے کہ ہم دیکھنے کے لیے روشنی کے محتاج ہیں اور بلیک ہول روشنی کو منعکس ہونے کا موقع نہیں دیتے
اسی بنیاد پر اکثر سائنسدانوں نے اپنا فیصلہ سنا دیا تھا کہ بلیک ھول کو دیکھنا یا اُنکی تصویر لینا ممکن نہیں
مگر کچھ ناسا کے زیر سایہ موجود پر عزم اور جوشیلے سائنسدانوں نے ہمت نہ ہاری۔۔۔ اور جوئے شیر لانے سے بھی کہیں زیادہ مشکل کام کا بیڑا اٹھایا اور شب و روز اس کی تکمیل میں صرف کرنے لگے۔۔۔
آخرکار اُن کی محنتیں رنگ لانے لگیں
تقریباً ایک دہائی سے بھی زیادہ مدت تک کی ریاضتوں کے دوران انہوں نے ریڈیو فلکیات کو بہتر سے بہترین بنا دیا اور اُسے بلیک ھول کی تاریک شکل و صورت کا پتہ لگانے کے لیے استعمال کیا
ان سیاہ رو کائناتی بلاؤں کے بارے میں جاننے کے لیے ماہر ریاضی دانوں، فلکیات دانوں اور کمپیوٹر سائنسدانوں نے مل کر کام کیا۔۔۔
بلیک ہولز کو سمجھنے کے لیے آپکو اپنی ریاضی کی مہارتوں کو تیز کرنا ہوگا، کشش ثقل اور اسکے اثرات اور کائنات کی متحرک نوعیت سے بھی آگاہی حاصل کرنی ہوگی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انہوں نے کیسے ناممکن کو ممکن کیا؟
ان ماہرین نے اس کام کے آغاز کے کچھ عرصہ بعد یہ دعویٰ کر دیا تھا کہ وہ بلیک ہولز کے گرد چکراتي اور چمکتی گیسوں کی مدد سے بلیک ہولز کے سیاہ روپ کی تصویر کشی کر سکتے ہیں۔۔
مگر اتنے طویل فاصلوں پر موجود چمکتی گیسوں کی مدد سے ہی سہی تصویر لینا ایک بہت بڑا چیلنج تھا، کیونکہ ماہرین کے مطابق ان کی تصویر کشی کے لیے زمین کے قطر جتنی بڑی ٹیلیسکوپ چاہیے ہوگی۔۔۔۔
اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے انہوں نے سینکڑوں دوربینوں کا ایک پورا نیٹ ورک تشکیل دیا
جسے ایونٹ ہوریزون ٹیلیسکوپ کہتے ہیں اور اختصار کے ساتھ EHT بھی۔۔۔
وہ ایک ایسی تکنیک کو بنیاد بنا کر تصویر کھینچنے نکلے جسے ” ویری لانگ بیس لائن انٹرفیرومیٹر ی” کہتے ہیں مختصراً VLBI کہہ سکتے ہیں۔۔۔
دور کی چیزیں دیکھنے کے لیے ہر قسم کی دوربینیں استعمال ہوتی ہیں یہ تکنیک کہتی ہے،۔دوربین کا قطر جتنا بڑا ہوگا وُہ اتنی زیادہ روشنیوں کو جمع کرے گی۔۔۔
اس ڈیٹا سے حاصل کردہ امیجز کی ریزولیشن اتنی ہی زیادہ ہوگی
کائنات کی وُہ اشیاء جو ہم سے دور دراز کائناتی گوشوں میں موجود ہیں وُہ نہایت چھوٹی اور مدھم نظر آتی ہیں
ان کی ہائی ریزولیوشن امیجنگ کے لیے ہمیں زیادہ روشنی جمع کرنے کی ضرورت ہے
اس کے لیے ہمیں ایک بہت بڑے Aperture والی ٹیلیسکوپ چاہیے ہوگی
اس لیے ان دور دراز اشیاء کی تصویر کشی کے لیے اس تکنیک کو اپنایا اور بہتر بنایا گیا
وی ایل بی آئی تکنیک میں سیکڑوں چھوٹی دوربینوں کو ایک ہی وقت میں اور ایک ہی چیز پر فوکس کیا جاتا ہے
اس طریقہ سے ایک بہت بڑی جسامت والی virtual ٹیلیسکوپ جیسی صلاحیت حاصل ہوتی ہے
یہ تکنیک اسپیس کرافٹس اور کوسمک ریڈیو سورسز (جیسے كوئزار) کا سراغ لگانے میں استعمال ہوتی ہے۔۔۔
اس معاملے میں اس تکنیک کا بہترین انداز میں استعمال ہوا ہے
