انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ مسلمان عوام کا احتجاج دیوار سے سر ٹکرانے کے مترادف ہے لیکن مسلم حکمران کبھی وہ نہیں کریں گے جو انہیں کرنا چاہئے۔
ان ”باغیرت“ حکمرانوں کا مفاد اسی میں ہے کہ تھوڑے تھوڑے عرصہ بعد کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ رونما ہو کہ مسلمان عوام سیخ پا ہو جائیں۔ احتجاج کریں، اپنی ہی املاک کی توڑ پھوڑ کریں، اپنے ہی لوگوں کو ماریں۔ یوں ان کی توجہ ان حکمرانوں کے طرز زندگی سے ہٹی رہے۔ ایسا طرز زندگی جس کا قانونی جواز ہے نہ شرعی اور نہ ہی اخلاقی۔ احتجاج کی اس لہر میں اگر امریکی مارے جاتے ہیں تو اسے بھی یہ حکمران اپنے فائدے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ وہ امریکیوں کو یہ باور کراتے ہیں کہ ان عوام کو صرف وہی قابو میں رکھ سکتے ہیں۔
جلوس…. جن کی قیادت ایسے لوگ کرتے ہیں جن میں سے بہت سوں کا ذریعئہ معاش ہی کسی کو نہیں معلوم!
ہڑتالیں…. جن کی زد اپنی ہی معیشت پر پڑتی ہے۔
سرکاری دفاتر نذر آتش، سینکڑوں گرفتار، لانگ مارچ، شاہراہوں کی بندش، شٹر ڈاﺅن، ہوائی فائرنگ، لاٹھی چارج، کنٹینرز اور کاریں تباہ، ہلاک ہونے والے بھی مسلمان۔ زخمی ہونے والے بھی مسلمان، گرفتار ہونے والے بھی مسلمان۔ گرفتار کرنے والے بھی مسلمان۔ گستاخانہ فلم بنانے والے اس صورتحال پر حالت جشن میں ہیں لیکن پچاس سے زیادہ مسلمان ملکوں کے سربراہ کیا کر رہے ہیں؟
اس سوال کا جواب اس انداز زندگی میں ہے جو ان کی غالب اکثریت نے اپنایا ہوا ہے۔ دنیا کے امیر ترین سربراہان مملکت کی فہرست بنائی جائے تو دوسرے، تیسرے، چوتھے، پانچویں، چھٹے، آٹھویں، دسویں، گیارہویں، تیرہویں، چودھویں، سترھویں اور اٹھارہویں نمبر پر مسلمان ملکوں کے سربراہ ہیں۔ کسی کی ”ذاتی“ دولت چار ارب ڈالر ہے، کسی کی اٹھارہ ارب اور کسی کی بیس ارب ڈالر۔ یہ نفسیاتی مریض کہیں محلات خرید رہے ہیں، کہیں جزیروں کے جزیرے، کہیں پورے پورے فائیو اور سیون سٹار ہوٹل اور کہیں دنیا کے گراں ترین سپر سٹور اپنے نام منتقل کرا رہے ہیں۔ کچھ عرصہ ہوا ہسپانیہ کے سب سے مہنگے شہر ”مار بیلا“ میں مشرق وسطیٰ کا ایک مسلمان حکمران ”آرام“ کرنے آیا۔ یہ شہر ارب پتی رﺅسا، ایکٹروں، ایکٹریسوں، گویوں اور کھلاڑیوں کی رہائش کے لئے مشہور چلا آ رہا ہے۔ جنسی فلموں میں کام کرنے والی رسوائے زمانہ اداکارائیں بھی ”ریٹائرمنٹ“ کے بعد یہیں کا رخ کرتی ہیں۔ بادشاہ سلامت کے افراد خانہ سمیت کل تین ہزار کا گروہ تھا۔ ہسپانیہ کے دارالحکومت میڈرڈ سے چار سو پچاس کلومیٹر جنوب مشرق میں واقع اس شہر میں ایک عالی شان محل ہے جس کا نام مرمر ہے۔ 185 ملین ڈالر اسے ازسرنو تیار اور صاف کرنے پر لگے۔ محل کے اردگرد کے اعلیٰ ہوٹلوں میں سینکڑوں کمرے الگ مختص کرائے گئے۔ زیورات کی دکانیں اور ریستوران اپنے مقرر کردہ اوقات بھول گئے۔ تیس کروڑ ڈالر کی شاپنگ ہوئی۔ یہی وہ موقع تھا جب یورپین پارلیمنٹ کی اطالوی رکن ایما بونینو کے تاثرات کچھ اس طرح کے تھے کہ شاہی خاندان اپنے ملک سے زیادہ، باہر کے ملکوں میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ پورے یورپ میں یہ خبر عام تھی کہ شاہی قافلہ پچاس لاکھ یورو روزانہ خرچ کرتا ہے۔ کبھی تردید نہیں ہوئی۔
