اس نے عنبرین کو بالوں سے پکڑا اور گھسیٹتا ہوا اس مکان تک لے گیا جہاںاور لوگ موجود تھے، مرکزی ملزم بھی وہیں بیٹھا تھا۔ گھر سے نکلتے ہی لڑکی کا دوپٹہ اس کے منہ پر باندھ دیا گیا تاکہ وہ شور شرابہ نہ کرسکے۔ لڑکی جب اس مکان میں پہنچی جہاں جرگے والے منصف بیٹھے تھے، تو اس پر تھپڑوں کی بارش کردی گئی۔ گرفتار ملزموں میں سے ایک کی شہادت یہ ہے کہ منہ اس کا بندھا ہوا تھا مگر ہاتھ جوڑ جوڑ کر منت سماجت کر رہی تھی اور بلک بلک کر رو رہی تھی۔ اس مار کٹائی میں دوپٹہ اس کے منہ سے ہٹ گیا۔ اب اس نے خدا اور رسول کے واسطے دیئے۔ وہ اپنا قصور پوچھتی تھی۔ اس موقع پر مرکزی ملزم نے حکم دیا کہ قصہ ختم کرو۔ دوپٹے سے گلا گھونٹنے کی کوشش کی گئی۔ مزاحمت پر پہلے سے لائے گئے نشہ آور انجکشن سے اسے بے ہوش کیا گیا۔ پھر گلا گھونٹا گیا۔ پھر لاش کو گاڑی کی سیٹ کے ساتھ باندھا گیا۔ پھر گاڑی کو جلا کر راکھ کیا گیا۔ پھر یہ جرگہ لڑکی کی ماں کے پاس گیا اور بتایا کہ اگر اس نے زبان کھولی تو اس کے بیٹے کو اور خاندان کے باقی افراد کو بھی اسی طرح نذر آتش کردیا جائے گا!
یہ واقعہ کسی دورافتادہ جنگل میں نہیں پیش آیا۔ جرگے نے جہاں یہ انصاف کیا، وہ جگہ ملک کے دارالحکومت سے تین گھنٹے کی مسافت پر ہے اور اس شہر کے مضافات میں ہے جس نے آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پرسوں ہزارہ صوبے کا صدر مقام بننا ہے!
مت بھولیے کہ یہ ہزارہ اور کوہستان ہی کا علاقہ ہے جہاں کے بچے پورے ملک کے مدارس میں تعلیم پانے کے لیے مشہور ہیں۔ یہ پورا خطہ ازحد مذہبی سمجھا جاتا ہے۔ یہاں کے علماء پورے ملک میں پھیلے ہوئے مدارس میں پڑھاتے ہیں!
جو تصاویر اس جرگہ کے معزز ارکان کی میڈیا میں نظر آئی ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ تیس سال سے کم کوئی بھی نہیں! کچھ ارکان سفید ریش بھی ہیں! چلیے اوسط عمر چالیس سال فرض کرتے ہیں۔ یہ بھی ہمیںمعلوم ہے کہ گنہگار سے گنہگار اور بے عمل سے بے عمل پاکستانی بھی نماز جمعہ کا تارک نہیں! فرض کیجیے کہ سولہ سال کی عمرسے جرگہ کے ارکان جمعہ کے دن مولوی صاحبان کے خطبات و تقاریر سن رہے ہیں! سولہ سال سے چالیس سال تک کا عرصہ چوبیس سال پر مشتمل ہے۔ ایک سال میں جمعہ کا خطبہ باون بار ہوتا ہے۔ یوں چوبیس سال میں جرگہ کے ہر رکن نے 1248 بارجمعہ کی نماز پڑھی۔ فرض کیجیے! نصف جمعہ کی نمازیں انہوں نے اسی طرح پڑھیں کہ تاخیر سے پہنچنے کی بنا پر تقریر سننے سے محروم رہے اور صرف جماعت کی نماز پا سکے۔ پھر بھی 624 بار انہوں نے مولوی صاحبان کی تقریریں سنیں!
اب اس نکتے پر غور کیجیے کہ اگر مذہب ہماری زندگیوں میں بنیادی کردار ادا کر رہا ہے۔ اگر اٹھانوے فیصد پاکستانی قرآنی تعلیمات کا نفاذ چاہتے ہیں (جیسا کہ ایک حالیہ سروے سے معلوم ہوا ہے) اور اگر اسلام کی نظر میں عورت کے حقوق وہی ہیں جو ہر زندہ انسان کے ہیں، تو پھر چھ سات سو وعظ سننے کے باوجود جرگہ کے کسی رکن نے یہ کیوں نہ کہا کہ یہ ظلم یہ قتل خلاف اسلام ہے؟ اس بات پر بھی غور کیجیے کہ عنبرین کا جرم یہ تھا کہ اس نے صائمہ کو گھر سے بھاگ کر مرضی کی شادی کرنے میں مدد بہم پہنچائی۔ چنانچہ عنبرین کو مار کر جلا دیا گیا۔ مگر جس مرد نے مدد بہم پہنچائی، اسے مارا گیا نہ جلایا گیا۔ اسے صرف یہ سزا دی گئی کہ اس کی گاڑی کو جلایا گیا!
