صرف سورج؟؟
2015
ء کا سورج غروب ہو کر شفق کی کرسی نئے سورج کے لیے خالی کر رہا ہے؟
بحرالکاہل کے کنارے جس شہر میں یہ منظر دیکھ رہا ہوں وہاں آج درجۂ حرارت چالیس کے قریب ہے۔ دنیا کے اس گوشے میں سورج کا زاویہ ہی شاید ایسا ہے کہ شعائیں کاٹتی ہیں اور دھوپ سوئیوں کی طرح چبھتی ہے۔ نیوایئر کی تیاریاں زوروں پر ہیں۔ سب سے بڑا ہنگامہ آور اجتماع سڈنی ہاربر(بندرگاہ) پر ہوتا ہے۔ دھوپ کو ترستے سفید فام گروہ یورپ اور امریکہ کی برفانی ہوائوں سے بھاگ کر اِدھر کارخ کرتے ہیں۔
کتنے ہی نئے سال آئے، کتنے ہی سورج وقت کی دھول میں کھو گئے ؎
رنگ جماکے اُٹھ گئی کتنے تمدنوں کی بزم
یاد نہیں زمین کو، بھول گیا ہے آسماں
ہر نئے سال کی رات میلے منعقد ہوتے ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں بس یہی نیو ایئر نائٹ ہے جو دنیا میں جگمگا رہی ہے اور جھلملا رہی ہے۔ گزری ہوئی صدیوں سے بے نیاز، آتی رُتوں سے بے خبر!
مجید امجد نے کہا تھا ؎
مگر آہ یہ لمحۂ مختصر جو مری زندگی میرا زادِ سفر ہے
مرے ساتھ ہے میرے بس میں ہے میری ہتھیلی پہ ہے یہ لبالب پیالہ
یہی کچھ ہے لے دے کے میرے لیے اس خراباتِ شام و سحر میں یہی کچھ!
انسان کے لیے آسمان کا وہی ٹکڑا اُس کا اپنا ہے جتنا اُسے کھڑکی میں سے نظر آتا ہے۔ اُسے اس سے کیا غرض کہ ایک پرانی صدی جب آخری سانسیں لے رہی تھی تو سرنگا پٹم میں ٹیپو پر کیا گزر رہی تھی۔ پھر ایک اور صدی گزر گئی۔ ہمالیہ سے لے کر سری لنکا تک اور طورخم سے لے کر رنگون تک ایک ایک انچ پر اُن کا قبضہ ہو گیا جن کے پاس طاقت تھی اور ٹیکنالوجی تھی اور اپنے ملک کے جھنڈے کو ہر جگہ لہرانے کی دُھن تھی اور تدبیر تھی؟
انسان ماتم کرے بھی تو کیوں؟ وہ اپنے حصے کی نیوایئر نائٹ دوسروں کے لیے روتے ہوئے کیوں گزارے؟ اُس کے تو نصیب میں وہی کچھ ہے جو اُس کے پاس ہے۔ اُس کی آنکھ جس غنچے کو چٹکتا دیکھ رہی ہے وہی اس کا ہم سفر ہے۔ اسے گلی میں کھیلتے بچوں کی جو آوازیں آ رہی ہیں، وہی اس کے لیے زندگی کی علامت ہیں! اس کا عشق اُسی زلف کا اسیر ہے جو اس کے دل کے گرد لپٹی ہوئی ہے۔ اُسے اس سے کیا غرض اگرقلوپطرہ خوبصورت تھی یا ڈیانا جنتِ نگاہ تھی۔ اُسے تو یہی معلوم ہے کہ ؎
یہ دنیائے امروز میری ہے، میرے دلِ زار کی دھڑکنوں کی امیں ہے
یہ اشکوں سے شاداب دو چار صبحیں، یہ آہوں سے معمور دو چار شامیں
انہی چلمنوں سے مجھے دیکھنا ہے وہ جو کچھ کہ نظروں کی زد میں نہیں ہے
لُو کے تھپیڑے بحرالکاہل سے اُٹھ رہے ہیں۔ آسٹریلیا کا صحرا جھلس رہا ہے !نئے سال کی کئی راتیں یاد آ رہی ہیں جو میں نے اپنے گائوں میں ’’منائی‘‘ تھیں! ہم راتوں کو، لالٹین بجھا کر، لحاف اوڑھ کر سو جاتے۔ ہماری نیند کے دوران ہی سال رخصت ہو جاتا تھا۔ صبح اُٹھتے تھے تو ایک نیا برس ہوتا تھا۔ مگر سب کچھ تو وہی ہوتا تھا! وہی دھواں جو اُس چھپر نما کمرے میں بھرا رہتا تھا جو رسوئی کا کام دیتی تھی۔ وہی کچے صحن، کیچڑ سے بھرے ‘جن پر جھپ جھپ چلتے، چھینٹے اڑاتے، ہم دوڑتے پھرتے تھے! پھر بابا بہادر خان، چار خانے والا کھیس اوڑھے، گلی میں سے، کلمہ پڑھتے، گزرتا تھا کہ مسجد سے وہ ہمیشہ دن چڑھے واپس آتا تھا! چرواہوں کے لیے کوئی چھٹی نہیں ہوتی تھی۔ نئے سال کی پہلی صبح بھی وہ ڈھور ڈنگروں کو ہانکتے، چتکبری گائے کو جھڑکتے، سست بھینسوں کو کوستے، ساتھ ساتھ چلتے کتے کو چمکارتے مویشیوں کی گردنوں میں پڑے ہوئے گھنگروئوں کی مترنم آوازوں کی لے کے ساتھ قدم اٹھاتے، گلی میں سے گزرتے تھے۔ شام کو لوٹتے تھے تو سروں پر کٹے ہوئے درختوں کی ٹہنیاں اُٹھائے، تھکے تھکے قدموں سے چل رہے ہوئے تھے۔ اُس وقت صحنوں میں تنور تپ رہے ہوتے تھے۔ دھوئیں کے مرغولے دیواروں سے اُٹھتے ہوا میں تحلیل ہو رہے ہوتے۔ نئے سال کا پہلا ’’ڈنر‘‘ بھی وہ پتلی دال اور کٹے ہوئے پیاز سے کرتے!
