برطانوی وزیراعظم کے لکڑ دادا فوج میں گھوڑ سوار تھے۔ انہوں نے ہندوستانیوں کی 1857ء کی جنگ آزادی کو کچلنے میں بھرپور حصہ لیا۔ ان کا نام ولیم لو (LOW) تھا۔ ولیم لو نے تفصیل سے بیان کیا ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنی تلوار سے ’’باغیوں‘‘ کو قتل کیا اور پھر کس طرح سول آبادی کو کثیر تعداد میں پھانسی دینے میں سرگرم کردار ادا کیا۔ اس سے پہلے وزیراعظم نے خود بھی کہا تھا کہ اُنکے آباؤ اجداد نے ہندوستان میں’’سلطنت کی تعمیر‘‘ میں حصہ لیا تھا۔
’’10 جون 1857ء کو چھاؤنی میں پلاٹون نمبر 69 کو بغاوت کے شبہ میں نہتا کیا گیا اور پلاٹون کمانڈر کو جمعہ دس سپاہیوں کے توپ کے آگے رکھ کر اُڑا دیا گیا۔ بقیہ نہتی پلاٹون کو شبہ ہوا کہ انہیں چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں فارغ کیا جائے گا اور تھوڑا تھوڑا کر کے تہہ تیغ کر دیا جائیگا۔ سپاہیوں نے بغاوت کر دی۔ تقریباً بارہ سو سپاہیوں نے بغاوت کا علم بلند کیا۔ انگریزوں کیخلاف بغاوت کرنیوالے مجاہدین کو شہر اور چھاؤنی کے درمیان واقع پُل شوالہ پر سجادہ نشین نے انگریزی فوج کی قیادت میں اپنے مریدوں کے ہمراہ گھیرے میں لے لیا اور تین سو کے لگ بھگ نہتے مجاہدین کو شہید کر دیا۔‘‘
اوپر کی سطور میں دو الگ الگ تحریریں نقل کی گئی ہیں۔ پہلا پیراگراف برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کے لکڑ دادا کے بارے میں ہے اور دوسرا پیرا گراف جو میرے ایک محترم دوست کی تحریر ہے، ہمارے ایک وزیر کے لکڑ دادا کے بارے میں ہے۔ مجھ جیسے کُند ذہن شخص کے ذہن میں یہ دونوں تحریریں پڑھ کر کچھ سوال اٹھتے ہیں جن کا جواب، ظاہر ہے، کوئی روشن دماغ ہی دے سکتا ہے۔
کیا دونوں بزرگوں کے کردار میں فرق ہے؟ اگر ایک ’’سلطنت کی تعمیر‘‘ میں حصہ لے رہے تھے تو دوسرے کیا کر رہے تھے؟ کیا دونوں بزرگوں کے چشم و چراغ اپنے اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلنے میں فخر محسوس نہیں کرینگے اور اپنے اپنے بزرگوں کے کارناموں کو باعث افتخار نہیں سمجھیں گے؟ اور کیا یہ انصاف ہو گا کہ ایک بزرگ کے کارناموں کو تو خوب اچھالا جائے اور دوسرے بزرگ کے کارناموں کو چھپانے کی کوشش کی جائے؟
جتنی دیر میں آپ ان سوالوں کے جواب تلاش کر رہے ہیں، میں آپ کو ایک اور طرف لئے چلتا ہوں۔ میں میلبورن کی جس آبادی میں رہائش پذیر ہوں، اُس کا نام ہائیڈل برگ ہے جو ایک جرمن نے جرمنی کے شہر ہائیڈل برگ کے نام پر رکھا تھا۔ شہر کے مرکز میں (جسے یہاں سٹی کہا جاتا ہے) جانے کے لئے میں ہائیڈل برگ ریلوے سٹیشن تک پیدل جاتا ہوں جو تقریباًپندرہ منٹ کا فاصلہ ہے۔ وہاں سے ریل میں بیٹھ کر شہر کے مرکز تک پہنچنے میں تقریباً آدھا گھنٹہ لگتا ہے۔ میں جس روز پہلی بار ہائیڈل برگ ریلوے سٹیشن گیا تو یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ ریلوے سٹیشن کے پاس ایک وسیع و عریض میدان ہر قسم کی چھوٹی بڑی کاروں سے بھرا پڑا تھا۔ یہ گاڑیاں سینکڑوں کی تعداد میں پارک کی گئی تھیں۔ معلوم ہوا کہ ہائیڈل برگ آبادی کے لوگ کام پر روانہ ہونے کیلئے ہر روز صبح اپنی اپنی کار میں اس مقامی ریلوے سٹیشن پر پہنچتے ہیں وہ اس میدان میں اپنی کاریں کھڑی کر دیتے ہیں، یہاں سے ریل پر سوار ہو کر ملازمت کی جگہ تک پہنچتے ہیں شام کو چھٹی کر کے دوبارہ ریل پر سوار ہوتے ہیں ہائیڈل برگ ریلوے سٹیشن پہنچ کر اتر جاتے ہیں۔ میدان سے اپنی کار لیتے ہیں اور پانچ دس منٹ کی ڈرائیونگ کے بعد گھر پہنچ جاتے ہیں۔