سلطان برونائی کے محل میں ایک ہزار سات سو اٹھاسی غسل خانے، پانچ سوئمنگ پول اور ائرکنڈیشنڈ اصطبل ہیں۔ ایک سو دس گاڑیوں کے گیراج ہیں۔ ایک سو پینسٹھ رولز رائس کاریں اس کے علاوہ ہیں۔ صرف یہ سوچئے کہ محل کی صفائی اور روزمرہ کی دیکھ بھال پر کتنا خرچ اٹھتا ہوگا۔
راچٹسر، امریکی ریاست منی سوٹا کا چھوٹا سا قصبہ ہے جہاں دنیا کا مشہور ترین ہسپتال میو کلینک واقع ہے۔ دنیا کا پہلا بائی پاس آپریشن یہیں کیا گیا تھا۔ اس کی کثیر المنزلہ عمارت کا وہ فلور اس کالم نگار نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے جو پورے کا پورا ایک مسلمان شاہی خاندان نے خرید لیا تھا۔ مقصد تو بیمار دل کا علاج کرانا تھا لیکن پورے فلور کے سارے کمروں کے تالے، کنڈے اور غسل خانوں کی ٹونٹیاں خالص سونے کی لگائی گئیں۔ پھر نائن الیون آ گیا اور یہ رہائش گاہیں چھوڑنا پڑیں۔ ہسپتال کی انتظامیہ نے کمروں میں لگا ہوا سونا نیلام کرنا چاہا لیکن کسی نے بھی خریدا نہیں۔ جس چھوٹے سے قصبے میں بھی ایک بہت بڑی پبلک لائبریری تھی، وہاں کے مکین اتنے بے وقوف کیسے ہو سکتے تھے کہ سونے کی بیکار ٹونٹیاں اور تالوں کے کنڈے خریدتے۔
گستاخانہ فلم کی وجہ سے مسلمان عوام کی جان پر بنی ہے۔ وہ مارنا چاہتے ہیں یا مرنا چاہتے ہیں۔ پچپن مسلمان حکمرانوں میں سے کسی ایک کو بھی یہ توفیق نہ ہوئی کہ وہ ایک جہاز لے کر ہر مسلمان دارالحکومت میں جاتا اور مشورہ کرکے سب کو اکٹھا کر لیتا۔ عرب لیگ کو جھُرجھری آئی نہ اسلامی کانفرنس میں ”زمین جنبد نہ جنبد گل محمد“ والی صورت حال بدلی۔
اس کالم نگار کا دعویٰ ہے کہ اگر پچپن مسلمان ملکوں کے سربراہ اکٹھے ہو کر بیٹھیں اور بیک آواز امریکہ سے مطالبہ کریں کہ جس طرح یہودیوں کے ہولو کوسٹ سے انکار کرنا قانوناً جرم ہے، اسی طرح اسلام، پیغمبر اسلام اور قرآن پاک کی توہین کو بھی قانوناً جرم قرار دیا جائے تو امریکہ کے پاس جائے مفر نہیں ہوگا۔ اگر امریکہ یہ مطالبہ تسلیم نہ کرے تو مسلمان ملکوں کے یہ سربراہ صرف تین فیصلے کر دیں۔ اول۔ وہ اپنے سفیروں کو امریکہ سے واپس بلا لیں اور امریکی سفیروں کو ملک چھوڑنے کا حکم دے دیں۔ دوئم کسی بھی امریکی کو، بلا استثنیٰ، کسی بھی مسلمان ملک کے اندر داخل ہونے کا ویزہ نہ دیا جائے اور سوم‘ مسلمان ملکوں میں موجود تمام امریکیوں کو نکل جانے کا حکم دے دیا جائے۔ اس راستے میں مشکلات ہیں لیکن اگر مسلمان ملکوں کے سربراہ مستقل مزاجی اور عالی ہمتی سے کام لیں اور پیٹھ نہ دکھائیں تو امریکہ چند ہفتوں میں نہیں تو چند مہینوں میں گھٹنے ٹیک دے گا۔
ہمارے جلسوں، جلوسوں اور ہماری املاک کی ہمارے اپنے ہاتھوں تباہی، امریکی پریس میں نصف کالمی سرخی بھی نہیں بنا سکتی۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ یو ٹیوب بھی ان کی ہے اور ڈرون جہاز بھی ان کے ہیں۔ اقبال نے کہا تھا
ہوائیں ان کی، فضائیں ان کی، سمندر اُن کے جہاز اُن کے
گرہ بھنور کی کھُلے تو کیوں کر، بھنور ہے تقدیر کا بہانہ
اس بے بضاعتی میں اگر کچھ ہو سکتا ہے تو سربراہوں کے متحدہ اقدام ہی سے ہو سکتا ہے۔