زمانے کے الٹ پھیر نے ایک نیوایئر نائٹ ہسپانیہ کے شہر بارسلونا میں دکھائی۔ شہر کے بڑے چوک پر خلقت جمع تھی۔ گھڑیال نے رات کے بارے بجائے تو بارہ بار گھنٹی بجی۔ ہر گھنٹی کے ساتھ لوگوں نے ایک انگور کھایا۔ یوں بارہ انگور کھانے کی رسم سارے ہسپانیہ اور ہسپانیہ کے زیر اثر، لاطینی امریکہ کے ملکوں میں ہر نیوایئر نائٹ کو منائی گئی۔
نئے سال کی وہ رات بھی یاد آ رہی ہے جو وقت کے ہچکولوں کے سبب اردن کے دارالحکومت عمان میں آئی۔ کتنی ہی تگ و دو کے بعد اُس اردنی دوست کو ڈھونڈ نکالا جو یورپ کے ایک تعلیمی ادارے میں میرا ہم جماعت تھا۔ فلیٹ کا دروازہ کھول کر باہر نکلا۔ مجھے دیکھا تو حیران ہوا، پھر خوشی سے اچھل پڑا۔ اُس کے فلسطینی رشتہ دار، نئے سال کی رات منانے فرانس سے بطور خاص آئے ہوئے تھے۔ خوشبودار پلائو سے بھری پراتیں چلغوزوں کی گریوں سے ڈھکی ہوئی تھیں۔ اور منوں کے حساب سے بریاں کیا ہوا گوسفند کا گوشت تھا۔
نئے سال آتے رہیں گے‘ غروب ہوتے رہیں گے۔ مگر کیا کوئی سال ایسا بھی آئے گا کہ مظلوموں کی دلجوئی خادمِ اعلیٰ نہیں، نظام کرے گا؟ کیا کوئی نیا برس ایسا بھی ہو گا کہ صوبے کی پولیس کا سربراہ، چیف منسٹر کی وجہ سے نہیں بلکہ ظالموں کی کمر، اپنے طور پر اپنا فرض سمجھتے ہوئے توڑے گا۔ یہ سال کا کیسا آخری دن ہے جو ہمیں خبر دیتا ہے کہ وزیر اعلیٰ ہیلی کاپٹر سے گائوں کے قریب اترے اور خود گاڑی چلاتے ہوئے اُس بدقسمت نوجوان کے گھر پہنچے جس کے دونوں ہاتھ ایک طاقتور نے کٹوا دیئے ہیں۔ کیا کوئی نیا سال ایسا بھی آئے گا کہ شفاف انکوائری، پولیس کا سربراہ، خادمِ اعلیٰ کی فرمائش کے بغیر کرے یا کروائے گا! کیا کوئی نیا سال ایسا آئے گا کہ قوم کو یہ بھی معلوم ہو گا کہ جہاں جہاں، خود جا کر حاکم نے سزا دینے کا وعدہ کیا تھا۔ اُن مجرموں کو سزا مل چکی ہے! کیا کوئی نیا سال ایسا بھی آئے گا جب ہمارے کانوں میں تسلی کی یہ روئی(کاٹن) نہیں ڈالی جائے گی کہ… ’’جب تک انصاف نہیں فراہم ہو گا میں چین سے نہیں بیٹھوں گا…‘‘ کیا کوئی نیا سال ایسا آئے گا کہ ظالم کو سزا، خودکار سسٹم کے تحت ملے گی اور مظلوم کے آنسو پونچھنے کے لیے ہیلی کاپٹر کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
کیا کوئی ایسا سال طلوع ہو گا کہ ہمیں دولت کے انبار سمیٹنے والوں سے نجات ملے گی؟ کیا کوئی نجات دہندہ آئے گا؟ کیا کوئی آئے گا؟ ہم کب تک اس امید پر بیٹھے رہیں گے کہ ؎
کوئی آئے گا اور سب کچھ بدل کے رکھ دے گا
یہ سورج بھی، یہ خلقت بھی، کوئی آئے گا
کوئی آئے گا اور غربت اطلس پہنے گی
بے چارگی کرنیں اوڑھے گی کوئی آئے گا
جو مٹی پائوں کے نیچے آتی رہتی ہے
کبھی ہو گی اس کی داد رسی کوئی آئے گا
ہماری قسمت صرف نئے سورج سے نہیں بدل سکتی! ہمیں تو سب کچھ نیا درکار ہے! نئی پولیس، نئی نوکر شاہی! نئے ادارے، نئے وزیر، نئے حکمران! ہمارا وہ حال ہے کہ اب مرمت نہیں، نئی تعمیر کی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس جو کچھ ہے، اُسے دیمک لگ چکی ہے! سڑاند آ رہی ہے۔ تعفن ہمارے اُوپر چادر کی طرح تن چکا ہے۔ بددیانتی ہمارے روئیں روئیں میں دھنس چکی ہے۔ جھوٹ اور وعدہ خلافی ہماری ہڈیوں کے گودے میں سما چکا ہے! ہمارے واعظ ہمارے تاجر، سب ہمیں فریب دے رہے ہیں۔ ہمیں صرف سورج نیا نہیں، سب کچھ نیا درکار ہے! نئی زمین! نیا آسمان! نئے چہرے! نئے شش جہات!!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“