بادشاہت کا سلسلہ خاندان کے اندر ہی رکھنے کے سارے انتظامات ہو رہے ہیں۔
کیا آپ غور نہیں کرتے کہ گاڑیوں پر پرچم لہرا رہے ہیں۔ ان گاڑیوں میں کشوروں اور اقلیموں کے سفیر بیٹھے ہیں۔ یہ گاڑیاں موٹروے پر رواں ہیں۔ اُس شہر کی طرف جو اقتدار کا مرکز ہے ؎
اسی جانب رواں ہیں قافلے عشاق کے سب
کہ اب اک مہ لقا کا رُخ بخارا کی طرف ہے
ایک زمانہ تھا جب مشرق و مغرب سے ولایتوں کے ایلچی قسطنطنیہ کا رُخ کرتے تھے۔ سراجیوو برباد ہوا تو شاعر نے نوحہ لکھا ؎
سراجیوو! تو نے سفیروں کو دیکھا
جو ہاتھوں کو سینوں پہ رکھے
خراج اور مکاتیب زربفت کی بقچیوں میں اٹھائے ہوئے
’’بابِ عالی‘‘ کی جانب رواں تھے!
لیکن بابِ عالی کا پرچم تو زمانوں پر لہرا رہا تھا!!
بادشاہت کا سلسلہ خاندان کے اندر رکھنے کے سارے انتظامات ہو رہے ہیں۔ ایک ہی شجر ہے جس کی شاخوں پر بور ہے اور وہ میووں کے بوجھ سے جھک رہی ہیں۔ اس قدر کہ زمین کو چھونے کے قریب ہیں۔ منتخب نمائندوں میں تقسیم ہونے والی رقوم بھی اسی شجر کی ایک ٹہنی پر رکھی ہیں۔ سالہا سال گزر گئے‘ صوبے کے کسی وزیر کا نام کبھی سامنے نہیں آیا۔ طاقت ایک نقطے پر مرتکز ہے۔ صوبے کا انتظام بحیثیت مجموعی جس نہالِ تازہ کے ہاتھ میں ہے وہ بھی خاندان ہی کا چشم و چراغ ہے۔ اس سے بھی زیادہ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ وفاق کے امور جن ہاتھوں سے گزار کر اُن ہاتھوں کو تجربہ عطا کیا جا رہا ہے‘ انہیں قانونی لحاظ سے یہ حق حاصل نہیں! کبھی محسوس ہوتا ہے وزارتِ خارجہ کے امور سکھائے جا رہے ہیں۔ ملکوں ملکوں قدم رنجہ فرمایا جا رہا ہے۔ معاہدے قلم بند ہو رہے ہیں۔ کبھی توانائی کا وفاقی شعبہ سر جھکائے پیچھے پیچھے چل رہا ہے۔ دارالحکومت کے ذرائع آمدورفت اور ان کی تعمیر و تنظیم بھی صوبے ہی کے اختیار میں ہے۔ مستقبل کا نقشہ جو نظر آتا ہے‘ دھندلا نہیں‘ واضح ہے! صاف معلوم ہو رہا ہے کہ وفاق کس کو سونپنے کا ارادہ ہے اور صوبے کی حکومت کے لیے کس کو تیار کیا جا رہا ہے مگر آہ! یہاں پہنچ کر جعفر برمکی یاد آ جاتا ہے!
بغداد کے مشرقی حصے کا نام شماسیہ تھا۔ برامکہ یہیں آباد تھے۔ سب سے پہلے خالد برمکی نے یہاں عالی شان محل بنوایا۔ اس کی وفات پر یحییٰ نے ایک اور بے مثال عمارت بنوا ڈالی لیکن جب جعفر برمکی نے محل بنوایا تو اُس زمانے کے دو کروڑ درہم لگ گئے۔ جو زعما مکان دیکھنے آتے جعفر ان سے کہتا کہ خامیوں کی نشاندہی کریں۔ پھر وہ خامیاں دور کی جاتیں۔ جب جعفر کا والد یحییٰ برمکی محل دیکھنے آیا تو جعفر نے اس سے بھی خامیوں کا پوچھا۔ یحییٰ نے کہا کہ ایک ہی خامی ہے اور وہ یہ کہ تمہارے پڑوسیوں کو تکلیف ہوگی! قصر تیار ہوا تو سیاحوں کے لیے ایک قابلِ دید مقام بن گیا۔ نجومیوں سے پوچھا گیا کہ منتقل ہونے کے لیے کون سی ساعت سعید ہوگی۔ زائچے بنے۔ لکیریں کھینچیں۔ ستاروں اور برجوں کے مشاہدے غور سے ہوئے۔ مشورہ دیا گیا کہ رات کے وقت منتقل ہوں۔ رات تھی اور جعفر اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ اس نئے آراستہ پیراستہ عدیم النظیر قصر کی طرف جا رہا تھا۔ شوکت اور احتشام عروج پر تھا۔ لوگ سو رہے تھے۔ سناٹا تھا۔ ایک آواز گونجی۔ کوئی شخص کہیں کھڑا شعر پڑھ رہا تھا ؎
تُدَبِّرُ بِالنّجوْمِ وَ لَسْتَ تَدْرِیْ
و رَبُّ النَّجْمِ یَفْعَلُ ما یَشَاء
ستاروں پر اپنی تدبیر قائم کرتے ہو حالانکہ تم کچھ جانتے ہی نہیں! ستاروں کا پروردگار تو جو چاہتا ہے کرتا ہے!
