سسکتا ملیر
عرصہ قدیم سے ملیر اپنی خوبصورتی کی وجہ سے لوگوں کا مسکن رہا ہے تاریخی حوالے سے ملیر قدرتی حسن کی علامت رہا ہے . ملیر کے سر سبز چراہ گاہیں بہتی ندیاں چشمے آبشار دل کو چھو لینی والی ہوائیں خوبصورت پہاڑ قسم قسم کی چرند پرند مختلف خونخوار اور بے ضرر جانور یہی ملیر تھا یہی ملیر کی پہچان تھی
ملیر کی وادیوں میں آثار قدیمہ کے بہت سارے باقیات اب بھی موجود ہیں جب لوگ گھروں میں نہیں غاروں رہتے تھے تو ملیر کے پھاڑ بھی لوگوں سے آباد ہوا کرتے تھے ملیر کے پھاڑوں میں وہی باقیات آج بھی پائے جاتے ہیں اس سے یہ سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے کہ ملیر کی زمیں انسانی تاریخ کے اولین دور میں بھی لوگوں کا مسکن رہا ہے
بمبور اپنے وقت میں سندھ کا ایک تجارتی شہر اور بندر گاہ ہوا کرتا تھا جس کے آثار آج بھی کراچی سے چند کلومیٹر دور دابیجی کے مقام پر دیکھے جا سکتے ہیں اس وقت کراچی ایک چھوٹا سا گاؤں شاید دیبل یا مائی کلاچی کے نام سے ہوا کرتا تھا
شاہ کے مشھور عشقیہ داستان سسی پنوں کے کردار سسی کا تعلق اسی شہر بمبور سے تھا اور پنھوں کیچ کے بادشاہ کا فرزند تھا جب سسی کو خبر ملتی ہے کہ اس کے پنھوں کو اس کے بھائی اٹھا کر بمبور سے کیچ لے جا رہے ہیں تو سسی پیدل ان کے پیچھے بھاگتی ہے اور ملیر کے ہی رستے سے لسبیلہ تک پہنجتی ہے 17 ویں صدی میں جوکیہ اور کلمتی قبائل کے جھگڑوں میں جو لوگ مارے جاتے تھے ان کی قبریں قیمتی پتھروں سے بنائے جاتے تھے اور وہ قبریں آج بھی ملیر کے عظمت کا نشاں بن کر اسی ملیر کی سرزمین پر موجود ہیں بلوچ روایتوں کے امیں " للو " کا مسکن بھی یہی ملیر ہے اور اس جگہ کو آج بھی " للو پڑ " کہا جاتا ہے
جب چاکر گہرام کے خون ریز جنگ کے بعد بلوچ سیوی اور گنداوہ کو چھوڑ کر سندھ ملتان اور گجرات کی طرف ہجرت پر مجبور ہوئے تو وہ بھی ملیر کے راستے سے اپنی اپنی منزلوں کو گئے اس راستے میں اگر کسی کا انتقال ہو جاتا تو ان کی قبریں خونصورت پتھروں سے نقش نگار کر کے بنائے جاتے تھے صدیوں کے سفر کے بعد آج وہ قیمتی پتھر تو لوگ لے گئے مگر ان قبروں کے باقیات آج بھی ملیر کے سرزمین پر موجود ہیں اور اس رستے کی نشاندہی کرتے ہیں ان میں سے مشہور گوہر نامی خاتوں کی قبر ہے گوہر وہ مالدار عورت تھی جس کے وجہ سے رند و لاشار آپس میں دست و گریبان ہوئے لاکھوں کی جانیں گئی گوہر کی نسبت سے آج بھی ملیر کی وہ پہاڑ جہاں گوہر کی قبر واقع ہے گوہر بان کی نام سے مشہور ہے , انگریزوں کے زمانے میں ملیر کا پانی سارا کراچی پیا کرتا تھا انگریزوں کے بنائے ہوئے کنویں آج بھی ملیر میں کھنڈرات کے شکل میں موجود ہیں , برٹش سرکار نے جب چاکر بن نوتک کو بغاوت کے جرم میں پھانسی کی سزا سنائی تو چاکر کی آخری خواہش پھانسی کے وقت ملیر کو دیکھ کر دم دینے کی تھی .
ملیر کی خوبصورتی کا میں بھی گواہ ہوں اپنے بچپن میں نے ملیر کی خوبصورتی کو دیکھا ہے آبشار بہتے چشمے سرسبز پھاڑ خوبصورت باغات بہتی ندیوں کا شور وہ چودھویں کے چاند کی روشنی وہ اندھیری راتوں میں ستاروں کی چمک وہ درختوں کے مھربان سائے وہ خوبصورت پرندے وہ اونٹوں کے قطار سب میرے یاد داشت میں آج بھی نقش ہیں کھیتوں میں کام کرتے مزدور بھی دیکھے ہیں جو نجانے کہاں سے محنت مزدوری کے لیے ملیر آتے تھے اور آنکھوں نے وہ منظر بھی دیکھے ہیں جب ملیر کے چھپے چھپے پر ذراعت ہوا کرتی تھی جدھر جاتے بس ہریالی سر سبز زمیں اور مون سون کی وہ بارشیں جو جو برستی تھیں تو زمیں سے ایک خوشبو اٹھتی تھی جو آج بھی میرے سانسوں ہے
سب کچھ یاد ہے مگر افسوس کہ ملیر آج وہ ملیر نہیں نہ وہ آبشار ہے نہ چشمے نہ وہ بارشیں نہ سرسبز نظارے نہ وہ چرند پرند نہ وہ لوگ نہ وہ خوبصورت راتیں
انہیں یاد کرنے لگتا ہوں تو یادوں کی ایک لڑی سی بند جاتی ہے
آج ملیر کی زمینوں کو نوچا جا رہا ہے پھاڑوں کو روندا جا رہا ہے آثار قدیمہ کے نشانات کو مسمار کیا جا رہا ہے ندی نالوں برباد کیا جا رہا ہے ایک طرف بحریہ کے نام پر اور ایک طرف DHA کے نام پر مالداروں کے لیے ملیر کو لوٹا مسلا جا رہا ہے اور ملیر کے فرزند کچھ زر کے لالچ میں تو کچھ خوف کی وجہ سے چپ چاپ ملیر کو مرتا دیکھ رہے ہیں ملیر کے وہ فرزند جو ملیر کے لوگوں کے رہبر اور رہنما ہیں وہ بھی وقتی مراعات کے حصول کے لیئے خاموش ہیں .
آج ملیر اپنوں کی سنگ دلی مفاد پرستی پر نوعہ کناں ہے آج ملیر کی زمینیں زرداروں سرمایہ داروں جاگیر داروں جرنلوں کرنلوں کو کوڑیوں کے مول دان کیئے جا رہے ہیں ملیر کو قسطوں میں اپنوں کی بے حسی مار رہی ہے اور اب سواء ماتم کے ہمارے پاس کچھ نہیں ہاں جب قدرت مکافات عمل پہ آیا تو ہمارے پاس افسوس کے سوا کچھ نہ ہو گا.
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