سیکڑوں دور بینوں کے دو اسٹیشن بنائے گئے ایک قطب جنوبی تو دوسرا سپین میں بنایا گیا
دونوں اسٹیشنز کی دور بینوں کو ایک ہی وقت میں ایک ہی چیز پر فوکس کیا گیا تو ایک ایسی دیوہیکل ورچوئل ٹیلیسکوپ کی تشکیل ہوگئ جسکا ڈایا میٹر سیارہ زمین کے ڈایا میٹر کے برابر ہے
ان تمام دوربینوں کا اجتماعی ڈیٹا ایک مرکزی مقام پر لایا جاتا ہے اور پھر ایک ہائی ریزولیوشن امیج میں کنورٹ کیا جاتا ہے
دور بنیں جتنی زیادہ اور جتنے وسیع احاطے میں ہوں گی امیجنگ کوالٹی اتنی ہی معیاری ہوگی
بلیک ہول امیجنگ کے لیے دو اہداف مقرر کیے گئے جو اپنی اپنی جگہ پر نئے چیلنج تھے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلا ہدف اپنی کہکشاں کا مرکزی بلیک ہول تھا
زمین اس سے 26000نوری سال (156کواڈریلین میل) دوری پر ہے۔۔۔
ہماری کہکشاں میں اکیلا یہی بلیک ھول نہیں ہے۔۔۔۔ہماری گلیکسی میں لاکھوں بلیک ہولز ہیں اسے ہدف بنانے کی وجہ یہ تھی کہ ملکی وے کے تمام بلیک ہولز میں یہ سب سے بڑا ہے صرف یہی بلیک ھول زمین سے بڑا دکھائی دے سکتا ہے۔۔۔
یہاں ایک بڑی دقت یہ تھی کہ زمین سے اس کے براہ راست مشاہدہ والا راستہ روشنیوں دھول اور گیسوں کے کثیف بادلوں سے بھرا ہوا ہے۔۔۔
اسے دیکھنے کے لیے ان بادلوں کے آر پار دیکھنے کی صلاحیت کی ضرورت تھی
اس کے باوجود ٹیم نے اسے اپنے دو اہداف میں ایک طور پر منتخب کیا
مگر فی الحال اس کی کوئی خاطر خواہ امیجنگ نہیں کی جا سکی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرا ہدف M 87 نامی بلیک ھول تھا، یہ معلوم بڑے بلیک ہولز میں سب سے بڑا ہے، یہ عظیم بیضوی کہکشاں Messier 87 کا مرکزی بلیک ھول ہے یہ ملکی وے کے مرکزی بلیک ھول سے بھی بڑا ہے
یہ 53ملین نوری سال دور ہے۔
یہ 5۔6بلین سولر ماسیز کے برابر میٹیریل کا حامل ہے اور ملکی وے کا مرکزی بلیک ھول 4ملین سولر ماس کے برابر مادے پر مشتمل ہے۔۔۔
(ایک سولر ماس سورج کے ماس کے برابر ہوتا ہے جو کہ 30^10×2 کلو گرام ہے)
یہ بات بھی ماہرین کی دلچسپی کا سبب بن رہی تھی کہ یہ ملکی وے کے بلیک ہول کے برعکس ایک فعال بلیک ہول ہے
اس میں گرنے والے مادہ کا کچھ حصہ ذرات صورت میں خارج ہوکر دور خلاؤں میں روشنی کی رفتار سے بکھر جاتا ہے
اسقدر دوری کے سبب اس کی تصویر کشی پہلے ہدف سے زیادہ مشکل تھی
ای ایچ ٹی کے کپیوٹر سائنسدان کیٹی بومن نے اس تصویر کشی میں مرکزی کردار نبھایا ہے
بومن کہتے ہیں
اسکی تصویر کشی اتنی مشکل تھی جیسے چاند پر رکھے ہوئے سنگترے کی زمین پر کھڑے ہوکر تصویر لینا مشکل ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
2017تک دنیا بھر کی آٹھ جگہوں پر موجود سینکڑوں ٹیلیسکوپس EHT ارے کا حصہ بن چکی تھیں، بعد میں مزید جگہیں بھی شامل کی گئیں،۔
پہلی تصویر
Making up one piece of the EHT array of telescopes, the Atacama Large Millimeter/submillimeter Array (ALMA) in Chile has 66 high-precision antennas. Image credit: NRAO/AUI/NSF