کوئی مانے نہ یا نہ مانے، حقیقت اور ناقابل انکار حقیقت یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ جاہلی ہے جہاں عورت محض ایک جنس ہے۔ آلو، گندم یا فرنیچر کی طرح ایک شے! اور اوپر سے مذہب کی پاکستانی تعبیر عورت کو مزید ذلیل کر رہی ہے! یہی وجہ ہے کہ پنجاب حکومت نے عورتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے بل پیش کیا تو مذہبی طبقے میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ یہ سب خم ٹھونک کر میدان میں آ گئے! جیسے عورت نے ان مذہبی لوگوں کو جنم دے کر غلطی کا ارتکاب کیا! خبر کے اس حصے پر بھی غور کیجیے کہ… واقعے کا پورے گائوںکو علم تھا مگر کسی نے پولیس کو اطلاع نہیںدی۔ اس گائوں میں یقینا مسجد بھی ہوگی، مدرسہ بھی اور مولوی صاحب بھی! اگر کوئی جھوٹی سچی افواہ پھیلتی تو مولوی صاحب نے آدھی رات کو لائوڈ سپیکر کھول کر لوگوں کو اتنا مشتعل کرنا تھا کہ بستیوں کی بستیاں راکھ ہو جانی تھیں۔ مگریہاں چونکہ حوا کی بیٹی ماری اور جلائی گئی اس لیے مولوی صاحب کے کان پر جوں تک نہ رینگی!
یہ ایک سنجیدہ سوال ہے کہ ہمارے مذہبی حضرات عورت کے دشمن کیوں ہیں؟ یہ اکثر و بیشتر فرماتے ہیں ’’اسلام نے عورت کو بہت حقوق دیئے ہیں‘‘۔ یہ حقوق ان حضرات کو صرف اس وقت کیوں یاد آتے ہیں جب کسی اسمبلی میں عورتوں کے حقوق کا بل پیش یا پاس ہوتا ہے؟ جس اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ کی تعلیمی استعداد پر یہ حضرات اپنی نجی محفلوں میں ہر روز شک کرتے ہیں، عورتوں کے بارے میں ہر بل اسی کونسل کو بھیجنے پر کیوںاصرار کرتے ہیں؟ آج تک جی ہاں… آج تک ان حضرات کی بھاری اکثریت عوام کو یہ بتانے سے کیوں قاصر رہی کہ عورت کی رضا کے بغیر اس کا نکاح زبردستی کرانا ناجائز ہے؟ عورت کے حقوق کا سنتے ہی ان حضرات کے تن بدن میں آگ کیوں بھڑک اٹھتی ہے۔ یہ درست ہے کہ برہنگی، نیم برہنگی اور بے حیائی وہ امور ہیں جن کی ہمارا دین ہمیں اجازت نہیں دیتا مگر دین میں یہ کہاں لکھا ہے کہ عورتوں کو مارا جائے، جلایا جائے، پانچ سال کی بچی کا نکاح ستر سال کے بڈھے کھوسٹ سے کیا جائے۔ اس لیے کہ بچی کے باپ یا بھائی نے کسی جرم کا ارتکاب کیا تھا! گزشتہ پچاس برس کے اخبارات چھان مارے، کسی عالم دین کا کوئی بیان کاروکاری، ونی یا اسوارہ کی مذمت میں نہیں ملے گا! پہلی بار یہ ہوا ہے کہ علما کے ایک گروہ نے اجتماعی شرعی اعلامیہ میں ایبٹ آباد کے حالیہ واقعہ کو غیر شرعی قرار دیا ہے۔ اور کہا ہے کہ ’’اسلام میں نجی عدالتوں اور جرگوں کی کوئی گنجائش نہیں! مگر پیش منظر پر جو مکتب فکر جو مسلک چھایا ہوا ہے اس کی جانب سے خاموشی ہے!
