“اگر آپ نے کوئی شعر کہا ہے، اور یوگنڈا ، چلی یا چیچو کی ملیاں کے کسی بارہویں صدی عیسوی کے شاعر نے بھی وہی خیال یا اس سے ملتا جلتا خیال یا اس شعر کے ایک مصرعے یا آدھے مصرعے یا کسی خاص یا عام ترکیب میں کوئی خیال یا اس خیال کی کوئی تاویل یا پرچھائیں یا ردیف یا قافیہ یا بحر یا اس شعر کی کوئی تشبیہہ ، کوئی استعارہ ، کوئی کنایہ ، کوئی مجاز مرسل یا علامت استعمال کر رکھی ہے یا آپ کا شعری اسلوب اس شاعر سے ملتا جلتا ہے تو یہ سرقہ ہے اور اس وجہ سے آپ کا پورا کلام جو اب تک آپ نے لکھا ہے یا جو آئندہ لکھیں گے سب سرقہ ہے اور آپ ایک سرقہ باز شاعر ہیں۔ اگر آپ سرقے کے الزام سے اپنا دامن پاک رکھنا چاہتے ہیں تو پہلے دنیا کے کونے کونے میں حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اب تک پیدا ہونے والے ہر چھوٹے بڑے شاعر اور متشاعر کا کلام از بر کیجیے اور اس میں پیش کردہ ہر ترکیب ، ردیف ، قافیہ ،تشبیہ ، استعارہ ، کنایہ ، علامت ، معنی ، اس سے ملتے جلتے معنی ، التوا پذیر ہوتے معنی ، مضمون ، اسلوب بالفاظ دیگر صوتیات ، لفظیات ، نحویات اور معنیات سے مکمل گریز کیجیے اور یہ تمام سامان خود تخلیق کیجیے ۔ خیال وہ پیش کیجیے جو آپ سے پہلے دنیا کے کسی بھی خطے اور کسی بھی زبان میں پیش نہ کیا جا سکا ہو اور زبان وہ استعمال کیجیے جو صرف آپ ہی بولتے اور سمجھتے ہوں۔ اور ہاں خبردار کسی بھی دوسری زبان کے کسی شاعر کی کسی نظم کا ترجمہ کرنے کی جسارت نہ کیجیے کیوں کہ اگر آپ اس پہ ماخوذ لکھ بھی دیں گے تو پھر بھی آپ سرقہ باز ہی کہلائیں گے اور آپ کی اپنی شاعری بھی سرقہ قرار پائے گی۔”
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...