جعفر نے سنا اور ٹھٹھک گیا۔ قدم جہاں تھے وہیں رک گئے۔ کہنے والے سے پوچھا‘ تمہارا مطلب کیا ہے۔ اس نے کہا‘ کچھ نہیں! بس یونہی شعر یاد آ گیا تو پڑھ دیا۔ مگر جعفر سمجھ چکا تھا! اس کے بعد وہی ہوا جو ستاروں کے پروردگار نے چاہا!!
طاقت! اتنی کہ شمار ہے نہ حد! خون پانی کی طرح ارزاں نظر آتا ہے! انسان کیڑے مکوڑے لگتے ہیں! ماڈل ٹائون میں ایک نہیں‘ دو نہیں‘ تین نہیں‘ چودہ افراد مار دیے گئے۔ چودہ کنبے متاثر ہوئے۔ پھر ہر کنبے سے کتنے خاندان وابستہ ہیں‘ کتنے گھروندوں کے روزی کمانے والے زمین کے نیچے دفن کردیے گئے لیکن کیا بے نیازی ہے اور کیا شاہانہ تغافل ہے… ’’واقعے میں ملوث اہلکاروں کو اسی روز عہدوں سے ہٹا دیا تھا‘‘! کیا خوب سزا ہے قتلِ عام کی۔ تاریخ میں یہ واقعہ Massacre کے نام کے ساتھ لکھا جا رہا ہے! قتلِ عام! تو اگر چودہ افراد کے قتل کی اور ایک سو کے زخمی ہونے کی سزا عہدوں سے ہٹایا جانا ہے اور یہی انصاف ہے تو ایک ایک قتل کرنے والوں کو پھانسی اور عمر بھر قید کی سزا کون سا انصاف ہے؟ پھر جیلوں‘ عدالتوں اور پھانسی گھروں کو ختم کر دینا چاہیے! اسی قبیل کے ’’غم‘‘ پر مجید امجد نے کہا تھا ؎
قالینوں پر بیٹھ کے عظمت والے سوگ میں جب روئے
دیمک لگے ضمیر اس عزتِ غم پر کیا اِترائے تھے!
تاریخ منصوبہ بندیوں سے اٹی پڑی ہے۔ کیسے کیسے سلسلے تھے جن کی آج کڑی تک نہیں ملتی۔ کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ جنوب کے ساحلی شہر میں ایسا بھی ہوگا! جس شہر میں پتا ہلنا تو درکنار‘ دیدے گھما کر اپنی مرضی سے دیکھ بھی کوئی نہیں سکتا تھا‘ جہاں جسموں میں سوراخ کیے جاتے تھے جیسے پتھر کی بنی دیواروں میں کیے جاتے ہیں اور کہیں شنوائی نہیں تھی اس لیے کہ اقتدار کی چوٹی خود وہاں جھک رہی تھی! فوجی آمر جب بھی شہر میں وارد ہوتا‘ شاہراہیں سربمہر ہو جاتیں۔ گاڑیاں رُک جاتیں۔ چشمِ فلک نے ایک دن ایسا بھی دیکھا کہ معصوم بچے سکولوں سے رات گئے گھر پہنچے۔ ماں باپ کے کلیجے حلق تک آ گئے تھے۔ جب بھی ورود ہوتا‘ اموات واقع ہوتیں۔ کبھی دل کے مریضوں کی‘ کبھی حاملہ عورتوں کی جو شفاخانوں تک گھنٹوں کیا‘ پہروں نہ پہنچ پاتیں۔ لیکن مجال ہے کہ شہر کے ٹھیکیداروں نے چوں بھی کی ہو! شہر کے باشندے عذاب سے گزرتے اور اُف تک نہ کر سکتے اس لیے کہ چرواہے‘ بھیڑوں کے نہیں‘ کسی اور کے طرفدار تھے! ایک آواز پر شہر کیا‘ شہر سے گزرتا وقت تک تھم جاتا! آج وہی شہر ہے جس میں انہونی واقع ہو چکی ہے۔ واقعے کا وقوع ہو چکا۔ ایسا وقوع جسے جھٹلانے والا کوئی نہیں! ستاروں کے پروردگار نے وہ کچھ کیا جسے تصور کی آنکھ بھی نہیں دیکھ سکتی تھی۔
تاریخ سے ایک سبق سب نے سیکھا ہے کہ تاریخ سے کچھ نہ سیکھا جائے! جب انتظامات ہر اعتبار سے مکمل لگتے ہیں‘ کہیں کوئی رخنہ نہیں نظر آتا۔ رکاوٹیں دور ہو چکی ہوتی ہیں۔ دشمن ٹھکانے لگ چکے ہوتے ہیں۔ راستے حدِ نظر تک روشن لگتے ہیں تو اچانک بساط الٹ جاتی ہے۔ عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ جس طرف سے مداخلت ہوئی ہے اُدھر سے تو دور دور تک امکان ہی نہ تھا ؎
