شہر کا نام یاد نہیں!بیرون ملک کسی جگہ شعری اجتماع تھا۔
یہ لکھنے والا نظم …سنارہا تھا ؎
لہو اوڑھنے والی خوشبو قتل نہیں کی جاسکتی
اس میں زندگی کے ذرات ہوتے ہیں
اس کے بعد کی سطور میں خوشبوئوں کا تذکرہ تھا۔ وہ خوشبوئیں جو تادمِ آخر خون میں رچی بسی رہتی ہیں:
خواب گاہ کی خوشبو
جس کے گوشے میں مویشی بندھے ہوئے ہوں
گارے کی
جس میں بھوسہ ملایا گیا ہو‘ کچی دیوار اٹھانے کے لیے
پسینے کی
جو میلی قمیض کو پیٹھ سے چپکا دے
پوچہ ملے ہوئے گندے پانی کی‘ تختی دھوتے ہوئے
بکری کے میمنے کی، اسے بوسہ دیتے وقت
کوزے کی‘ جب وہ نیا ہو
دم بخود ہوکرلوگ سن رہے تھے۔ سب اپنے اپنے قریوں میں پہنچ گئے تھے۔ اس کے بعد اگلی سطر پڑھی:
باپ کی خوشبو‘ جدا ہونے کے بعد
ہال کے کونے سے ایک دلدوز آہ ابھری اور سب کے سر پر اداسی کی سیاہ چادر بن کر تن گئی۔
وہ جو منیر نیازی نے کہا تھا ؎
صبح کاذب کی ہوا میں درد تھا کتنا منیر
ریل کی سیٹی بجی اور دل لہو سے بھر گیا
دل لہو سے بھر گئے۔ آنکھیں چھلک اٹھیں۔ خاص طور پر ان کی جن کے باپ جدا ہوچکے تھے۔
یہ دلدوز واقعہ کل یاد آیا، دوستِ دیرینہ ملک خادم حسین سے، کہ بلند ترین بیورو کریسی کی اس زریں قسم سے تعلق رکھتے ہیں جو تیزی سے معدوم ہورہی ہے، ان کے والد گرامی کی تعزیت کرتے وقت ایک فقرہ کہا…
’’ ملک ! اب تم اکیلے ہو۔ Yor are on your own۔ صرف ماں باپ ہی بے غرض ہوتے ہیں۔ باقی ہر کسی کا اپنا پیچ درمیان میں ہوتا ہے۔ پوری دنیا میں صرف باپ ہے جو چاہتا ہے کہ بیٹا اس سے بھی آگے نکل جائے۔‘‘
فون بند کیا تو آنکھیں ڈبڈبا رہی تھیں۔ ایک نحیف و نزار جسم یاد آرہا تھا بستر سے لگا ہوا۔
کم و بیش دو ماہ کا عرصہ‘ جس کے دوران وہ بستر ہی پر رہے، عجیب و غریب عرصہ تھا۔ بسا اوقات ان کے پاس بیٹھ کر اپنے آپ کو ان کے سینے پر جھکاتا اور گلے لگا لیتا۔ اس لمس کا ذائقہ سارے ذائقوں سے جدا تھا اور آج تک رخساروں سے رخصت نہیں ہوا۔ یوں تو لمس کی کئی یادیں ہیں۔ صبح وضو کرنے کے بعد جگانے کے لیے جب وہ میرے چہرے پر اپنا چہرہ رکھا کرتے تو پانی سے دھوئے ہوئے چہرے کا ٹھنڈا لمس سارے بدن میں اور بدن کے اندر ساری رگوں میں اور رگوں کے اندر سارے لہو میں ایک انوکھی مٹھاس بھر دیتا۔ یا کبھی کبھی سینے سے لگاکر زور سے بھینچتے اور فارسی کا ایک شعر پڑھا کرتے جو افسوس ! صد افسوس! اب یاد نہیں ! یا جب بھی صبح سکول اور پھر کالج اورپھر دفتریا سفر پر نکلنے لگتا تو گلے ملتے اور واپس آکر ان کے کمرے میں جاتا تو پھر گلے ملتے۔ یہ سارے ذائقے سینے کے تالو پر چپکے ہوئے ہیں لیکن ان دو ماہ میں جب وہ بستر سے نہیں اٹھ سکتے تھے اور میں ان کے بیڈ پر ان کے پہلو میں بیٹھ کر ان پر جھکتا اور گلے ملتا تو لمس کا یہ ذائقہ سارے ذائقوں سے جدا تھا! اس ذائقے میں ان کی نہیں، میری بے بسی رچی ہے اور حسرت ہے اور ضعف کا اور پیری کا جبر ہے اور وقت کی سرد مہری ہے اور عمر کی بے لحاظی ہے‘ نہ جانے کیوں وہ شعر یاد آنے لگتا ہے جو معتمد نے قید کے دوران کہا تھا ؎
خود بخود زنجیر کی جانب جھکا جاتا ہے دل
تھی اسی فولاد سے شاید مری شمشیر بھی
دربار اکبری کے گوہر نایاب فیضی نے اپنی ماں کا مرثیہ کمال کا لکھا ہے لیکن باپ کی وفات پر جو اشعار کہے وہ بھی دل کو چھلنی کردیتے ہیں ؎
مثال عنصرِ پاکاں چو آب باراں بود
کز آسمان بچکیدند و در زمین رفتند
جنازۂ کہ بدوشِ ملائک است رواں
زگریہ باز بچشمِ ستارہ آبلہ چیست
’’ ان مقدس عناصر کی مثال بارش کے پاک پانی جیسی ہے کہ آسمان سے اترے اور زمین میں چلے گئے۔ یہ کس کا جنازہ ہے جو فرشتوں کے کاندھوں پر جارہا ہے؟ اور یہ کثرت گریہ سے ستارے کی آنکھ پر آبلے کیسے پڑ گئے ہیں!‘‘
زندگی اور موت کی حقیقت جاننے میں دانشوروں نے عمریں صرف کردیں لیکن اصل گتھی جو سلجھ نہیں سکتی یہ ہے کہ ماں باپ بوڑھے کیوں ہوجاتے ہیں؟ اس شخص کے لیے جو اتنا بے بس تھا کہ ناک سے مکھی بھی نہیں اڑا سکتا تھا‘ جو منہ میں لقمہ تو کیا پانی کا قطرہ بھی نہیں ڈال سکتا تھا‘ جسے بول و براز کا ہوش تو کیا احساس تک نہ تھا‘ جسے بدن ڈھانپنے کے لیے تار پیراہن تک حاصل نہ تھا۔ اس شخص کے لیے یہ حقیقت کتنی درد ناک ہے کہ جن دو ہستیوں نے اس کٹھن وقت میں اس کی دست گیری کی۔
اسے ربوبیت بہم پہنچائی۔
اس کے منہ میں پانی اور دودھ کے قطرے ٹپکائے۔
اسے غلاظتوں سے پاک کیا۔
اسے موسموں کی سختیوں اورعناصر کی بے مہریوں سے بچایا۔
وہ دو طاقت ور ہستیاں…خود بوڑھی ہوگئیں۔
ان کے قویٰ مضمحل ہوگئے‘ ان کے دل رقیق ہوگئے‘ ان کی نظریں کمزور ہوگئیں‘ ان کے چہرے جھریوں سے اٹ گئے‘ ان کی یاد داشتیں مدھم پڑ گئیں‘ ان کے اعصاب پر ضعف طاری ہوگیا۔ آخر کیوں ؟؟
