ستاروں کی چمک سے استفادہ کر لیا جائے
کہ خالی دامنوں کو جگنوؤں سے بھر لیا جائے
کبھی تو چین پاؤں میں بھی دل کی اضطرابی سے
ہے میرا جرم کیا ہر زد پہ مجھ کو دھر لیا جائے
اے عشقِ دلبراں بے موت مرنے سے تو بہتر ہے
محبت کے خداؤں سے کنارہ کر لیا جائے
یہاں ہر سانس پہ اجرت کہاں سے لائے گا مفلس
تو پھر جینے سے بہتر ہے یہی کہ مر لیا جائے
اندھیروں کو مٹانے کی یہی تدبیر ہے میری
نقیب صبح کا ہر کام اپنے سر لیا جائے
در و دیوار اپنے ہوں کبھی یہ خواب دیکھا تھا
سکون دل کی خاطر ہی چلو اک در لیا جائے
کبھی گردش میں سچائی اکیلا چھوڑ جائے تو
خموشی سے ہی دامن میں خسارہ بھر لیا جائے
یہ خشت و سنگ اپنی دسترس سے دور ہیں اتنے
کبھی سوچا نہیں کہ ایک اپنا گھر لیا جائے
پرانے دور کے سارے پرندے مر چکے تابشِ
نئی پرواز کی خاطر نیا شہپر لیا جائے