بات بات پر عرب دنیا کا حوالہ دینے والے یہ کیوں نہیں بتاتے کہ وہاں آج بھی عورت شادی کا پیغام مرد کو خود بھیج سکتی ہے اور بھیجتی ہے! سعودی عرب کا کثیرالاشاعت انگریزی اخبار یہ حدیث بیان کرسکتا ہے تو ہمارے ہاں کیوںنہیںبیان کی جاتی۔ ’’ایک عورت نے بارگاہ رسالت میں آ کر شکایت کی کہ اس کے والد نے اپنے رشتہ داروں میں اس کی شادی زبردستی کر دی ہے تاکہ اس بندھن سے والد کا سماجی مرتبہ بلند ہو جائے۔ آپﷺ نے شادی منسوخ فرمادی۔ شادی منسوخ ہونے کے بعد عورت نے کہا۔’’اب میں اس شادی پر راضی ہوتی ہوں۔ میں صرف یہ چاہتی تھی کہ عورتوں کو معلوم ہو جائے کہ ان کے معاملات میںمردکو اختیار نہیں!‘‘
یہ درست ہے کہ عورت کی شادی میں اس کے والد یا سرپرست کو موجود ہونا چاہیے مگر یہ کہاں لکھا ہے کہ زبردستی ایک مرد ساری زندگی کے لیے اس پر مسلط کر دیا جائے؟ اللہ کے بندو! بیٹی کو بھیڑ بکری نہ سمجھو! اسے چوائس دو۔ اگر وہ کسی مرد سے شادی نہیںکرنا چاہتی تو کیا وہ مرد دنیا میں آخری مرد ہے؟ تم اس کے لیے ایسا لڑکا بھی تو تلاش کرسکتے ہو جس پر تم بھی راضی ہو اور وہ بھی خوش ہو! اور اگر وہ شائستگی سے اشارہ دیتی ہے کہ وہ فلاں مرد سے شادی کا بندھن باندھنا چاہتی ہے تو اس پر مثبت رویہ اپنائو۔ ہمدردی سے غور کرو! یہ کہنا کہ شادی ہماری مرضی سے ہوگی، تمہاری مرضی سے نہیں! جہالت کے سوا کچھ نہیں! شادی کے لیے والدین کے علاوہ لڑکی کی رضامندی بھی لازم ہے۔ ہاں، جس لڑکے سے وہ شادی کرنا چاہتی ہے اگر وہ چوراچکا اٹھائی گیرا ہے، اگر اس کا خاندان ملک کی دولت لوٹ کر پاناما میں رکھ آیا ہے، یا اگر لڑکے کے دو سر ہیں چار ہاتھ ہیںاور اس کا چہرہ پیچھے کی طرف ہے تو پھر لڑکی کو بتا دو کہ یہ وجہ ہے جس کی وجہ سے غور کیے جانے کے باوجود شادی نہیں ہوسکتی!
لڑکیاںگھروں سے بھاگ کر شادیاںکیوں کرتی ہیں؟ اس کی سب سے بڑی وجہ ہے کہ اس معاملے میں ان کے وجود ہی کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ دادی سے لے کر تایا تک اور خالہ سے لے کر دور کی پھپھو تک سب سے مشورہ کیا جاتا ہے۔ مگر لڑکی سے مشورہ کرنے کا کوئی تصور ہی نہیں! یہاں تک کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ گھرانوں میں بھی اسی جہالت کا دور دورہ ہے۔ ایک دوست بتا رہے تھے کہ وہ اپنے بیٹے کا رشتہ لے کر ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بلند منصب سے ریٹائرڈ، صاحب کے گھر گئے! لڑکی ڈاکٹر تھی! کئی ہفتے مہینے گزرگئے، سلسلہ جنبانی ہوتی رہی! بالآخر لڑکے کے باپ نے کہا کہ ’’حضرت !کچھ فیصلہ کیجیے! جواب ملا کہ ابھی لڑکی کی دادی اور لڑکی کے تایا بیرون ملک ہیں۔ آئیں گے تو فیصلہ ہوگا! آج وہ لڑکا، ایک بچے کا باپ بن چکا ہے اور وہ بے زبان ڈاکٹر لڑکی اسی طرح باپ کے گھر میں بیٹھی ہے! پطرس بخاری نے لکھا تھا کہ سائیکل کا ہر پرزہ بج رہا تھا، سوائے گھنٹی کے۔ خاندان کے ہر چھوٹے بڑے سے مشورہ کیا جاتا ہے۔ اگر نہیں پوچھا جاتا تو اس لڑکی سے، جس نے لڑکے کے ساتھ، لڑکے کے خاندان میں زندگی بسر کرنی ہے!
ظلم کی انتہا یہ ہے کہ ان سماجی رویوں کو، معاشرے کی ان برائیوں کو، پتھر کے زمانے کے اس رسم و رواج کو، مذہب کے کپڑے میں لپیٹ کر پیش کیا جاتا ہے تاکہ صدیوںپرانی ان فرسودہ روایات پر اعتراض کوئی نہ کر سکے! سچ کہا جاتا ہے کہ افغانستان اورپاکستان میں اسلام جو تعبیر بھگت رہا ہے، اس کی مثال باقی اسلامی دنیا میں
کہیں نہیں ملتی!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“