وہ ماں جو بچے کے رونے کے باوجود اطمینان سے اپنا کام کرتی رہتی تھی‘ جو اس کی چیخ پکار کے باوجود اسے نہلا کر چھوڑتی تھی‘ جو اس کے آنسوئوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اس کے منہ کو دونوں ہاتھوں سے زبردستی کھول کر کڑوی دوا پلاکر رہتی تھی‘ وہ ماں اس بچے کی، جو اب جسمانی لحاظ سے بھی زیادہ طاقت ور ہے‘ قد میں بھی ماں سے زیادہ لمبا ہے اور اعصاب بھی زیادہ مضبوط رکھتا ہے‘ ذرا سی تکلیف دیکھ کر آنسوئوں کو ضبط نہیں کرسکتی اور اس کے اعصاب جواب دے جاتے ہیں؟ آخر کیوں ؟؟
وہ باپ جو بچے کو سکول نہ جانے پر تھپڑ مار دیتا تھا‘ اس کے رونے کو درخور اعتنا نہیں گردانتا تھا، اسی بچے کی… جو ، اب بہت کچھ سہہ سکتا ہے… ذرا سی پریشانی بھی نہیں برداشت کرسکتا اور بات بات پر آبدیدہ ہوجاتا ہے۔ بچہ چالیس پچاس ساٹھ سال کا ہوگیا ہے لیکن اب بھی رات کو دیر سے آئے تو باپ دروازے کے چکر لگاتا رہتا ہے۔ اس کی معمولی سی روٹین کی وقتی پریشانی پر بھی رونے لگتا ہے۔ آخر کیوں؟
کیا کوئی تکلیف ماں باپ کے بڑھاپے اور ضعف اور رقتِ قلب اور تنہائی اور کم گوئی اور کم خوری اور بیماری سے زیادہ بھی دل کو مٹھی میں جکڑنے والی اور روح کو کرب میں ڈالنے والی ہوسکتی ہے؟ کیا یہ طرفہ تماشا نہیں کہ جو مضبوط شخص بے چارگی میں ہماری دست گیری کرتا ہے اس مضبوط شخص پر آہستہ آہستہ چھا جانے والے بڑھاپے کے سامنے ہم بے بس ہوجاتے ہیں اور پھر وہ ہمیں اس ناقابل اعتماد ، قدم قدم پر دھوکہ دینے والی اور خود غرضی سے اٹی ہوئی دنیا میں اکیلا چھوڑ کر منوں مٹی کے نیچے جا سوتا ہے اور ہم اس کے علاوہ کچھ نہیں کہہ سکتے ؎
عصا در دست ہوں اس دن سے بینائی نہیں ہے
ستارہ آنکھ میں آیا تھا میں نے کھو دیا تھا
وہ جن کے ماں باپ یا ماں یا باپ حیات ہیں ، جان لیں کہ یہ تو ابر کا ٹکڑا ہے جو زیادہ دیر فضا میں نہیں رکے گا‘ یہ وہ آسمانی پرندہ ہے جو بہت جلد اڑ کر چلا جائے گا‘ پھر کڑکتی دھوپ ہے اورشل کرتے جاڑے‘ کوڑوں کی طرح ضربیں لگاتے جھکڑ، غیر تو غیر ہیں اپنوں کے دیے ہوئے دھوکے اور دشمنیاں اور منافقتیں!
جن کے پاس یہ نعمت ابھی موجود ہے اس کااحساس کریں۔ یہ تو بہشت کا ٹکٹ ہے جو چاہے بہشت والی ٹرین میں بیٹھ جائے اور جس کا بخت سیاہ ہو ان کی خدمت سے محروم رہے اور اگر اس تحریر کی تاثیر سے کوئی ان کے قدموں پر سر رکھ دیتا ہے تو اس لکھنے والے کے لیے دعا کردے کہ اس باب میں جو کوتاہیاں اس سے سرزد ہوئیں وہ بھی معاف کردیں اور وہ خدا بھی جس نے ربوبیت کالفظ اپنے لیے استعمال کیا یا ماں باپ کے لیے اور بس !
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“