ہائیڈل برگ صرف ایک ریلوے سٹیشن ہے۔ میلبورن شہر میں کل تقریباً دو سو تیس ریلوے سٹیشن ہیں۔ یوں تو چھوٹے سے چھوٹے سٹیشن پر بھی ڈیڑھ دو سو کاریں کھڑی ہوتی ہیں لیکن ہم فرض کرتے ہیں کہ ہر ریلوے سٹیشن پر صرف ایک سو کاریں پارک کی جاتی ہیں، اس حساب سے دو سو تیس ریلوے سٹیشنوں پر تئیس ہزار کاریں صبح سے شام تک کھڑی رہتی ہیں۔ اب فرض کیجئے، میلبورن شہر میں مقامی ریلوے کو بند کر دیا جاتا ہے اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ 23 ہزار افراد اپنی اپنی جائے ملازمت تک کاروں میں جائینگے اور شام کو واپس بھی آئینگے، گویا شہر 23 ہزار کاروں کے دھوئیں سے بچا ہوا ہے۔ یہ کاریں دن بھر ٹریفک کے ہجوم میں شامل نہیں ہو سکتیں اور ہر روز ہزاروں ڈالر کا پٹرول الگ بچتا ہے۔ اس بچت کو اور اس دھوئیں کو 365 سے ضرب دیں تو سال بھر کے اعداد و شمار ہاتھ آ جائینگے۔ آپ یہ نہ سمجھیں کہ مقامی ریل میں سفر کرنیوالے یہ افراد صرف مڈل کلاس سے ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ ان ٹرینوں میں کروڑ پتی بھی سفر کرتے ہیں۔ سوٹ اور ٹائی پہنے ہوئے کمپنیوں کے ایگزیکٹو بھی ہیں اور بڑے بڑے سرکاری افسران اور وزیر صاحبان بھی سفر کرتے ہیں۔
اب آپ زحمت فرمائیں اور میرے ساتھ راولپنڈی اسلام آباد تشریف لائیں۔ راولپنڈی اور اسکے گرد و نواح سے اسلام آباد پہنچنے کے تین بڑے بڑے راستے ہیں، پہلا موٹر وے کی طرف سے اسلام آباد میں داخل ہوتا ہے اور گولڑہ موڑ کے راستے پاک سیکرٹریٹ اور بلیو ایریا تک پہنچتا ہے۔ دوسرا صدر سے ہوتے ہوئے مری روڈ کے ذریعے فیض آباد سے داخل ہوتا ہے اور تیسرا چک لالہ سے ہوتا ہوا ائر پورٹ کی بغل سے گزرتا ایکسپریس ہائی وے کے ذریعے اسلام آباد کی طرف آتا ہے اور اس میں جہلم، گوجر خان اور روات سے آنیوالی ٹریفک بھی شامل ہو جاتی ہے۔ یہ تینوں راستے کئی گھنٹوں کیلئے میدان جنگ کا نقشہ پیش کرتے ہیں۔ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ جو شخص بھی جوں توں کر کے کار حاصل کر لیتا ہے وہ ویگن یا بس میں خوار ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتا چنانچہ کاریں لاکھوں کی تعداد میں ہر روز راولپنڈی سے اسلام آباد اور اسلام آباد سے واپس راولپنڈی کا سفر کرتی ہیں۔
حکومتوں سے تو کسی تعمیری کام کی توقع کرنا ہی بے وقوفی ہے، کیا نجی شعبے میں کوئی دماغ ایسا نہیں جو ان راستوں پر مقامی ریلوے چلانے کا سوچ سکے اور سرمایہ کاری کرے؟ ہمارے پڑوس میں دلی کا عفریت نما شہر ہے، 2003ء میں وہاں زیر زمین ریلوے شروع ہو گئی تھی۔ دو سال پیشتر دنیا کی چھ بہترین زیر زمین چلنے والی ریلوے کمپنیوں کی وساطت سے اس نظام کو بہتر کیا گیا ہے۔ آج دہلی شہر کے اندر چلنے والی زیر زمین ریلوے دنیا کے بہترین ریلوے نظاموں میں شامل ہو چکی ہے اور شہر کے دور افتادہ گوشے بھی اس سے ملا دیے گئے ہیں۔ دہلی میں ماحول کی آلودگی حیرت انگیز حد تک کم ہو گئی ہے کیوں کہ سینکڑوں ہزاروں پرائیویٹ گاڑیاں ریلوے کی وجہ سے شاہراہوں سے غائب ہو چکی ہیں۔ ہمارے ملک کی ایک بڑی ہاؤسنگ کمپنی کو تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد دورہ پڑتا ہے کہ مارگلہ کی پہاڑیوں میں سوراخ کر کے سرنگیں بنائی جائیں اور پہاڑیوں کے اس پار والے علاقے کو اسلام آباد میں شامل کر کے مزید پلاٹ بنائے جائیں اور ہاؤسنگ سوسائٹیاں قائم کی جائیں، اگر یہ ہاؤسنگ ادارہ، مارگلہ پہاڑیوں کا پیچھا چھوڑ دے اور زیر زمین ریلوے منصوبہ بنا کر حکومت کو پیش کرے تو ہمیں یقین ہے کہ اس سے بھی اتنی ہی دولت کمائی جا سکے گی اور پلاٹ سازی کے بجائے ایک صحیح تعمیری اور ترقیاتی کارنامہ بھی سرانجام دیا جا سکے گا۔ لکڑ دادوں نے برطانوی ’’سلطنت کی تعمیر‘‘ میں حصہ لیا تھا اور آج پڑپوتے وزارتوں کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ آج جو دردمند پاکستان کی تعمیر میں حصہ لے گا، کل اسکے پوتے اور پڑپوتے وزارتوں کے علاوہ عزت بھی پائیں گے۔!