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ای ایچ ٹی کے کام کی ابتدا سے پہلے ایسے دنوں کو منتخب کرنا تھا جن کا موسم مشاہدات کے لیے سازگار ہو
اپریل 2017 میں اچھے موسم کے لئے چنے گئے 10 دنوں میں سے 4دن ایسے تھے جن میں ان تمام جگہوں کا موسم بالکل صاف تھا
ہر دوربین کو GPS ٹائم سٹینڈرڈ پر لاک ایٹمی کلاکس کا استعمال کرتے ہوئے انتہائی درست ترین وقت میں ہم آہنگ کیا گیا۔۔۔
دوربینوں کو ایک ملی میٹر کے ایک حصے کے اندر ہی ایک دوسرے سے مطابقت پزیر کیا گیا،،
اس درجہ درست طریقہ کار کی وجہ سے EHT ہبل ٹیلیسکوپ سے 4000گنا زیادہ بہتر طریقے سے کام کرتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر دوربین نے ایک ہی وقت میں M 87کا مشاہدہ کر کے ڈیٹا جمع کیا،
پھر ان کا مشترکہ ڈیٹا ایک مرکزی مقام تک پہنچایا گیا، ڈیٹا کی مقدار تقریباً 5 پیٹا بائٹس تھی، تمام 8جگہوں سے وصول شدہ ڈیٹا کو ٹائم سٹیمپس کو استعمال میں لاتے ہوئے ہم آہنگ کیا گیا۔۔۔ پھر تمام ڈیٹا کو جوڑ کر تصاویر کا ایک مکمل سیٹ بنایا گیا
پھر تصاویر کو مختلف مراحل سے گزارتے ہوئے پہلی بار کسی بلیک ہول کے ایونٹ ہورائزن کے سیاہ حصے کو ظاہر کیا گیا
پھر EHT میں مزید دوربینیں شامل کر کے مزید ہائی ریزولیوشن کی تصاویر لینے کی کوششیں کی گئیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
2019 میں اعلیٰ کوالٹی کی تصویر کشی کے بعد بھی ماہرین کہتے ہیں
ہم چاہے جتنی اعلی درجے کی اور واضح تصویر لے لیں ہمیں بڑی دیر ہے ایسی تصویر لینے میں جیسی تصویر کیٹی بومن نے ” امیجنگ آف اے بلیک ہول” میں تحریری انداز میں پیش کی ہے۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نتائج میں مزید بہتری کے لیے ناسا کے کئی اسپیس کرافٹس EHT ٹیم کا حصہ بن کر روشنی کی مختلف طول موج میں اس بلیک ہول کا مشاہدات کرتے رہے۔۔۔
ایونٹ ہوریزون ٹیلیسکوپ کے دیگر معاونین
ناسا کی چندرا ایکسرے آبزر ویٹری، نیو کلیئر سپیکٹرو سکوپک ٹیلیسکوپ ارے (NuSTAR), نیل گیرلز سوئفٹ آبزرویٹری اسپیس ٹیلیسکوپ مشنز کو ایکسرے لائیٹ کی مختلف ورائٹیز کو ڈٹیکٹ کرنے کے لئے ڈیزائن کیا گیا۔۔۔
اپریل 2017 میں جب مصروف عمل تھی تو اس دوران ناسا کی فرمی گامارے ٹیلیسکوپ بھی M 87 سے نکلنے والی گاما رے روشنیوں کا گہرا مشاہدہ کرنے میں مگن تھی۔۔۔
ناسا کا ماننا ہے کہ اتنی تگ و تاز کے باوجود ہم ابھی تک بلیک ھول کی کوئی تاریخ ساز تصویر نہیں لے سکے۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری تصویر
ایم 87 گیلکسی کے مرکز کا کلوز اپ
تصویری کریڈٹ: چندرا ایکسرے آبزرویٹری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیسری تصویر:
ایک ایکٹو بلیک ہول کی خیالی تصویر جس کے چاروں طرف گیسوں کی گھومتی ہوئی ڈسک ہے
تصویری کریڈٹ: ای ایس او
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معلومات کا ذریعہ
JPL Education (NASA)
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...