کوئی سواری نہ آئے اب دل کے راستے سے
کہ اس طرف سے بلند دیوار کر چکے ہیں
مگر بلند دیواریں‘ فصیلیں‘ اونچے برج‘ پہریداروں کے غول‘ پکے انتظامات‘ برسوں کی منصوبہ بندی‘ شطرنج کی گہری چالیں۔ کچھ بھی کام نہیں آتا۔
ابراہیم لودھی سے زیادہ پکے انتظامات کس نے کیے ہوں گے؟ تخت نشین ہوا تو ایسا جشن برپا کیا کہ سلاطینِ دہلی کی تین سو سالہ تاریخ میں اس کی مثال نہ تھی۔ تخت کو بھائیوں سے خطرہ ہو سکتا تھا۔ چار بھائیوں کو ہانسی کے قلعے میں قید کردیا۔ پانچویں کو‘ جس کا نام جلال تھا‘ مروا دیا۔ اب تخت کا دعویدار ہی کوئی نہیں تھا! رعایا کے اضطراب سے بغاوت کا خطرہ ہوتا ہے۔ قدرت ابراہیم لودھی پر اس قدر مہربان تھی کہ خوشحالی امڈ کر آئی۔ بارشیں وقت پر ہوئیں‘ اتنی جتنی درکار تھیں۔ ضرورت سے زیادہ نہ کم! فصلیں وافر ہوئیں۔ علائوالدین خلجی کے زمانے کو چھوڑ کر‘ اتنی آسودگی کبھی نہیں دیکھی گئی تھی۔ خلجی نے خوشحالی سخت قوانین کے ذریعے حاصل کی تھی۔ ابراہیم لودھی کو قدرت نے اس کے بغیر ہی عطا کردی! فتوحات کا یہ عالم تھا کہ گوالیار کا قلعہ فتح کر لیا جو کسی کے قابو ہی میں نہ آتا تھا۔ رہے امرا اور عمائدین تو جن سے خطرہ تھا‘ ان میں سے کسی کو زندہ نہ چھوڑا۔ 23 ایک بار قتل کرائے۔ کچھ جن پر اعتبار نہ تھا‘ ایک عمارت میں جمع تھے‘ عمارت کو بارود سے اڑا دیا! وفادار ساتھی قدرت نے بے تحاشہ دیے تھے۔ اعظم ہمایوں کو لوگوں نے متنبہ کیا کہ بادشاہ کے ارادے نیک نہیں‘ جان بچا کر بھاگ جائو۔ اس نے کہا نہیں! میں وفادار رہوں گا‘ منہ کالا نہیں کروں گا‘ جو بادشاہ کی مرضی! غرض ہر طرف سے اطمینان تھا! سلطنت کو خطرہ تھا نہ جان کو… مگر ستاروں کا پروردگار کچھ اور چاہتا تھا۔ پنجاب کے گورنر دولت خان لودھی کو بادشاہ سے خطرہ محسوس ہوا۔ اس نے اپنے فرزند کو کابل بابر کے پاس بھیجا۔ ابراہیم کی بدقسمتی کہ ٹھیک اسی زمانے میں بابر کو ازبکوں نے زچ کر رکھا تھا۔ پنجاب سے آئے ہوئے پیغام کو اس نے غنیمت سمجھا۔
یہ بھی نہیں کہ ابراہیم بہادر نہیں تھا۔ پانی پت کے میدان میں جب بابر کا پلہ بھاری ہوا تو جاں نثاروں نے لودھی کی منت کی کہ جان بچا کر نکل جائے۔ ’’ہم دوبارہ فوج اکٹھی کر کے مقابلہ کریں گے‘‘۔ مگر لودھی کا جواب تھا ’’میرے ساتھیوں کے خون سے میرا گھوڑا‘ ٹانگوں تک نہیں‘ چھاتی تک سرخ ہو چکا ہے۔ بادشاہوں کے لیے میدان سے بھاگنا ننگ ہے‘‘۔ ابراہیم لودھی دہلی کا پہلا اور آخری بادشاہ تھا جو میدانِ جنگ میں لڑتے ہوئے مارا گیا!
کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ سلطنت کا دعویدار سینکڑوں کوس دور کے پہاڑوں سے آن ٹپکے گا؟
ستاروں کے پروردگار سے ڈرو۔ خاندان کی نہیں‘ خلقِ خدا کی فکر کرو!!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“